میری دوسری بڑی شکست/ڈاکٹر مجاہد مرزا

“مثل برگ آوارہ”سے

julia rana solicitors

 

 

 

 

 لینا واپس چلی گئی تھی۔ تموجن نے ایک روز مجھ سے استفسار کیا تھا، ” آپ نے ماما نینا سے ناطہ توڑنے کے لیے نئے سال کے موقع کو ہی کیوں چنا تھا؟”۔
بس یونہی، یہاں کہا جاتا ہے کہ” نئے سال کو اکٹھے نہ ہوں تو کم از کم ایک سال اکٹھے نہیں ہو سکتے”۔
“ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ نئے سال کے موقع پر اکٹھے نہ رہ پانے والے عمر بھر اکٹھے رہیں” اس نے عوامی کہاوت کو بالکل ہی الٹ دیا تھا۔
میں نے اس کی اس بات کو درخور اعتنا نہیں جانا تھا بلکہ بچگانہ خیال کیا تھا۔ زندگی کے معمولات اسی طرح چل رہے تھے جس طرح پہلے تھے لیکن نینا منہا ہو گئی تھی۔ کبھی کبھار اس کا نہ ہونا مجھے بہت چبھتا تھا لیکن میں اسے باقاعدہ بھلانے کی سعی کرنے لگا تھا۔ خلاء تو بہر حال خلاء ہوتا ہے جسے پر کرنے کی خواہش رہتی ہے۔ رات کو شراب نوشی کے بعد مجھے کبھی یولیا کی یاد ستانے لگتی تھی۔ ایسے میں میں کچھ ایسی حرکتیں کرتا تھا جن پر بعد میں مجھے کوفت ہوتی تھی۔ جیسے ایک بار میں نے تموجن کو کہا تھا کہ اس نمبر پر فون کرکے کہو کہ تمہاری یعنی یولیا کی وجہ سے میرے پاپا کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ یا پھر پینے کے بعد تموجن کی ماں کی برائیاں کرنے لگ جاتا تھا۔
میں سمجھتا تھا چونکہ میں رات کو ہی پیتا ہے اس لیے میرے دن کے معمولات متاثر نہیں ہوتے لیکن یہ میری غلط فہمی تھی۔ میں تموجن کی تعلیم سے متعلق بالکل لاعلم رہا تھا۔ مجھے یقین تھا چونکہ میں خود ذہین تھا اور مجھے تعلیم میں دلچسپی رہی تھی اس لیے تموجن بھی تعلیم کے سلسلے میں اغماض نہیں برتے گا۔ یہ بالکل بھول گیا تھا کہ میرے اور اس کے عہد اور حالات یکسر مختلف تھے۔ وہ روزانہ صبح رک سیک کندھے پر ڈال کر یونیورسٹی روانہ ہو جاتا تھا اور شام کو لوٹتا تھا۔ میں نے اس سے کبھی نہیں پوچھا تھا کہ اس کے اسباق کا ٹائم ٹیبل کیا ہے اور اسے کیا پڑھایا جاتا ہے۔ ایک بار اس نے خود ہی کہا تھا کہ اسے فلاں چیز سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، اس سے ہی وضاحت چاہی تھی اور سن کر کہا تھا کہ کوئی ٹیوٹر لے لو۔ جس کے بعد میں پھر بے نیاز ہو گیا تھا۔ چھ ماہ کے بعد میں نے اس کی فیس کی قسط جمع کرانے کے لیے مینیجر مقرب تاجک کو بھیجا تھا جس نے آ کر بتایا تھا کہ تموجن کی تو بہت زیادہ حاضریاں کم ہیں بس ایسے سمجھیں جیسے وہ کلاسوں میں جاتا ہی نہیں۔ میرا دماغ گھوم گیا تھا۔ جب میں نے اس سے پوچھا تو اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اسے یہاں نہیں پڑھنا، اسے واپس بھجوا دیا جائے۔ اس سے زیادہ وہ بتانے سے گریزاں تھا۔ اس نے منہ میں گھنگھنیاں ڈال لی تھیں۔ چند روز تو میں نے اس کی خاموشی کو برداشت کیا پھر پھٹ پڑا اور وہی کہا جو اکثر باپ کہتے ہیں کہ دفع ہو جاؤ۔ نکل جاؤ یہاں سے۔
وہ نکل گیا تھا۔ شام کو مجھے فکر لاحق ہو گئی تھی مگر ظفر کا فون آ گیا تھا کہ تموجن اس کے ہاں ہے، پریشان نہ ہوں۔ ظاہر ہے میں پریشان تو تھا ہی مگر ظفر کی بات سن کے مجھے تسلی ہوئی تھی کہ وہ محفوظ ہے اگرچہ میں نے کہا یہی تھا، “میری بلا سے ، جہاں چاہے رہے، میرے پاس نہ آئے۔ میں تعلیم سے بھاگنے والے کو معاف نہیں کر سکتا”۔ ظفر نے حسب عادت سمجھانے کی کوشش کی تھی جس پر میں نے اسے بھی ڈانٹ پلا دی تھی۔
میں نے دل سخت کیا ہوا تھا لیکن مجھے دوہرا قلق تھا۔ ایک بیٹے کے تعلیم سے باغی ہونے کا اور دوسرے اس کے بے گھر ہو جانے کا مگر میں اپنی انا کا کیا کرتا۔ نجانے کس طرح تموجن نینا کے ہاں پہنچ گیا تھا۔ وہ تین چار روز سے ایک ہی کپڑے پہنے ہوئے تھا اور غالبا” نہایا بھی نہیں تھا۔ نینا آخر کار ماں تھی۔ اس نے اسے نہانے کو کہا۔ ساشا کے کپڑے عارضی طور پر پہننے کو دیے۔ اس کے اتارے ہوئے کپڑے دھوئے سکھائے استری کرکے پہننے کو دیے۔ اسے کھانا کھلایا اور شام گئے مجھے فون کرکے بیٹے کو گھر سے نکالنے پر کھری کھری سنائیں کہ قصور کس کا ہے؟ کیا تم نے کبھی اس کی تعلیم کے بارے میں فکر کی، تمہیں اپنے پینے سے فرصت ملے تو کسی اور بارے میں سوچو وغیرہ وغیرہ۔ میں اس کو کیا جواب دیتا۔ بس اتنا کہا کہ تموجن کو گھر بھیج دو۔ دو گھنٹے بعد وہ خود اسے لے کر میرے ہاں پہنچی تھی۔ رات تو نہیں ٹھہری تھی مگر ہمارے درمیان پھر سے سلسلہ جنبانی کا آغاز ہو گیا تھا۔
میں نے تموجن سے کہا تھا کہ اگر تم یہاں سے واپس جانے کی وجہ بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہو تو مجھے لکھ کر دے دو۔ آخر مجھے بھی تو پتہ چلے کہ تمہارے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے کہ تم دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک میں تعلیم حاصل کرنے سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو۔ دو روز بعد اس نے لکھ کر دیا تھا:
“میں واپس کیوں جانا چاہتا ہوں؟
میں یہاں آیا۔ پہلے دن سب صحیح تھا مگر دوسرے دن آپ نے وہ کچھ کیا جس کا کم سے کم میں نہیں سوچ سکتا تھا۔ میں نے یہ سب کچھ دیکھا سنا اور برداشت کیا اور قبول کیا۔ پھر آپ نے میرے ہوسٹل رہنے کی بات کی تو میں نے کہا، ٹھیک ہے، حالانکہ میں سوچ سکتا تھا کہ شاید میں ہوسٹل میں نہ رہ سکوں۔ پھر آپ مجھے ہوسٹل چھوڑ کر آگئے۔ ایک رات میں ہی مجھے پتہ چل گیا کہ میں وہاں نہیں رہ سکتا چنانچہ واپس آ گیا۔ آپ نے کہا ٹھیک ہے، آپ نے مجھے برداشت بھی کیا مگر جو باقی مسائل تھے وہ تو تھے ہی جن میں سب سے بڑا مسئلہ آپ کا پینا تھا اور نہ صرف پینا بلکہ اس کے بعد بہت کچھ کرنا جس کو میں برداشت کرتا تھا اور ہینڈل کرنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ پھر آپ شراب پی کر میرے ساتھ بھی اچھا خاصا سلوک کرتے تھے اور مجھے کہتے تھے کہ یہ سب میری وجہ سے ہے۔ مجھے ہوسٹل جانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ میری ماں کے بارے میں ایسے الفاظ کہتے کہ یقینی طور پر مجھے غصہ آتا تھا لیکن میں برداشت کرتا تھا اور پھر آپ مجھے گالیاں دینے۔ پاپا، آپ جانتے ہیں کہ میں بھی ایک انسان ہوں اور میری بھی برداشت کی ایک حد ہے۔ میں اس حد کے بعد بھی آپ کو کچھ نہ کہتا لیکن شاید حواس کھو بیٹھتا۔ آپ نے میری سالگرہ والے دن جو کچھ کیا تھا اس دن میں نے جانے کے بارے میں سوچا تھا مگر اپنے آپ کو روکا تھا۔ دوسرے دن سے آپ نے پھر سے سرزنش کرنا شروع کر دی تھی۔ پھر سے وہی رویہ اختیار کر لیا تھا۔ اس دن اپنا خون دیکھ کر میں کچھ لمحوں کے لیے پاگل ہو گیا تھا۔ ہو سکتا تھا میرے ہاتھوں کچھ ہو جاتا جو بہت برا ہوتا۔ یہ سب کچھ بہت بار ہوا۔ اس سے اچھا تو میں پاکستان میں تھا کہ کم از کم آزادی تو تھی۔ باقی آپ سے کوئی بات کرو تو آپ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ شروع میں نہ بھی ہوں تو درمیان میں یا آخر میں ہو ہی جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ شاید اور بھی بہت وجوہات ہوں جو ذہن میں نہ آ رہی ہوں اور نہ ہی میں لانا چاہتا ہوں۔ میری ایک حماقت تھی کہ میں ہوسٹل نہیں گیا لیکن یہ کوئی ایسی بات تو نہ تھی جس پر طوفان کھڑا کیا جائے۔
جہاں تک پیار کی بات ہے وہ اپ نے بہت دیا اور میں اس بات کو مانتا ہوں۔ آپ شاید جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں میں بھی آپ سے بہت زیادہ پیار کرتا ہوں۔ حد سے زیادہ لیکن واپس جانے والا معاملہ ایسا ہے جس پر کمپرومائز مشکل ہے۔ میں بہت معذرت چاہتا ہوں لیکن پلیز اس بارے میں سوچیں۔
آپ اس سلسلے میں شاید مجھ سے گفتگو کرنا چاہیں گے لیکن میں بتا رہا ہوں کہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین بات ہوگا ۔ ۔ ۔ تموجن “۔
مجے یاد نہیں تھا کہ تموجن کی سالگرہ پر کیا ہوا تھا۔ شراب پینے والوں اور شراب نہ پینے والوں کی فریکوئنسی مختلف ہوتی ہے۔ شاید اسے دھکا دے دیا تھا یا کیا جو اس کا خون چل گیا تھا مگر تموجن نے مصالحت کے دروازے بند کر دیے تھے۔ میرے مالی حالات خراب تھے۔ کاروبار ٹھپ تھا۔ اس کی وجوہات تھیں۔ چنانچہ میں نے اپنا واپسی کا ٹکٹ تموجن کو دے کر اسے روانہ کر دیا تھا۔ کاروبار کی مسلسل ناکامی کے بعد یہ میری دوسری بڑی شکست تھی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply