ہم بے اولاد ہونے سے کیوں ڈرتے ہیں؟-تحریر/ابصار فاطمہ

اولاد نہ ہونا ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ وہ جوڑا جس کی شادی کو چند ماہ ہی ہوئے وہ   بھی پریشان ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ ہماری اولاد کب ہوگی اور ہوگی بھی یا نہیں۔ وہ خود پریشان نہ بھی ہوں تو اردگرد والے پوچھنا شروع کردیتے ہیں کہ اور بھئی بتاؤ خوش خبری کب دے رہے ہو؟
دادیاں نانیاں ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھ جاتی ہیں کہ پوتے نواسے کب گود میں کھیلیں گے۔ کچھ سال گزر جائیں تو پوتیوں اور نواسیوں کے لیے بھی اُمید لگا ہی لی جاتی ہے کہ چلو لڑکی ہی سہی اولاد تو ہو۔ ( بدقسمتی سے اس کے باوجود یہ رویہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر وہ ہونے والا بچہ خواجہ سرا ہو تو بے اولاد ہونا ہی بہتر ہے)

ارتقائی نکتہ نظر سے دیکھیں تو نسل بڑھانا ہر جاندار کی قدرتی جبلت میں شامل ہے تاکہ وہ اسپیشی اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ وہ اس مقصد کو شعوری طور پہ نہ بھی جانتی ہو لیکن پھر بھی وہ نسل بڑھانے کی کوشش جاری رکھتی ہے۔

دیکھا جائے تو انسان کے اوپر ایسا کوئی دباؤ نہیں کہ اگر چند انسان مزید انسان پیدا نہ بھی کرسکیں تو بھی زمین سے انسانی نسل ختم ہونے کا خدشہ نہیں۔ لیکن انسان کی بقاء کا ایک پہلو اس کی معاشرتی بقاء بھی ہے۔ جسے ہم آباء واجداد کا نام زندہ رکھنے کے معنی میں لیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ناصرف ہماری نسل کا مادی وجود ہو لیکن ساتھ ساتھ ہم جس خاندان اور نسل سے جڑے ہیں اس کے وجود کاتصور بھی دنیا میں یاد رکھا جائے۔

منطقی طور پہ دیکھا جائے تو جس طرح چند انسانوں کے اولاد پیدا نہ کرنے سے انسانی نسل خطرے میں نہیں اسی طرح ایک خاندان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے خاندان میں سب کا صاحب اولاد ہونا بھی ضروری نہیں۔ لیکن یہاں ہر ممکن بقاء کے لیے ایک تو لاشعوری سطح پہ یہ خواہش رہتی ہے کہ ہم صاحبِ اولاد ہوں۔ لیکن شعوری سطح پہ اولاد کی خواہش کے پیچھے ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ جس کا تعلق بڑے پیمانے پہ نسل انسانی کی بقاء یا خاندان کی بقاء سے نہیں بلکہ کافی حد تک ہمارے معاشی نظام سے متعلق ہے۔ ہم میں سے اکثر اس خوف کا شکار ہیں کہ ہم بڑھاپے میں بے سہارا ہوگئے تو کیا ہوگا۔ اولاد خاص کر بیٹوں کو اسی لیے اہمیت حاصل ہے کیوں کہ انہیں براہ راست بڑھاپے کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسی لیے بتدریج بیٹی کی اہمیت کم ہوتی ہے اور خواجہ سرا اولاد کی اہمیت بالکل نہیں ہوتی، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں بیٹی جزوی سہارا ہوتی ہے اور والدین کی نظر میں خواجہ سرا اولاد اس حوالے سے بالکل کار آمد نہیں۔ لاشعوری سطح پہ یہ سوچ اتنی راسخ ہے کہ والدین ذہنی وجسمانی معذور اولاد قبول کرلیتے ہیں لیکن خواجہ سرا اولاد قبول نہیں کرتے۔

یہاں یہ مشاہدہ ضروری ہے کہ کیاواقعی اولاد ہونا بڑھاپے کو محفوظ کر رہا ہے اور بے اولاد ہونا بے چارگی کے بڑھاپے کی نشاندہی ہے؟
ہم میں سے اکثر چند شدید نوعیت کی مثالوں کی وجہ سے سیکھے ہوئے خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ یعنی ہمارے اردگرد اکثر ایک آدھ ایسا جوڑا موجود ہوتا ہے جس کا بڑھاپا اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بہت اکیلے پن اور مسائل کا شکار ہوتا ہے۔ ہم نتیجہ بھی یہی نکالتے ہیں کہ کیوں کہ یہ بیچارے بے اولاد ہیں اس لیے ان کی زندگی مسائل کا شکار ہے۔ جب کہ بغور دیکھیں تو اصل وجہ یہ نہیں۔

اوّل تو ہمارے جیسے معاشرے میں عمومی طور پہ ہی بزرگ افراد مسائل کا شکار ہیں خاص طور سے کوئی گھرانہ جتنا معاشی طور پہ کمزور ہوگا اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ اس گھر کے بوڑھے بنیادی ضرورتوں تک سب سے کم رسائی رکھتے ہوں گے۔ کم وسائل کی بنا پہ وسائل کی تقسیم بھی اسی طرح ہورہی ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ وسائل اس کے حصے میں آتے ہیں جو ہر حوالے سے نسل کی مادی اور معاشرتی بقاء کے لیے سب سے اہم ہوتا ہے یعنی گھر کا جوان مرد۔ چوں کہ وسائل محدود ہیں اس لیے بزرگوں تک وسائل پہنچتے پہنچتے ختم ہوجاتے ہیں۔ اور ان کے لیے بمشکل تمام  وقت کا کھانا پہنچ پاتا ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ ان کے لیے یہی بہت ہوگا۔ (یہاں یاد رکھیے کہ یہ آپ کی بات نہیں ہورہی یعنی کسی ایک فیملی کی، یہ ملک کی اسّی فیصد غریب آبادی کی بات ہورہی ہے)
پھر ہمیں ملتے جلتے رویے متوسط گھرانوں میں بھی بڑے پیمانے پہ نظر آتے ہیں کہ وسائل کی تقسیم کا طریقہ یہی ہوتا ہے لیکن چوں کہ وہاں عمومی وسائل ہی زیادہ ہیں تو وہاں اکثر بزرگوں کی زندگی بھی بہتر نظر آتی ہے۔ لیکن یہاں بھی اکثر بزرگ سو فیصد اولاد کے اوپر انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ان کی اپنی یا تو آمدنی نہیں ہوتی یا جو پینشن وغیرہ ہو بھی تو وہ ان کے ہاتھ میں نہیں آتی۔ ان کے پاس اپنی کوئی نقد رقم نہیں ہوتی اور بزرگ خاتون کے لیے مسئلے زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ وہ ویسے ہی ہمیشہ سے شوہر کی تنخواہ اور بعد میں شوہر کی پینشن پہ انحصار کر رہی ہوتی ہیں۔ ہم ان کے تمام مادی مسائل و ضرورتوں کو غیر منطقی حد تک دکھائی عقیدت سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امیر طبقے میں بزرگ اکثر اس حوالے سے خوف زدہ نظر نہیں آتے کہ بڑھاپے میں سہارا کون ہوگا۔ نہ ہی وہ وسائل کے لیے اولاد پہ انحصار کرتے نظر آتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بزرگوں کی نگہداشت کے لیے معاشرتی سطح پہ کوئی نظام نہیں۔ بلکہ عملی طور پہ کسی کی بھی نگہداشت کے لیے کوئی نظام موجود نہیں۔ ریاستی ادارے جو ایسی کوئی سروس مہیا کر رہے ہیں وہ ہر ماہ چند ہزار روپے دیتے ہیں جو جاکر خود وصول کرنی ہوتی ہے یا سول اسپتال وغیرہ میں مفت علاج کی سہولت ہے جس تک رسائی آپ کو خود کرنی ہوتی ہے۔ کوئی ادارہ خود آکر ذمہ داری سے بیماروں، معذوروں اور بزرگوں کے لیے معلومات اکٹھا کرکے ان تک خدمت پہنچانے کا کام نہیں کرتا۔ جو کہ انتہائی ضروری ہے۔ جس کی وجہ سے سب کو انفرادی بنیادوں پہ منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اولاد پیدا کرکے بڑھاپا محفوظ کرنے کی یہ منصوبہ بندی بھی کوئی خاص کامیاب نہیں رہتی اور اس کی وجہ تفصیل سے اوپر بیان کی ہے۔

مسائل کو حل کرنے کے لیے انفرادی منصوبہ بندی اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس منصوبہ بندی کی جزیات سمجھنا بھی ضروری ہے۔ صرف اولاد پیدا کردینا اچھے بڑھاپے کی ضمانت نہیں جب تک کہ وہ اولاد چاہے وہ لڑکا ہو، لڑکی یا خواجہ سرا ،اسے خود اعتمادی، محبت اور وہ توجہ دے کے تربیت نہ دی جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔ ساتھ ہی معاشرے میں وسائل کی تقسیم کے نظام کو سمجھنا ضروری ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد اس غیر منطقی تقسیم کے نظام کا حصہ نہ بنے کیوں کہ بڑھاپے میں سب سے زیادہ نقصان اس سے بطور بزرگ آپ کا ہی ہونا ہے تو ان کی تربیت کے دوران اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کے گھر میں وسائل کی تقسیم مساوی بنیاد پہ ہو۔ اور ان وسائل میں محبت اور توجہ اور اپنے لیے فیصلہ لینے کا حق بھی شامل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ افراد جو ان تمام جزیات کو سمجھتے ہیں وہ بڑھاپے میں بھی بے اولاد ہونے کے باوجود بے بس محسوس نہیں کرتے کیوں کہ انہوں نے اسی بنیاد پہ منصوبہ بندی کی ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں یہ مشکل ہے کیوں کہ ہمارا ریاستی نظام اس میں بالکل معاون نہیں۔ لیکن دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں آپ کو کئی بزرگ اکیلے بہت مطمئن زندگی گزارتے نظر آتے ہیں کہ جب وہ جسمانی طور پہ کمزور ہوجاتے ہیں تو ریاستی ادارے خود آکر ان کی نگہداشت کی تمام ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply