آپ نے نیشنل جیوگرافک پر چھوٹی مچھلیوں کے بڑے گروہ کو دیکھا ہوگا، یہ ہزاروں کی تعداد میں مل کر ایک بڑے جسم کا سا سٹرکچر بناتی ہیں، اگر اس گروہ کے ایک طرف سے کوئی خطرہ محسوس ہوتو اس پورے گروہ کی سمت اچانک بدلتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ گویا یہ ہزاروں جانوں پر مشتمل ایک ہی جسم ہے، سوال یہ ہے کہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک خطرے کا یہ سگنل کیسے پہنچتا ہے؟ اگر تو یہ سگنل مچھلی با مچھلی پہنچتا ہے یا پہنچایا جاتا ہے تو ان مچھلیوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کیلئے اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہوگا ، لیکن ایک لمحے کے سویں حصے کے وقف بغیر یہ تمام مچھلیاں بیک وقت حرکت کرتی ہیں، ایسا ہی معاملہ بعض پرندوں میں بھی دیکھنے میں آتا ہے، انتہائی تیز رفتار پرندوں کا جھنڈ عموماً مغرب کے وقت ایسی سرعت سے ایک سمت میں دوسری سمت حرکت کرتا ہے، لگتا ہے کہ وہ ایک ہی جسم ہے، یہ سب کیا ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ایسے جاندار تعداد میں دو چار ہوں تو ایسی ہم آہنگی دیکھنے میں نہیں آتی، یہ یگانگی تب ہی ممکن ہے جب اچھی خاصی تعداد مل کر ایک گروہ کو جنم دے، جاندار اکیلا یا چند ایک ساتھیوں کے ساتھ ہوتو اس کی فعالیت کا محرک اندرونی ہوگا، یہی وجہ ہے کہ تنہائی میں اندرونی محرک پروان چڑھتا ہے، اگر جاندار کثیر تعداد میں مل کر گروپ بنائیں تو ایسے میں فعالیت بیرونی محرک کے تحت ہوگی، اور اس بیرونی محرک کی وضاحت اس کے علاوہ ممکن نہیں کہ ہم فکر، ہم خیال، ہم جبلت اور ہم منزل جاندار انرجی کے ایک ایسے مرکزی سٹرکچر کو جنم دیتے ہیں جو ان جانداروں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتا ہے، ہجوم کی نفسیات میں بھی یہی عمل کارفرما ہے ۔
آج کے گھریلو جانور کسی دور میں جنگلوں میں آزاد زندگی گزارا کرتے تھے، انسان اپنی خود شعوری کی بدولت ان میں سے بعض کو اپنے قابو میں لے آیا، انسان کو لگتا ہے کہ ارتقاء کی نچلی منزل پر واقع اس کے چھوٹے بہن بھائی بس جبلت پہ زندگی گزارتے ہیں اور ان کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، اب اگر اوپری سیڑھی پر بیٹھا بڑا بھائی ایسی سوچ رکھتا ہے تو پہلے اسی بڑے بھائی کی شعوری گہرائی پہ سوال اثھایا جانا چاہئے ، ہر جاندار اپنا ایک مقصد رکھتا ہے، وہ ایسے کہ مقصد کے حصول کی کوشش ہی ارتقاء کی ضامن ہے اور جب تک زندگی موجود ہے ارتقاء کا عمل جاری رہے گا ۔ لیکن اس کیلئے پہلی شرط یہ ہے کہ جاندار اپنے فطری ماحول میں زندگی گزار رہا ہو، کیونکہ ہر بیرونی سٹرکچر سب سے پہلے اپنے فائدے کو مدنظر رکھے گا، گھریلو جاندار ایک بیرونی سٹرکچر کے عتاب میں آن پھنسے اس لئے مقصد سے غافل ہیں، جنگل میں رہنے والا ہرن صحیح معنوں میں زندگی بسر کرتا ہے جہاں اسے شکاری سے بھی بچنا ہے، خوراک کا بندوبست بھی کرنا ہے، خاندان و دیگر کے دکھ سکھ میں شرکت کے علاوہ گروہ میں اپنے فرائض بھی انجام دینے ہیں، اس ہرن کے مقابلے میں گھر میں بندھی گائے زندگی کے مقصد سے محروم ہے ، اس کی خوراک، حفاظت اور گرمی سردی سے بچاؤ کی ذمہ داری مالک نے لے رکھی ہے، ان سہولیات کے بدلے میں گائے نے اپنا مقصد مالک کی پاس گروی رکھ چھوڑا ہے، اب مالک فیصلہ کرتا ہے کہ گائے کو کب ، کیسے اور کتنا جینا ہے، یہ انگریزی محاورے کے مطابق، شیطان کو اپنی روح بیچنا ہے ، انسان کی بابت کیا کہیئے گا ؟

معاملہ یہ ہے کہ مختلف سٹرکچرز تخلیق کرتے ہوئے انسان خود ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن بیٹھا ہے، ہر وہ ادارہ جو انسانوں کی مخصوص تعداد رکھتا ہے، اپنے اوپر انرجی کے ایک مرکز کو جنم دیتا ہے، اس مرکز کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کی انرجی چوسنا ہے اور اس مرکز کا کنٹرول ہر اس انسان پر ہوگا جو اس ادارے سے وابستہ ہے، کوئی نیا شخص جو اس ادارے سے آن جڑے ، اسے شروع میں کچھ چڑچڑاہٹ یا اکتاہٹ، بلکہ بعض اوقات تو دل و دماغ کی ہم آہنگی میں تضاد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ اس کی اندرونی فطرت اسے اس غلامی سے بچانے کو ہاتھ پاؤں چلاتی ہے، لیکن بعد میں ڈسپلن کے نام پر ، اور جزوی طور پر کچھ مجبوریوں کے زیر اثر فرد اس مرکز کو اپنی گردن میں دانت گاڑنے کی اجازتِ دے دیتا ہے جہاں سے ویمپائرز کی طرح انرجی چوسی جاتی ہے، تمام ادارے اپنے اندر ایسا ان دیکھا مرکز رکھتے ہیں، جوں جوں لوگوں کی تعداد بڑھے گی مرکز مضبوط ہوگا اور فرد کو آسانی سے کٹھ پتلی بنا سکے گا، تعلیمی ادارے، کاروباری اور سیاسی ادارے سب اسی نظم پہ کام کرتے ہیں، اگر آپ ازاد منش انسان ہیں اور سچ بولنے کے دعویدار ہیں، اور کہیں ایسا ہوکہ آپ کسی سردار یا ایم این اے کے ڈیرے پر کسی کام سے جا نکلیں ، وہاں جا کر اگر خود کو آپ ویسا ہی خوشامدی پاتے ہیں جیسے دوسرے لوگوں کا رویہ ہے تو خود کو الزام دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس ڈیرے پر کئی لوگوں کی روزوشب خوشامد، چاپلوسی اور خوف نے منفی انرجی کے ایسے دیو ہیکل کو جنم دیا ہے کہ آپ کی زبان اور شعور کا پھسلنا کوئی انہونی بات نہیں، ایسے دیوانے بہت کم ہوتے ہیں جو ان دیوہیکل مراکز سے بھڑ جاتے ہیں ، آج سب سے مضبوط ادارہ خریدوفروخت کا ادارہ ہے، انسان مکمل بھول بیٹھا کہ وہ کون، کیوں اور کہاں ہے، ان اہم سوالات کو نظر انداز کرتے ہوئے اب اس کی توجہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے اور چیزوں کی خریدوفروخت پر ہے، یہ سٹرکچرز دکھنے میں مادی ہو سکتے ہیں لیکن ان کی میٹافزیکل بنیاد میں انرجی ہے، خریدو فروخت بھی مادی اشیاء کی نہیں بلکہ انرجی کی ہو رہی ہے، چیزیں ہم اپنی خوشی، ضرورت اور آسائش کیلئے خریدتے ہیں، بعص چیزیں دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے بھی خریدی جاتی ہیں، لیکن دونوں صورتوں میں مثبت یا منفی انرجی کا اخراج ضرور ہوتا ہے، اور یہ انرجی ان سٹرکچرز کے مراکز جذب کرتے ہیں، پھلتے پھولتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے شکنجے میں لیا جا سکے، یہی مراکز انسان کو انرجی گر عنایت بھی کریں تو اس مقصد کیلئے کہ فرد کا انحصار مخصوص فعالیت پہ بڑھایا جائے اور بعد میں اس مجبور فرد کو پوری طرح نچوڑ لیا جائے، انرجی کے یہ مراکز سود کا کاروبار بھی کرتے ہیں، بالخصوص منشیات کے عادی افراد وہ لوگ ہیں جو ان سٹرکچرز کو سود واپس نہیں کر پاتے اور فیصلے اور ارادے کی قوت سے محروم ہوتے ہوئے خود کو مکمل طور پر ان مراکز کے حوالے کر دیتے ہیں ، پہلے پہل نشے کے چکھنا ایسا ہی ہے جیسے ان سٹرکچرز نے مفت میں انرجی کا ایک جھونکا فرد کو عطا کیا، فرد نہیں جانتا ہوتا کہ سود سمیت اسے یہ انرجی کی بوریاں واپس کرنی ہیں، جوں جوں انحصار بڑھتا ہے، قرض واپس کرنے کی صلاحیت کم تر ہوتی جاتی ہے، بالآخر زندگی کے بقیا دنوں کی تمام انرجی اس مرکز کو دینی پڑتی ہے، فرد باقاعدہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے کوئی آہنی شکنجہ اس کے قلبی چاکرے کو اپنی گرفت میں لئے ہے ۔فیصلے کی صلاحیت اور ارادے کی قوت اپنی ساخت میں خالص انرجی ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں