س : کیا کراچی ریویو کتابی سلسلہ بند ہوچکا ہے؟
ج : کراچی ریویو شمارہ بند نہیں ہوا ہے فی الحال روکا ہے ,اِن دِنوں میں دوبارہ مطالعے کی طرف مستغرق ہوں، کچھ پانچ چھ سال بس پڑھنا چاہتا ہوں۔
س : ایک تخلیق کار کے مقابلے میں کیا مترجم بھی رائٹرز بلاک کا شکار ہوتا ہے ؟
ج : مترجم بمقابلہ خود کا تخلیق کار رائٹرز بلاک کا شکار ہوتا ہوگا ،معلوم نہیں۔۔ مگر میرے ساتھ ایسا نہیں ہے دراصل میں ہمہ وقت کئی ساری مختلف اشیاء پر کام کررہا ہوتا ہوں جیسے نثر و نظم، ترجمہ اور مطالعہ وغیرہ
س : سنا ہے آپ کی پہلی محبت شاعری ہے اور کیا آپ جانتے تھے کہ آپ کا ناول ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا؟ آپ کی اگلی کتاب کس حوالے سے ہے؟
ج : نظم کے مقابلے میں میرے ناول کا ایسا ہاتھوں ہاتھ لیا جانا میرے لئے بھی حیران کن رہا ہے ۔میری اگلی کتاب بھی شاعری کے حوالے سے ہے دراصل جس کی مجھ سے توقع کی جاتی ہے میں اس کے برخلاف کرتا ہوں اور برعکس ہی ثابت ہوتا ہوں (مسکراتے ہوئے)
(دورانِ گفتگو) سر آپ چائے نہیں پی رہے ٹھنڈی ہورہی ہے!
ج : دودھ والی چائے کم ہی پیتا ہوں اصل چائے کی پہچان مجھے ترکی جاکر معلوم ہوئی
س : کیا ترجمہ ایک آسان کام ہے؟ جیسا کہ سوشل میڈیا پر کسی کی اچانک آجانے والی پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں فرد فلاں کتاب کا ترجمہ کررہا ہے؟
ج : ترجمہ کرنا آسان سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں پوسٹ یا کسی اعلان کے ذریعے دعویٰ کرنا ہی زیادہ آسان ہے۔
س : اورحان پامک کی کتاب خانہ معصومیت کے حوالے سے آپ کے پاس ایک اچھی یادداشت اور اس کتاب کے مطالعے کا پسِ منظر موجود ہے کیا آپ اس حوالے سے کچھ بتائیں گے؟
ج : خانہ معصومیت کا میرے پاس موجود ایڈیشن میں نے میوزیم آف اینوسینس سے ہی خریدا ہے اور وہاں سے خریدی گئی کتاب میں ٹکٹ بھی موجود ہوتا ہے جس پر مہر ثبت کرکے انٹری فیس نہیں لی جاتی ہے اور اس کتاب کا اختتامِ مطالعہ بھی میں نے میوزیم کے اندر ہی 28 تاریخ ساتواں مہینہ سن 2017 کو دوپہر 3 بج کر تین منٹ پر کیا ۔
س : سوشل میڈیا پر چلتی مذہبی مباحث بھری پوسٹیں کس نگاہ سے دیکھی یا سمجھی جائیں؟
ج : سوشل میڈیا پر مذہبی بحث میں پڑنا بے معنی چیز ہے ،یہ ایسی بحث ہے جہاں ایک دلیل سے نا ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔
س : سنا ہے آپ کے پاس بے شمار نادر کتب میں سے ایک مستنصر حسین تارڑ صاحب کے والد صاحب کی بھی کتاب موجود ہے؟
ج : میرے پاس نادر کتب میں سے ایک مستنصر حسین تارڑ کے والد صاحب کی لکھی کتاب بھی موجود ہے جو غالباً خود ان کے پاس بھی نہیں ہے تارڑ صاحب سے دورانِ ملاقات جب انہیں یہ دکھائی اور ان سے دستخط کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا : یہ تو میرے والد صاحب کی کتاب ہے میں اس پر کیسے دستخط کر سکتا ہوں! مگر بعد میں انہوں نے دستخط کردیے تھے۔
س : مزاح کے قاری کے لئے کسے پڑھنا چاہیے؟
ج : مزاح کے قاری کو کنہیّا لال کپور کی کتاب کلیاتِ نثر / کپور نامہ بھی ضرور پڑھنی چاہیے !

نوٹ : مذکورہ مکالمہ باہمی گفت و شنید ہے جسے یہاں لکھتے اور جمع کرتے ہوئے سوالات و جوابات کی شکل دی گئی ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں