ایدھی بابائے خدمت/مہر ساجد شاد

سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹراسپلانٹ کے آئی سی یو سے 8 جولائی 2016 کی رات نصف شب کے قریب ایک بستر پر نخیف اور ضعیف شخص کی چلتی سانس رُک گئی اور پھر  درجنوں   آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ قوم کو خبر دی گئی کہ آپکا بے لوث ہمدرد اور خدمت گار آپکے دُکھوں کا ساتھی ،آپ کا ایدھی اپنے اصل گھر کو روانہ ہو گیا ہے۔ رات بھر اطلاعات و تعزیت کا سلسلہ جاری رہا۔

پاکستان کا بابائے خدمت، قومی ہیرو اور انسانیت کا علمبردار رخصت ہوا۔
ڈھونڈو گے  اگر  ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

9 جولائی کا دن کراچی شہر میں سوگوار فضا کیساتھ طلوع ہُوا، نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں عوام الناس کے ایک سمندر کیساتھ صدر مملکت ممنون حسین، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیراعلیٰ  پنجاب شہباز شریف، وزیراعلیٰ  سندھ قائم علی شاہ، گورنر سندھ عشرت العباد، وفاقی وزیر احسن اقبال تینوں مسلح افواج کے سربراہان سمیت ہر شعبہ زندگی سے شخصیات نے نماز جنازہ پڑھنے کا اعزاز حاصل کیا۔

ایدھی صاحب قائد اعظم اور صدر ضیاالحق کے بعد تیسرے شخص ہیں جن کو پورے سرکاری اعزاز کیساتھ دفن کیا گیا۔ ان کے لئے سب سے اعلیٰ  شہری اعزاز نشانِ  امتیاز پیش کیا گیا۔ ان کو ایدھی ویلج میں ان کی منتخب کردہ جگہ پر سپردِ خاک کیا گیا۔

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے۔۔۔

ایدھی صاحب میں خدمت انسانیت کا بیج بچپن میں انکی والدہ نے بویا ،وہ اسکول جاتے وقت عبدالستار کو دو آنے دیتیں اور کہتیں بیٹا ایک تیرے لیے اور ایک کسی پر خرچ کرنے کے
لئے۔

ایدھی صاحب 1928 میں گجرات ریاست کے گاؤں بانٹوا میں پیدا ہوئے، تقسیم ہند کےبعد کراچی آئے اور ہمیشہ کے لئے پاکستانی بن گئے۔ کپڑے کے متوسط تاجر بنے ساتھ خدمت کا کام جاری رہا۔لیکن پھر وہ تاریخ ساز وقت آیا جب ایدھی نے زندگی کا اہم ترین فیصلہ کیا، کپڑے کی مارکیٹ میں ایک شخص نے دوسرے کو چاقو مارا ،زخمی شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا ،لوگ اس کے گرد کھڑے اسے دیکھتے رہے، ایدھی صاحب نے سوچا یہاں مارنے والے لوگ ہیں مرنے والے لوگ ہیں تماشا دیکھنے والے لوگ ہیں لیکن مدد کرنے والے لوگ ناپید ہیں بس مجھے یہی بننا ہے۔چندہ جمع کر کے ایک پرانی گاڑی خریدی گئی اور ایمبولنس سروس کا آغاز ہو گیا، پانچ ہزار کے سرمائے سے ڈسپنسری کی بنیاد رکھی اور ایدھی فاونڈیشن کا قیام  عمل میں لایا  گیا۔ یہ 1952 کا زمانہ تھا۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس ہر شہر میں ایدھی سنٹر اور ایشیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس ہے جس میں جہاز اور ہیلی کاپٹر شامل ہیں ریسکیو بوٹس پر مشتمل میرین ایمبولنس سروس ہے، متعدد ہسپتال ڈسپنسریاں، جانوروں کے ہسپتال،خواتین کے شیلٹر ہوم، بزرگوں کے لئے اولڈ ہوم، ایدھی قبرستان، سرد خانے، لنگر خانے، بلڈ بینک،پرائمری اور ایلیمنٹری اسکولز، چائلڈ اڈاپشن سنٹرز جہاں ایدھی سنٹرل کے جھولوں سے آنے والے بچوں کی پرورش ہوتی ہے اور ایک مربوط کڑے نظام کے تحت بے اولاد جوڑوں کو بچے گود دیے جاتے ہیں۔

ایدھی صاحب کی خدمات پاکستان سے باہر بھی دُکھی انسانیت کو میسر رہیں، آفت کے وقت جہاں ممکن ہُوا ،امداد بھجوائی، 2006 میں بیروت میں خود کئی ہفتے موجود رہے اسرائیل کی بمباری سے تباہ حال لوگوں کی مدد کرتے رہے، 2009 میں فلسطینیوں کی مدد کے لئے خود گئے رفاہ اور غزہ میں امداد دی۔

یہ سب کام ایدھی صاحب نے گم نام لوگوں کی معاونت سے سر انجام دیے، لوگ ان کے خلوص کے باعث ان پر بھروسہ کرتے تھے، لاکھوں نہیں کروڑوں بھی آکر دے جاتے اور نام ظاہر نہ کرتے۔ ایدھی صاحب نے منصوبوں کے لئے عام لوگوں سے بھیک مانگی مگر کسی امیر کا خود جا کر دروازہ نہ کھٹکھٹایا۔

ایدھی صاحب نے ہزاروں ایسی گلی سڑی، کٹی پھٹی،جلی، ٹکروں میں ملنے والی لاشوں جن کو ان کے عزیز بھی ہاتھ نہ لگاتے تھے ان کو خود نکالا ،سنٹر پر لا کر غسل دیا، کفن پہنایا خوشبو لگائی اور دفنانے کو عزیزوں کے حوالے کیا۔ ایدھی صاحب نے بیس ہزار سے زائد لاوارث لاشوں کو غسل دے کر جنازہ پڑھا اور دفن کیا۔ اگر کوئی غیر مسلم میت آئی تو اسکی مذہبی ضروریات کے مطابق تجہیز و تکفین کی۔

ایدھی صاحب سے پوچھا گیا آپ لوگوں کو کیا پیغام دیں گے، جواب دیا میں روز صبح اٹھ کر سوچتا ہوں آج کسی کا بھلا کرنا ہے، کسی کیے لئے برائی نہیں کرنی۔ بس یہی آپ کریں۔ ایدھی ایک شخص نہیں ایک سوچ کا نام ہے یہ سوچ انسانیت کی بے لوث خدمت ہے۔ انہوں نے مذہب، مسلک، علاقہ، قوم،ذات، برادری، قومیت سے بالا تر ہو کر ہمیشہ انسانوں کی خدمت کی۔

ان کو بے شمار ایوارڈ دیے گئے، لینن امن ایوارڈ، گاندھی امن ایوارڈ، بریڈ فرڈ شائر یونیورسٹی نے سوشل ورک پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی، ایدھی صاحب سے زیادہ سوشل ورک کا ڈاکٹر کون ہو سکتا تھا۔

ہم خوش قسمت ہیں کہ عہد ایدھی میں پیدا ہوئے توفیق ملے تو ان کے کام سے سیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت کو بنایا ،اپنے خاندان کو بھی اسی میں لگایا۔ ایدھی صاحب چاہتے تو آسان راستہ منتخب کرتے ،مصلے پر بیٹھتے اور کسی نیک دل حکمران کی آمد کی دعائیں کرتے، مخلوق کا شکوہ کرتے اور مخلوق سے بھی شکوہ کرتے جیسا ہم کرتے ہیں، لیکن ایدھی صاحب نے خالق کا حکم مانا اور مخلوق کی خدمت اپنے وسائل قوت اور حوصلہ سے شروع کی، قدرت کی معاونت بھی ملتی گئی۔انہوں نے ہمیں سبق دیا کہ

شکوہ ظلمت شب سے  تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصّے کی کوئی شمع   جلاتے جاتے

ہم ہر اہم شخصیت سے عقیدت میں ان کا دن یادگار کے طور پر مناتے ہیں اور اس موقع  پر چھٹی کرنا ہی طریقہ جانتے ہیں جبکہ ایدھی کے فلسفے کے مطابق انکی فاؤنڈیشن نے ان دو دنوں میں بھی معمول کے مطابق کام جاری رکھا، جب ایدھی صاحب کا جنازہ اور تدفین ہو رہی تھی تب ایدھی ایمبولینسوں نے صرف شہر کراچی میں 46مریضوں اور زخمیوں کو ہسپتالوں میں پہنچایا، زندگیاں بچانے کا کام جاری رہا۔ان سے محبت اور عقیدت کے اظہار کا درست طریقہ بھی یہی ہے کہ ہم انکے مشن کو جاری رکھیں ان کی طرح کام کریں، نہ کر سکیں تو ان کے ہزاروں لاکھوں معاونین کی طرح انکی معاونت میں لگ جائیں۔

کتنے قطروں کو سمندر کر گیا
کام پورا کر کے اپنے گھر گیا
تا قیامت وہ رہے گا جاوداں
کوئی نہ کہنا کہ ایدھی مر گیا!

جی ہاں ایدھی ، خدمت کی سوچ کی صورت میں تو زندہ ہے لیکن ساتھ ہی یہ کمال انسان اپنے اعضاء بھی عطیہ کر گیا انکی آنکھیں کام آسکیں، دو نابینا افراد کو وہ دنیا دیکھنے کیلئے روشنی دے گئے۔
کسی نے لکھا اور خوب لکھا کہ ” جو تم سب لوگ ایدھی کے قصیدے پڑھ رہے ہو، یاد رکھنا وہ اپنی آنکھیں یہیں چھوڑ گیا ہے، وہ تمہیں دیکھتا رہے گا کہ تم اپنے عمل میں بھی سچے ہو کہ نہیں۔”

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا  کے بندوں سے پیار ہو گا۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply