بلی کے گلے میں گھنٹی/ڈاکٹر حفیظ الحسن

پاکستان جیسے زرعی ملک میں کسان ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں ہیں جنکے بل پر پوری معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہے۔ مگر اعداد و شمار دیکھیں تو یوں لگتا ہے یہ ملک چلا کسان رہے ہیں مگر اُنکا ہے نہیں۔

2010 کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق زراعت کے شعبے سے وابستہ 80 فیصد لوگ قابلِ کاشت زمینوں کے محض 28 فیصد کی ملکیت رکھتے ہیں۔ جبکہ کروڑوں کی آبادی کے اس ملک میں تقریباً 1 لاکھ لوگ 50 ایکڑ یا اس سے زائد زرعی زمین کے مالک ہیں۔ جو کل زرعی زمین کے مالکان کی تعداد کا 1.44 فیصد بنتا ہے مگر یہ لوگ قابلِ کاشت رقبے کے 29 فیصد کے مالک ہیں۔ اسی اعداد و شمار کے مطابق ںڑے زمینداروں کی تعداد تقریباً 19 ہزار ہے جن میں سے ہر ایک 150 ایکڑ یا اس سے زائد کا مالک ہے۔ یہ تقریبآ 9 کروڑ ایکڑ زمین بنتی ہے جو صرف 0.3 فیصد زمینداروں کے پاس ہے۔مگر یہ زمینی رقبہ67 فیصد غریب کسانوں کی کل ملا کر زمین سے بھی زیادہ ہے۔

یہ اعداد و شمار ہوشربا اور نیندیں اُڑا دینے والے ہیں۔ ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مملکتِ خداد دراصل وڈیروں اور جاگیرداروں کا ملک ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں 40 فیصد سے زائد لوگوں وگوں کا روزگار زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے اور معیشت کا 23 فیصد سے زائد اسی شعبے سے منسلک ہے جس میں 60 فیصد سے زیادہ برآمدات کا حصہ بھی شامل ہیں۔

ورلڈ بینک کے 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا زیرِ کاشت رقبہ ملک کے کل رقبے کا تقریباً 40 فیصد ہے۔ اس میں وہ تمام زمین شامل ہے جو کاشت کے قابل ہے چایے عارضی طور پر یا مستقل طور پر۔ ان اعداد و شمار سے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ زمینوں اور وسائل کی تقسیم میں غریب کسان ہمیشہ مارا جاتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پوری دنیا اس وقت خوارک کی قلت کے خطرے سے دوچار ہے جسکے لیے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں کئی اہم پالیسیاں مرتب کی جا رہی ہیں جنکا مرکز کسانوں کو زرعی ضروریات کے حوالے سے سہولیات مہیا کرنا اور اُنہیں جدید زرعی طریقوں کی تربیت دے کر پیداوار کو بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔

اسکے علاوہ اربن فارمنگ کی طرف بھی شہرہوں کی توجہ دلائی جا رہی ہے جس میں وہ اپنے گھروں میں اور مصنوعی فارمز میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے خوراک پیدا کر سکیں۔
پاکستان میں دن بدن زرعی زمین ماحولیاتی تبدیلیوں اور زراعت میں غیر موثر اور پرانے طریقوں سے کاشت کے باعث کم ہو رہی ہے۔ اسکے علاوہ گندم اور دیگر اجناس کی سٹوریج ، منڈیوں تک بہتر رسائی نہ ہونے اور کسانوں کے استحصال کے باعث خوراک مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ ایک ایسا ملک جو زرعی ہو وہاں گندم، چاول اور دیگر اجناس کا غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔

ان سب میں بنیادی وجہ کسان دوست پالیسیوں کا فقدان ہے ۔ ملک کی آبادی بڑھنے، شہری آبادیوں میں اضافے کے باعث غریب کسانوں کی زمینیں ختم ہو رہی ہیں۔ اسکے علاوہ وسائل کے بدترین ضیاع اور آبی وسائل کی دیکھ بھال میں مجرمانہ غفلت اس صورتحال کو مزید ابتر کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

موجودہ معاشی اور معاشرتی سائنس یہ کہتی ہے کہ کسان دوست پالیسیاں اپنا کر نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کو اپنے حق میں کیا جا سکتا ہے بلکہ پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ اسکے علاوہ سیلاب کے بعد کسانوں کے ساتھ مل کر اُنکے فہم و فراست جو صدیوں سے اُنہوں نے ان علاقوں میں رہ کر حاصل کیا، کی مدد سے آئندہ آنے والی آفتوں سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالے گا کون؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply