پہلا حصّہ پڑھنے کے لیے لنک کھولیے
(نوٹ: یہ آیۃ اللہ العظمیٰ علامہ نائینی کی کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ“ کے قسط وار اردو ترجمہ کی دوسری قسط ہے۔ یہ کتاب 1909ء میں ایران میں آئینی جمہوریت کی تحریک کے دوران لکھی گئی تھی۔
دوسرا حصّہ
پہلا باب:
پہلے باب میں چند چیزوں کی وضاحت کی جائے گی۔
1: آمریت (Autocracy)
اور آئینی جمہوریت (حکومتِ مشروطہ)
2: آئین اور آئین ساز ادارہ یعنی مجلس شوریٰ۔
3: حریت و مساوات یعنی آزادی و برابری۔
اس بات پر اقوامِ عالَم کے عقلمندوں کا اتفاق ہے کہ انسانی سماج کی بقاء و تحفظ سیاست و ریاست سے قائم ہے۔ (1)
چاہے ریاست کا انتظام کسی ایک فرد کے ہاتھ میں ہو یا شوریٰ کے ہاتھ میں، چاہے ریاست کا حکمران حق پر ہو چاہے جبر سے کسی ملک پر قابض ہو۔
چاہے حکومت اس کو وراثت میں ملی ہو چاہے عوامی رائے سے منتخب ہوا ہو، بہرحال ایک حاکِم کا ہونا ضروری ہے۔
اسی طرح کسی بھی قوم کے وقار اور خودمختاری کا تحفظ، اور اس کی مذہبی اور قومی خصوصیات کی حفاظت ایک ایسی حکومت سے مشروط ہے جو اپنے سماج سے مناسبت رکھتی ہو۔
اگر ایسا نہ ہو تو تمام تر ترقی، دولت کی فراوانی اور شہروں کی آبادی کے باوجود اس قوم کی خودمختاری، اس کی قومیت اور اس کی مذہبی خصوصیات تباہ وبرباد ہوجائیں گی۔
اسی لئے شریعتِ مقدسہ میں اسلام کی شان وشوکت کی حفاظت اہم شرعی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام میں حکومت، امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ (2)
لہذا یہ بات واضح ہے کہ سماجی نظام کی بقاء اور قومی خودمختاری اور شرف کی حفاظت دو اصولوں پر قائم ہے۔
1: ملک کے داخلی نظام کی حفاظت اور اہل وطن کی تربیت، ہر حقدار کو اس کا حق دینا اور شہریوں کو ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی سے روکنا۔
2: غیروں کی مداخلت کو روکنا، دیگر اقوام کے حملوں کا دفاع کرنا اور جنگی صلاحیتوں کو محفوظ رکھنا۔
اس کو فقہی و شرعی زبان میں “شوکتِ اسلام” کی حفاظت کہا جاتا ہے۔ دیگر اقوام اس کو وطن کی حفاظت کہتے ہیں۔
اور شریعت کے وہ احکام جو ان دونوں اصولوں کے تحفظ کے لئے ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ سیاسی احکام اور تہذیبی آداب کہلاتے ہیں۔ یہ حکمت عملی کا دوسرا جزو بھی ہیں۔ (3)
دورِ قدیم میں ایران و روم کے سلاطین اپنے وزراء اور مشیروں کا انتخاب مذکورہ بالا امور اور فرائض کی بجا آوری کے لئے کرتے تھے۔
اسلامی شریعت نے ریاست سے متعلق بیان کردہ عقلی احکام میں نقائص کو دور کیا اور اس کے علاوہ کچھ شرائط و قیود کا اصافہ کیا۔ لیکن شریعت کا مقصد بھی یہی تھا۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ حاکم اورشہریوں کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ ہمارے خیال میں(یعنی میرزا نائینی کے خیال میں) اس کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یعنی حاکِم دو طرح کا ہوسکتا ہے۔
1: ایسا حاکِم جو خود کو ملک اور شہریوں کا مالک سمجھتا ہے اور ان سے ایسا سلوک کرتا ہے جیسے کوئی بھی فرد اپنی نجی ملکیت کی اشیاء سے کرتا ہے۔ ایسا حاکم شہریوں کو اپنے غلام اور کنیزیں بلکہ اپنی مملوکہ بھیڑ بکریاں سمجھتا ہے، جن کی زندگی کا مقصد صرف حاکم اور اس کے ساتھیوں کی خواہشات کو پورا کرنا ہے!
وہ جس کو اپنے مقصد کے لئے مفید سمجھتا ہے اس کو اپنے قریب کرلیتا اور جاہ ومنصب عطا کرتا ہے۔ اور جس کو وہ خواہشات کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتا ہے، اس کو جلاوطن کردیتا ہے یااپنے ان بھیڑیوں جیسے حواریوں کے حوالے کردیتا ہے جو اس کا خون بہانا اور اس کے مال وجائداد کو لوٹنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے پھانسی پہ چڑھا کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے پالتو کتوں کی غذا بنادیتا ہے۔
جس مال یا جائیداد پر اس کی نظر پڑتی ہے اسے اس کے مالک سے چھین لیتا یا اپنے ڈاکو ساتھیوں کے حوالے کردیتا ہے۔
وہ چاہے تو حقدار کا حق دے دے، چاہے تو چھین لے۔ پورے ملک میں من مانی کرتا ہے اور بیت المال میں جمع ہونے والے خراج(ٹیکس) کو بھی اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور ملک کی زمین کو اپنی نجی زمین سمجھتے ہوئےاس کو اپنے ذاتی عیش و آرام کے لئے استعمال کرتا ہے۔
ملک کا نظم و نسق اور وطن کی حفاظت بھی اس کے لئے ایسے ہی ہے جیسے کسان کے لئے اس کی اپنی زمین،یعنی اس کا دل چاہے تو حفاظت کرلی ورنہ ذرا سی چاپلوسی کرنے پر اپنے ہی رقیب کو ملک کے ٹکڑے کاٹ کر دے دیئے۔
اور جب دل چاہتا ہے عیاشی کے لئے دوسرے ملکوں کی سیر کو چل دیتا یا جنگلوں میں شکار کرنے چل پڑتا ہے۔ اور ان تعیشات کے لئے اسے اپنا ملک یا ملک کا کچھ حصہ گروی رکھنا پڑے تو اس پہ بھی تیار ہوجاتا ہے۔
اس کے لئے شہریوں کی عزت و آبرو کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جب دل چاہے کسی کی عزت و عصمت کی چادر تار تار کردے، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اور ان سارے جرائم کے باوجود اپنے لئے وہ القاب چنتا اور لکھواتا ہے جو خدائے عزوجل کے ساتھ مخصوص ہیں۔
اور اس کے حواری بھی ایسے ہوتے ہیں۔جو ان جرائم میں اسکی مدد کرتے ہیں۔ بلکہ ان جرائم کے لئے ملک و ملت کے تمام وسائل کو بروئے کار لا کر لوگوں کو یہ باور کروانے میں مصروف ہوتے ہیں کہ یہ سب تو ہمارے بادشاہ سلامت کا حق ہے۔ اور کوئی اس سے بازپرس کا حق نہیں رکھتا۔ حالانکہ یہ تو صرف خدائے متعال کی صفت ہے کہ “لایسئل عما یفعل و ھم یسئلون”
ترجمہ: وہ جو کام کرتا ہے اس کی پرسش نہیں ہو گی اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس کی ان سے پرسش ہو گی۔ (سورہ انبیاء، آیت 23)
حکومت کی اس قسم کو آمرانہ نظام کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت کی وہ شکل ہے جس میں سلطان کی پسند ہی قانون بن جاتی ہے۔ قوم کا روحانی اور مادی وجود سلطان کے ارادے میں فنا ہوجاتا ہے۔ اور بادشاہ اپنی رعیت کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو مالکان اپنی ذاتی املاک کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔
اسی وجہ سے حکومت کی اس شکل کو ملوکیت و آمریت کہا جاتا ہے۔ اس کو سلطنتی اور غلامانہ نظام حکومت بھی کہا جاتا ہے اور ایسے حکمران کو آمر، جابر، ڈکٹیٹر اور حاکمِ مطلق کہا جاتا ہے۔
وہ قوم جو آمرانہ نظام کی اسیر ہوتی ہے، انہیں قیدی اور غلام کہنا چاہیے۔ اور چونکہ وہ یتیموں اور نابالغوں کی طرح اپنی حیثیت اور اپنی ملکیت سے بے خبر ہوتے ہیں اس لئے ان کو افتادگانِ خاک بھی کہا جاتا ہے۔
بلکہ ایسی قوم جس کا اپنا کوئی ارادہ نہ ہو، اپنی کوئی پسند و ناپسند نہ ہو، سلطان کی پسند و ناپسند اس قوم پہ مسلط کی جاچکی ہو، جو اپنے حقوق سے جاہل ہو، چونکہ وہ اپنے لئے نہیں جیتی بلکہ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہوئے صرف دوسروں کے لئے جی رہی ہوتی ہے، اس لئے اس کو گھاس پھوس کہنا چاہیے۔ کیونکہ وہ بھی پودوں کی طرح ہیں جو صرف جانداروں کی خوراک بنتے ہیں اور ان کی اپنی کوئی ذات نہیں ہوتی۔
سلاطین اور ان کے درباریوں کی ذاتی خصوصیات اور ان کی علمی صلاحیت، نیز رعایا کے اپنے حقوق اور حکومت کی ذمہ داریوں سے متعلق علم کے مختلف ہونے کی وجہ سے حکومت کی اس شکل کے کئی مراتب ہوسکتے ہیں۔ اس کا آخری درجہ الوہیت کا دعویٰ ہے۔ جب حاکم، بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ خدا ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ جیسے گزشتہ ادوار میں فرعون کیا کرتے تھے۔
اگر کسی ملک کے رہنے والے بادشاہ کے اختیارات کے سامنے بند باندھنے کی ہمت رکھتے ہوں تو اس کے اختیارات محدود ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر رعایا اس عزم و حوصلے سے خالی ہو تو سلطان یا بادشاہ خدائی دعوی سے کم پر نہیں رکے گا۔
اور چونکہ عام لوگ اپنے بادشاہوں والا رویہ ہی اپناتے ہیں۔ اس لئے ایسے نظام حکومت میں ہر شخص اپنے ماتحت کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو حکمران اس کے ساتھ روا رکھتا ہے۔
دیکھا جائے تو ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ قوم کا اپنے حقوق اور حکومت کی ذمہ داریوں سے جاہل ہونا ہے۔ اور عوام کی طرف سے حکمرانوں کا محاسبہ نہ ہونے سے یہ صورتحال کو جاری و ساری رہتی ہے۔
حواشی و حوالے:
1: عرض مترجم: مصنف کی نظر میں ریاست کا وجود ضروری ہے۔ اگرچہ اس بات میں بھی اختلاف رائے موجود ہے۔انارکسٹ مفکرین ریاست کی ضرورت کی نفی کرتے ہیں۔
2: عرض مترجم: شیعہ اثنا عشری علمِ کلام میں امام، امت کے دینی و دنیاوی امور کا سربراہ ہوتا ہے۔ اور حکومت اس کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے جبکہ دین کی تفسیر و تشریح اور دین کا تحفظ اس کی دوسری بڑی ذمہ داری ہے۔
3 : عرض مترجم:
عام طور حکمت کی اصطلاح ،فلسفہ کے مترادف معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔اور فلسفیوں نے فلسفہ/حکمت کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک حکمت نظری۔
Theoretical philosophy/ wisdom
اور دوسری حکمت عملی۔
Practical philosophy/ wisdom۔
حکمتِ نظری کائناتِ ِ ہست و بود کی معرفت کا نام ہے۔ جبکہ حکمتِ عملی، انسان کے اختیاری افعال کے دائرے میں آنے والے امور کا مطالعہ کرتی ہے۔
سیاست، حکمتِ عملی کا جزو ہے۔
4 : عرض مترجم: میرزا نائینی نے یہاں”مستنبتین” کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ جو نباتات کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ مصنف یہ اصطلاح استعمال کرکے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو قوم اپنے حقوق سے واقف نہ ہو اور اپنے حقوق کے لئے حکومت وقت کے سامنے کھڑی نہ ہوسکے۔ اس کہ شعوری سطح نباتات یعنی پودوں کی طرح ہے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں