“مثل برگ آوارہ”سے۔
میں چاہتا تھا کہ نینا کو اپنا ملک دکھا لاؤں لیکن میں اس کی عزت نفس کا تحفظ بھی چاہتا تھا۔ شہر نژنی نووگورد کے ملبوساتی کارخانے سے کپڑے کی ایک بڑی مقدار دینے کا معاملہ طے ہو چکا تھا۔ یہ سودا کمیشن ایجنٹ الیکساندر نے کروایا تھا مگر میں نے نینا سے کہا تھا کہ مجھے معاہدہ لکھنے کی خاطر وہاں جانا ہے، بہتر ہے کہ وہ میرے ساتھ چلی چلے۔ معاونت کرے اور سودے کی رقم کا ایک فیصد اسے بطور کمیشن ملے گا۔ وہ تیار ہو گئی تھی۔ ہم دونوں اس شہر پہنچے تھے۔ معاہدہ لکھا گیا تھا۔ کارخانے کی انتظامیہ نے ہمیں اس شہر کا کریملن دکھانے کا اہتمام بھی کیا تھا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کریملن ماسکو میں ہے، جی یاں ماسکو میں بھی ہے۔ دراصل کریملن اصل میں لفظ کریمل ہے جس کا مطلب قلعہ بنتا ہے۔ ہر شہر کے انتظامی مرکز یا سیکریٹیریٹ کہہ لیں کو کریمل کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میں اور نینا دریائے وولگا کے کنارے پر چہل قدمی بھی کرتے رہے تھے۔ گاڑی رات کو جانی تھی۔ واپسی کے لیے میں نے ایس وے یعنی سپیشل کمپارٹمنٹ کے ٹکٹ خریدے تھے تاکہ رات اچھی کٹے۔ ایسے کمپارٹمنٹ میں صرف دو لوگوں کا سلیپر ہوتا ہے اور غسل خانے کا انتظام بھی۔ باقی وقت ہم نے الیکساندر اور اس کی بیوی کےساتھ بتایا تھا۔ جب ٹرین میں سوار ہونے کے لیے پہنچے تو میں پہلے سے سرور میں تھا۔ کیبن میں مزید پی لی تو میرا مغز خراب ہو گیا۔ میں لانگ انڈر ویئر میں ریل کے کاریڈور میں جانے پر بضد تھا جبکہ نینا مجھے ایسا کرنے سے روک رہی تھی کیونکہ معیوب تھا۔ اسی حیص بیص میں ایس وے کمپارٹمنٹ کا سارا مزہ کرکرا ہو گیا تھا۔ خاصی کل کل کے بعد میں سونے کے لیے ڈھے گیا تھا۔ صبح رات کو چڑھا نشہ اتر گیا تھا اور میں نے نینا کی منت سماجت کرکے اس کی ناراحتی رفع کر دی تھی۔ دو ایک ہفتوں کے بعد جب کپڑا ترسیل کر دیا گیا تو میں نے نینا کو آٹھ سو ڈالر بطور کمیشن دیے تھے، ساتھ ہی باور کرا دیا تھا کہ اسے یہ رقم میرے ساتھ پاکستان جانے پر خرچ کرنی ہے۔ نینا جانتی تھی کہ اصولی طور پر اس کی کوئی کمیشن نہیں بنتی تھی، مرزا نے اس کی عزت نفس کو برقرار رکھنے کی خاطر ایسا کیا تھا چنانچہ اس نے حامی بھر لی تھی۔
ان دنوں ایک برطانوی کمپنی روسی قومی فضائی کمپنی ایروفلوٹ کے مانچسٹر ماسکو کراچی کے ٹکٹ بیچتی تھی جو برطانیہ سے بن کر آتے تھے۔ ماسکو سے کراچی کا ریٹرن ٹکٹ اگر ساڑھے چھ سو ڈالر کا تھا تو ایسا ٹکٹ چار سو ڈالر میں مل جاتا تھا۔ میں نے نینا سے چار سو ڈالر لیے تھے اور پاکستان کا ٹکٹ منگوا لیا تھا۔ باقی چار سو ڈالر اس کا پاکستان کا جیب خرچ تھا۔ ظاہر ہے پاکستان میں بھی اس کا کچھ خرچ نہیں ہونا تھا، یہ بھی اسے ایک طرح کی ڈھارس تھی کہ وہ وہاں اپنا خرچ خود کرے گی۔
جب ندیم کی دونوں بیویاں باری باری ماسکو آئی تھیں تو نینا نے ان کی تعظیم اور تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ پھر ندیم ویسے بھی روشن خیال تھا، اس کی ایک بیوی تو اس کی سابق سیکرٹری رہی تھی جس کے ساتھ افیئر چلنے کے بعد خفیہ نکاح کیا تھا اس نے، چنانچہ مجھے یقین تھا کہ نینا اور مجھے اس کی دوسری بیگم کے ہاں ہی ٹھہرایا جائے گا۔ اس کی پہلی بیوی کا گھر اتنا بڑا بھی نہیں تھا اور کنبہ بھی زیادہ تھا، دوسرے وہ روایتی گھر تھا جہاں ایک غیر عورت کے ہمراہ قیام کا سوچا نہیں جا سکتا تھا۔
ندیم چونکہ نینا کی عزت کرتا تھا اس لیے وہ ہمیں لینے کے لیے خود ہوائی اڈے پہنچا تھا۔ راستے میں اس نے مجھ سے کہا تھا،” یار چاچا، گھر میں تو فرحت کے مہمان آئے ہوئے ہیں” عقلمند کو اشارہ کافی تھا چنانچہ میں نے کہا تھا کہ ہمیں کسی ہوٹل میں اتار دے۔ عاصم نے کہا “دیکھتے ہیں” اور پھر یہ کہتے ہوئے کہ اویس سے تو مل لو، گاڑی موڑ لی تھی۔ اویس میرا چھوٹا بھائی ہے اور خاصا مذہبی بھی۔ اس کے گھر کے باہر گاڑی کھڑی کرکے ندیم نے ہارن بجایا تو اویس نکل آیا تھا۔ میں اور نینا گاڑی میں ہی بیٹھے رہے تھے لیکن وہ تو چھوٹا بھائی تھا اس کا فرض بنتا تھا کہ ہمیں رہنے کے لیے کہے۔ اس نے کہا تھا ،”بھائی جان اتر جائیں اور چلیں گھر”۔ ہم دونوں اتر کر اندر چلے گئے تھے لیکن جانے سے پہلے میرے کان میں پڑ گیا تھا کہ اویس نے کار کے شیشے میں جھک کر ندیم سے کہا تھا، “تم بڑے ذلیل ہو”۔
تاہم اویس نے احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ ان کے آنے سے کبیدہ خاطر ہے۔ ایک پاکستانی مسلمان روایتی گھرانے میں غیر شادی شدہ مرد عورت کا ایک کمرے میں رہنا ناقابل قیاس امر ہے، میں خود شرمندگی محسوس کر رہا تھا اور ندیم کو دل میں کوس رہا تھا کہ اس نے مجھے عجیب مخمصے میں ڈال دیا تھا۔ تھوڑا سا آرام کرنے کے بعد اویس ہمیں اپنی گاڑی میں روایتی کھانے کھلانے لے گیا تھا۔ اس نے ہمیں بلکہ خاص طور پر نینا کو مختلف طرح کے پراٹھے جیسے ادرک کے پراٹھے، قیمے کے پراٹھے اور اسی طرح کے کئی پراٹھے کھلائے تھے۔ اس کے بعد وہی پاکستانی مہمان نوازی کہ آئس کریم کھا لیں، یہ بھی کھا لیں وہ بھی کھا لیں۔ نینا بہت خوش تھی کیونکہ اس کو ابھی اس معاملے کا علم نہیں تھا جو ان دونوں بھائیوں کے اذہان میں جا گزیں تھا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں