“مثل برگ آوارہ”سے
کراچی میں چند روز بہت اچھے گذرے تھے۔ اویس اور ندیم دونوں نے بہت خدمت کی تھی۔ ندیم کی دونوں بیویوں کے ہاں دعوتیں ہوئی تھیں بلکہ اس کی چھوٹی بیگم کے ہاں تو نینا، میں اور ندیم نے وہسکی بھی نوش جان کی تھی۔ ظاہر ہے کہ میں نے نینا کو سارا کراچی دکھایا تھا۔
میں نے پروگرام بنایا تھا کہ وہ نینا کو ایئرکنڈیشنڈ ریل گاڑی میں جو صبح کے وقت چلتی تھی، ملتان لے جاؤں گا جہاں سے ہم اپنے آبائی قصبے جائیں گے پھر لاہور اور اسلام آباد۔ صبح کو گاڑی پر سوار کرانے کے لیے اویس ہی ہمیں اپنی کار میں لے کر گیا تھا۔ ریل گاڑی میں بٹھا کر واپس جانے سے پہلے اویس نے مجھے ایک بند لفافہ پکڑایا تھا اور یہ کہہ کر کہ اس میں بند خط پڑھ لیجیے گا، گاڑی سے نکل گیا تھا۔ گاڑی چل پڑی تھی۔ میں نے لفافہ چاک کیا تھا۔ اس میں وہی کچھ تھا جس کی مجھے توقع تھی۔ وہ ساری ناصحانہ باتیں جو ایک روایتی چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کو براہ راست نہیں کہہ سکتا تھا۔ خط کو پڑھتے ہوئے میرے چہرے کے عضلات کے اتار چڑھاّؤ کو دیکھتے ہوئے نینا نے پوچھا تھا کہ اس میں تمہارے چھوٹے بھائی نے کیا لکھا ہے؟ میں نے حسب معمول غلطی کرتے ہوئے نینا کو اس خط میں مندرج سب کچھ بتا دیا تھا۔ نینا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے اور اس نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا ” تو کیا انہوں نے مجھے آوارہ عورت خیال کیا ہے”۔ میں نے اسے سمجھایا تھا کہ اس خط میں اویس نے تمہارے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا البتہ اس نے اپنے بھائی کی آوارگی پر اپنی آزردگی ضرور ظاہر کی ہے مگر لگتا تھا کہ نینا کی تسلی نہیں ہو سکی تھی۔ اوپر سے جب ٹکٹ چیکر آیا تو اس نے مجھ سے پوچھا یہ آپ کی بیوی ہیں۔ میں نے بتایا تھا کہ نہیں یہ میری دوست ہیں۔ اس پر ٹکٹ چیکر نے کہا تھا ،”یہ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتیں”۔ اس پر میں نے بھائی کے لکھے خط کی پوری رنجش چیکر سے بحث کرنے میں اتار دی تھی کہ معلوم نہیں پاکستان میں لوگوں کو کسی کے ذاتی معاملات میں مخل ہونے کا اتنا شوق کیوں ہے، چیکر اپنا سا منہ لے کر آگے بڑھ گیا تھا۔
ملتان سٹیشن پر اتر کر ہم دونوں رکشا میں سوار ہو کر میرے بہت نزدیکی ہم نوالہ و ہم پیالہ دوست کے ہاں پہنچے تھے، جسے ان کے آنے کی اطلاع تھی۔سید صابر حسین شاہ ہمدانی کے گھر پہنچے تھے۔ وہ گھر پر نہیں تھا۔ اس کی بیگم نے بیٹھک کھلوا کر ہمیں بٹھا دیا تھا اور بتایا تھا کہ “شاہ جی بس کچھ دیر میں آ جائیں گے”۔ کوئی گھنٹے بعد شاہ جی بھی پہنچ گئے تھے۔ بڑے تپاک سے ملے تھے۔ نینا کو جنٹلمین کی طرح ہیلو کہا تھا، پوچھا تھا کہ تمہاری بھابی نے چائے وغیرہ پلائی یا نہیں؟ پھر گویا ہوئے تھے کہ یار، چھوٹے بھائی کے سسرال والے آئے ہوئے ہیں، اس لیے میں نے تم لوگوں کی رہائش کا بندوبست ایک گیسٹ ہاؤس میں کیا ہے۔ وہاں تمہاری دوست خاتون زیادہ سہولت سے رہے گی۔ میں نے اپنی مسکراہٹ دبا لی تھی۔
پھر ہم گیسٹ ہاؤس چلے گئے تھے۔ شاہ جی یہ کہہ کر کہ تم لوگ ذرا استراحت کر لو میں شام کو آتا ہوں، چلے گئے تھے۔ شام کو شاہ جی پہنچ گئے تھے۔ میں اپنے دوست شاہ جی کے لیے “ڈمپل ڈیلکس وہسکی کی بوتل لایا تھا جو میں نے اسے تحفہ کی تھی۔ شاہ جی نے کہا تھا یار کھولتے ہیں تمہارا تحفہ اور پیتے ہیں۔ بیرے کو بلایا تھا جو برف اور دیگر لوازمات لے آیا تھا۔ تیسرا پیگ پینے سے پہلے شاہ جی نے اپنی شرارتی مسکراہٹ کو اپنی فرنچ کٹ داڑھی میں چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک کاغذ کا پرزہ نکالا تھا اور کہا تھا، “یار یہ تمہاری بھابی نے صیغہ کی دعا لکھ کر دی ہے، اس کا ورد کر لینا” اس پر میں نے شاہ جی کو کہا تھا، ” ایتا تی بروتس” یعنی “بروٹس تم بھی” ۔ ۔ ۔ وہ نہیں نہیں کہتا رہا تھا لیکن سچ تو سچ تھا۔ شراب نوشی گناہ نہیں لیکن بستر پر ایک ساتھ جانے سے پہلے صیغہ کی دعا پڑھ لینی چاہیے۔ میں نے یہ بات نینا کے گوش گذار نہیں کی تھی۔ اگلے روز میں نے اپنے دوست ڈاکٹر اقبال اور اس کی بیگم مونا کے ہمراہ نینا کو ملتان کے قابل دید مقامات دکھائے تھے اور مزید ایک روز بسر کرنے کے بعد ٹیکسی کار پر سوار ہو کر اپنے قصبے کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔
آبائی گھر میں ایک نامحرم عورت کو ساتھ لے کر جانا میرے لیے بہت بڑا امتحان تھا کیونکہ وہاں رہنے والے دونوں بڑے بھائی اور دو بہنیں بہت مذہبی تھے لیکن مجھے گھبراہٹ ہرگز نہیں تھی کیونکہ وہ سب مہمان نواز لوگ تھے۔ مہمان عورت ہو یا آدمی اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ میں نے یہی سمجھا تھا کہ ہمیں علیحدہ علیحدہ کمرے دیے جائیں گے۔ آنے کے کوئی آدھ پونے گھنٹہ بعد میرے منجھلے بھائی نے کہا تھا کہ میاں تم دونوں کے لیے فلاں کمرہ ہے، باتھ روم بھی بالکل ساتھ ہے، مجھے ایسے لگا تھا جیسے مجھ پر منوں پانی پڑ گیا ہو مگر مجھے اپنے بڑے بھائی کی یہ انسان دوستی اور جمہوریت پسندی بہت بھائی تھی جنہوں نے ایک بھی معترضانہ لفظ نہیں کہا تھا۔
اس سے مجھے حوصلہ ملا تھا۔ میرے آبائی گھر میں عورتوں کے پردے کی انتہائی پابندی تھی مگر میں نے بھتیجے کی موٹر سائیکل نکالی تھی اور نینا کو پیچھے بٹھا کر اپنا چھوٹا سا قصبہ گھمانے نکل کھڑا ہوا تھا۔ بھرے بازار کے بیچ مجھے مولانا مشتاق دکھائی دیے تھے۔ مولانا مشتاق مجھ سے چند سال ہی بڑے تھے جن سے بے تکلف بات چیت تھی۔ میں نے ان کے پاؤں کے نزدیک پہنچ کر بریک لگائی تھی۔ مولانا اچھل کر مڑے تھے اور مجھے دیکھ کر ” اوہ آپ مرزا بھائی!” کہہ کر گلے لگ گئے تھے ، پھر فوراً خیال آتے ہی خاتون کو سلام کیا تھا اور کہا تھا،”مرزا بھائی آپ کی اہلیہ ہیں ناں”۔ میں نے کہا تھا نہیں مولانا یہ میری دوست ہے۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ ” ٹھیک ہے جی ٹھیک ہے، آج رات کا کھانا ہمارے ہاں کھائیں گے آپ”۔ مجھے اچنبھا بھی ہوا کہ یہ فوری کھانے کی دعوت کیسے مگر میں نے قبول کر لی تھی۔ مجھے مولوی مشتاق سے چھیڑ چھاڑ اچھی لگتی تھی۔

جاتی ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں