نطق بے آواز تھا
پگھلا ہوا سیسہ مرے کانوں کو بہرا کر چکا تھا
صرف میری کور آنکھیں ہی تھیں
جوگونگی زباں میں بولتی تھیں
جب بھی میں بے نور آنکھوں کو اٹھا کر بات کرتا
مورتی سنتی، مگر خاموش رہتی
مورتی مندر میں استھاپت نہیں تھی ۔۔۔۔
اس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے گھڑا تھا
اور پھر اِکلویّہ۰ کی مانند اپنے سامنے رکھ کر
میں اس سے بات کرتا تھا، جھگڑتا ، یاکبھی روتا،کبھی ہنستا
کبھی درویش سا میں
اس کے چاروں سمت اک پاؤں گھماؤ میں پھنسا کر ناچتا تھا!

خود کُشی کی شام میں نے مورتی سے
صاف لفظوں میں کہا، ’’ معبود میرے!
میرا یہ حرکی تصّور ہے کہ میں خود فہم بھی ہوں
اور رکھتا ہوں میں اپنی ذات کے اندر چھُپا کر
اپنی افزائش کا سامان
اپنے ہونے یا نہ ہونے کا جوازِ مستقل بھی
مرد ِ خود آگاہ ہوں
میری یہی تکمیل ہے، میں جانتا ہوں
اندھا، گونگا اور بہرا مر رہا ہوں
خود کشی سے پہلے یہ خواہش ہے میری
اب مرے اگلے جنم ، جتنے بھی باقی رہ گئے ہوں
نیچ جاتی میں ہوںتو آوا گون سے چھوٹ جاؤں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانے وقتوں میں شودر (اچھوت) کے کان میں اگر بھولے سے بھی وید منتر کی آواز پڑ جائے تو اس کی سزا یہ تھی کہ اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جائے اور اگر وہ وید منتر کا جاپ کرے تو اس کی زبان کاٹ دی جائے۔یہ کہانی شودر جاتی کے بھگت سمتاننؔ کی ہے جو تیسری صدی (ق۔م) میں اجّین کا باسی تھا۔وہ جنم سے نا بینا تھا لیکن مندر کے پیچھے چھپ کر وید منتروں کا پاٹھ سنتا تھا اور دہراتا تھا۔
۱۹۷۶میں لکھی گئی نظم
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں