کشن گنگاکی وادی(قسط9)- جاویدخان

گزشتہ قسط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

 

 

 

قسط9

مکی اَور مدنی مسجدیں :۔
تنگ سڑک اَب ایک شاداب وادی سے گُزر رہی تھی۔وقفے وقفے سے دومساجد کے تعارفی کَتبے نظر آئے۔ایک پر‘مکی مسجد ’ لکھاتھاکچھ آگے دوسرے پر‘مدنی مسجد ’لکھاتھا۔برصغیر میں عبادت گاہیں اُگ رہی ہیں۔یہ اُگنااکثر خودروئی جیساہے۔چاہے مندر ہوں یامساجد۔روح ایک میں بھی نہیں ۔اَگر کہیں ہے بھی توخال خال۔یُوں آج کے ‘مکیوں ’ اَور ‘مدنیوں ’میں نہ تومکہ کی روح ہے نہ مدینہ کاشعور ۔بُت پرستی صرف یہی نہیں کہ آپ کسی پتھر یابُت کے آگے جھُک جائیں ۔چپکے چپکے اَپنے نظریے ،مسلک ،تنظیم اَور فرقے کو پُوجنے کی حد تک آجانا بھی صنم پرستی سے بھی بُراہے۔آپ کے نظریے،مسلک ،تنظیم ،فکر کے سواباقی سب کھوٹے سکے ہیں ،ملیچھ ہیں تو اَیسی گھٹن زدہ تنگ وادیوں میں توحید کے کسی جھونکے کاگزر تک نہیں ہُوا۔جس خوش بُو   کانام توحید ،دین ،مذہب ہے وہ چیزے دیگری ۔

یہ وادی ِلوات اَور اس کے اردگر د کاعلاقہ تھا۔دریا،ندیاں،جھرنے ،ہری ہری گھاس،ڈھلوانوں پہ آباد گھر اَور مکئی کے کھیت دیاروں کے جنگل اَور اُونچے اُونچے پربت ۔اِن کے میل ملاپ سے سجی وادی میں ہم آوارہ تھے اَور اپنی اس آوارگی میں شاداں ونازاں بڑھے جارہے تھے۔طاہر یُوسف ،وقاص جمیل ،منصور اسماعیل ،عاصم نواز اَو ر اصغر روشن صاحب کی کمی لمحہ بہ لمحہ محسوس ہورہی تھی۔کچھ لوگ زندگی میں اَیسے ہوتے ہیں جن کے بِنا سفر ،پھیکے پڑ جاتے ہیں ۔زندگی بھی ایک سفر ہے۔اس میں جس کو اچھی سنگت اَور مخلص دوستوں کی صحبت ملی وہ دُنیا کادولت مندشخص ہے۔جب ہم عصر ، سننے سمجھنے اَور برداشت کرنے والے ہم رکاب نہ ہوں تو زندگی جیتے جی قبرستان ہوجاتی ہے۔اَصغر روشن میرے استاد ہیں ۔اُن کی سنگت میں ڈانٹ ڈپٹ شفقت کی چائے میں گھلی ہوئی آتی ہے۔میری کتاب ‘عظیم ہمالیہ کے حضور ’ میں اُن کے نام کے ساتھ غلطی سے ‘اَکرم ’لکھ دیا۔جس کاانھوں نے مہینوں بُرامنایا۔پھر نیلی آنکھوں میں وہی شرارت ،محبت اَور ملنساری لوٹ آئی ۔
یہاں جنگلوں میں جگہ جگہ لکڑیاں کٹ کر یاکاٹ کر گری پڑی تھیں۔اَپنی اَور پرائی آنکھیں نباتات سے اس قیمتی ذخیرے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔اَردگرد چوٹیاں دیار کے جنگل سے اَٹی پڑی تھیں۔دُودھ رنگ پانی کے جھرنے اِن چوٹیوں سے لُڑھک رہے تھے اَور چھوٹی چھوٹی آب شاریں بنارہے تھے۔یہ آب شاریں اَور جھرنے دُودھیارنگ بکھیرتے دریامیں آن مل رہے تھے۔ان کی آوازوں سے ایک موسیقی پیداہورہی تھی۔اس میں تال ساتھا اَیساتال جو کسی مغنی کے گلے میں یاکسی سازندے کے سازمیں نہ تھا۔اس بہتی ہوئی موسیقی میں ہماری کاریں سڑک پر دوڑ رہی تھیں۔

خوب صورت پربت:۔
مناظر ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے تھے۔پڑے ہوئے تھے اَور دُور دُور تک پھیلے ہوے تھے۔قطروں کاسمندر ہوتاہے،موتیوں کی لڑی ہوتی ہے اَور پھولوں کی بہتات ہوتی ہے۔یہاں فطری مناظرکی بہتات تھی۔اگر کسی کی آنکھ میں خار ہے،ٹیڑھ ہے ،حُسن ِ فطرت کی پہچان براے نام ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ صرف خود منظری کے لیے ادھر کاسفر نہ کرے۔
اِن بہتات میں پھیلے مناظر میں دومتوازی پہاڑوں کے درمیان ایک خوب صورت پربت کاحسین منظر تھا۔جیسے دومتوازی دیواروں کے سامنے تیسری کسی نقش گر یاکسی مصور نے سنواردی ہو۔بادل کی سفیدٹکڑیاں اِس پربت کی چوٹیوں پر منڈلا رہی تھیں۔گاڑی جُوں جُوں آگے بڑھ رہی تھی۔منظر واضح ہوتاجارہاتھا۔ پہاڑ وضاحت کے ساتھ خود کو بلند اَور بلند پھر اَور بلندکیے جارہاتھا۔جیسے ہمیں دکھانے کے لیے خود کواَپنی خوش قامتی کو ظاہر کررہاہو۔اَب رستے میں ٹیڑھ میڑھ آنے لگی۔یُوں سمتیں لمحہ بہ لمحہ بدلنے لگیں۔اِن بدلتی سمتوں میں باہر کھڑی خوب صورت مصوری کو نظر بھر کر دیکھناممکن نہ رہاتھا۔
آخر کار گاڑی ایک مقام پر رُکی توشیشے سے اِس کے سامنے والی پہاڑی پر درختوں کاہرابھراجنگل کھڑاتھا۔جب کہ وہ مصوری یہاں پس منظر میں چلی گئی تھی۔سڑک کنارے لگے کتبوں سے لگتاتھاکہ یہ لوات کے بعد ‘لوات کھڑی ’اَور اس کانواح ہے۔

دواریاں اَڈہ :۔
ہماری منزل رتی گلی جھیل تھی۔سوراحیل خورشید کو کِسی معاون نے کہاتھا۔دواریاں آجاناآگے مَیں سنبھال لوں گا۔اَور اَب راحیل خورشید اُسے ڈھونڈتے پھر رہے تھے کہ کہاں گیا۔ساتھ سردار عاشق صاحب بھی تلاش میں تھے کہ آے اَور ہمیں سنبھالے۔دواریاں ایک چھوٹاسابازار ہے۔پہاڑوں کے قدموں میں ایک پگڈنڈی نماسڑک کے دواطراف،لب دریااَور ایک پہاڑ ی ندی کے قرب میں آباد ہے۔اِک چھوٹی سی سڑک موڑکاٹ کر مزید دریاکنارے چلی گئی تھی۔اَکثر سیاح اَپنی گاڑیاں یہاں لگاتے ہیں اَور پھر جیپیں انھیں بلندیوں تک لے جاتی ہیں۔

شاہ کار:۔
ہم گاڑیوں سے نکل کر سڑک پر کھڑے ہوے تو کسی مصور کاتخلیق کیاہوافن پارہ سامنے تھا۔پربتوں نے مل کر جو منظر تشکیل دیاتھا۔وہ دُنیا کے حسین منظرو ں میں سے ایک تھا۔سارے کے سارے پہاڑ دیاروں سے بھرے ہوئے تھے۔سربہ فلک چوٹیاں اَور اِن پرسر بہ فلک دیار۔ایک مقامی آدمی کے مطابق مشرقی سمت ذرابائیں ہاتھ سامنے والی چوٹیاں اَور اِن پر سر بہ فلک گھنے دیاروں کے جنگل ،ان پر بساگاوں ‘لڑیاں ’ہے۔چوٹی کانام ‘لڑی ’جب کہ گاوں لڑیاں۔لڑیاں ایک ڈھلان نما،سبزے سے رچاگاوں ہے۔کھیتوں میں مکئی لہلہارہی تھی۔ہماری پُشت پر دواریاں ڈنہ تھا۔لڑیاں کی پچھلی طرف والی ڈھلان پر عظیم جمہوریہ ،بندوق تانے زبردستی یوم جمہوریہ بنوانے میں مصروف تھی۔
اس اَڈے سے پُتلیاں جھیل اَور رتی گلی تک الگ الگ رستے جاتے ہیں۔بل کہ رستوں پر چلنے والے جاتے ہیں۔پُتلیاں ایک دل رُباوادی ہے۔اِس وادی میں ایک جھیل رہتی ہے۔اُس کاحُسن اَب نقاب کُشائی کرچکایُوں چرچے دُور دُور تک ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اَگر پُتلیاں جھیل خوب صُورت ہے تو پُتلیاں وادی کاحُسن خوب تر ۔راحیل خُورشید کسی سیانے سے پُوچھ رہے تھے بتاو پُتلیاں تک کتناوقت لگے گااَور رتی گلی تک کتنا۔؟
میر سفر سردار عاشق حسین کاکہناتھاکہ ہم نے جانارتی گلی ہی ہے۔دواریاں اَڈہ سے ہم کھسکتے چلتے ذراپیچھے چلے آئے۔نہ سڑک کُشادہ تھی نہ اس کے کنارے۔یہاں پربتوں کا ڈیرہ تھااَور پربتوں کے دامنوں اَور قدموں میں جگہیں زیادہ کُشادہ نہیں ہواکرتی۔اَیسانہیں کہ پربت تنگ دل وتنگ دامن ہوتے ہیں۔بَس پربتوں کارہن سہن ،تہذیب اَور مزاج اَیساہی ہوتاہے۔ہم پربتوں کے بالکل قدموں میں کھڑے تھے۔ہمارے ہمارے قدموں تلے جو زمین تھی ۔اُس سے کچھ قدم نیچے زمین کے فرش پر دریابہہ رہاتھا۔ہردریا،ہرسمندر زمین کے فرش پرسوتاہے اَور چلتاہے۔ہم فرش سے کچھ میٹر اُوپر سڑک کنارے کھڑے تھے۔ہمارے اَردگرد سیاح تھے،چھوٹے چھوٹے ہوٹل تھے ۔درس گاہوں میں پڑھتے لوگ تھے۔جہاں جیون اُمید ،جوش وخروش اَور خوابوں کے گلستانوں میں اُڑتاپھرتاہے۔چند طالبات اَو ر طلباہمارے آس پاس چہل قدمی کررہے تھے۔خوابوں کے بسے نگر ،ان میں اُونچے اُونچے محلات ،رُومانس میں ڈُوبی دُنیا اِن کے چہروں اَورحُلیوں سے چھلک رہی تھی۔شعلہ سالپک جاے ہے ۔اَنداز تو دیکھو۔اَور پُرعظمت پربت اَپنے قدموں میں اُڑتے ٹکراتے ان خوابوں پر متبسم ہورہے تھے۔

دواریاں ناڑ:۔
توپھر کارخانہ قدرت میں بنی اِس پتھریلی اَور پہاڑی ندی میں ناپسندیدگی کے کنکر کیوں کر مارے جاسکتے ہیں۔؟دُنیا کے جتنے آوارہ گردیہاں ہم سے پہلے گُزرچکے تھے۔اُن میں ایک میجر بیٹس بھی ہے۔پچھم کے ساکنوں میں سے ایک ۔جب وہ یہاں سے گُزرا تو تب اسے اس ندی کولکڑی کے شہتروں سے بنے ایک پُل کی مدد سے پار کرناپڑا۔مگر گدلاہونے کے باوجود یہ اِس وقت کسی پُل سے آزاد تھا۔نہ ہی یہاں کسی پُل کی ضرورت تھی۔یہ یہاں اپنے اختتام پر تھا۔جہاں کچھ نیچے یہ دریاے کشن گنگامیں مل جاتاتھا۔ندی پہاڑی ہویامیدانی اپنے اختتام پر زیادہ جولانی لیے ہوتی ہے۔مگر یہاں یہ پایاب تھا۔ندی نالوں پر بھی زمانوں کے ساتھ تغیر آتے ہیں۔جولانی ،جوانی ،طوفانی اَورطغیانی ۔۔۔پھر بڑھاپااَور پھر سسک سسک کر مرجانا۔یہ حادثہ کئی منھ زور دریاوں کے ساتھ گزرچکاہے۔یہ ندی میجربیٹس کے دَورمیں ‘دواریاں ناڑ ’ کہلاتی تھی اَور خوب منھ زورندی تھی۔اس کاپانی اُجلا،شفاف اَور چھلانگیں مارتابہتاتھا۔آج یہ صرف ‘دواریاں نالا’ یا‘رتی گلی ’ نالاکہلاتاہے۔ناڑ کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں کہیں جگہوں کانام ہے۔قدیم زبانوں میں سے کس زبان اَور زبان لیواوں نے اسے پہاڑی اَور دُشوار وادیوں کوسونپا۔؟ آج معلوم نہیں ۔ہمارے پُرکھے جب بھی کوئی بھاری پتھر یاوزن اٹھاتے تو طبعیت مکدر ہوجاتی تھی۔کھاناپیناکم ہوجاتاتھا۔اصطلاع میں اس کفیت کو ‘ناڑ’ہوجاناکہتے تھے۔اِیساوزن جو طاقت اَوراستطاعت سے باہر ہو،جو اٹھانے پر بدن بیمار ہوجاتا،انتڑیوں پر زور پڑتاتواسے ‘ناڑ’کہتے تھے۔نالادواریاں ناڑ کے کنارے کنارے ہماری جیپ بھی اپنی گنجائش کے مطابق وزن اٹھاے چڑھائی چڑ ھ رہی تھی اَور زورلگارہی تھی۔ڈربھی رہی تھی کہ مبادہ کہیں ‘ناڑ’ نہ ہوجائے۔کیوں کہ اس میں سات آوارہ گرد اَوران کاسامان لداتھا۔
جیپ کے رستے میں کھائیاں تھیں ،چڑھائیاں تھیں ،نظارے تھے اَور خوف کی آمزش تھی جوکبھی اچانک آکر دبوچ لیتی تھی۔پھر خود ہی کسی منظر کے کھلنے پر چھوڑ دیتی ۔ابتدامیں سڑک ایک تنگ گھاٹی سے اُوپر اٹھتی ہے۔جو پہاڑوں کے قدموں میں بدنگاہی کاشکار ہیں۔تھوڑا آگے چلنے پر منظر کھُلتا ہے اَور پھر مناظر سامنے آتے جاتے ہیں۔سکولوں میں چھٹی ہوچکی تھی۔بچے بستے اٹھاے گھروں کو جارہے تھے۔
ہمارے آگے پیچھے جیپیں تھیں اَوراُن میں سیاح تھے ۔اچانک جیپ کے کونوں کھدرو ں میں چھپے سپیکر جاگ اُٹھے ۔سماعتوں میں ایک نغمے کی گُونج تھی ۔
؂
تو حُسن کے رنگوں سے کھِلتاہواکنول ہے۔
اَور اسی کے ساتھ ایک وادی کاحُسن کئی رنگوں کی رنگ آمیزی کے ساتھ کھل کر سامنے آگیا۔فطرت کے شوق رنگ نکھری مسکراہٹیں لیے دیکھ رہے تھے۔پھولو ں سے سجی وادی میں زندگی سادگی اَور آسودگی کی دُھوپ میں بیٹھی تھی۔جیسے کوئی زمانوں کی داستانیں سینے میں سجاے دوشیزہ کڑھائی دار چادر اوڑھے دھوپ سیکنے بیٹھی ہو۔
چڑھائی میں سامنے نیلے آسمان اَور بادلوں کے پس منظر میں ایک ننگی چوٹی کھڑی تھی ۔اسی کے سااتھ لگ کر ایک چوٹی کھڑی تھی جس پر ہریالی تھی۔یہاں دو خوب صورت فطری تضاد تھے۔ایک خشک اَور پتھریلی و نوکیلی چوٹی اَو ر بالکل ساتھ اسی بلندی پر بالمقابل ہریالی سے بھری دوسری چوٹی ۔نیلگوں آسمان اَور بادل کی کچھ ٹکڑیوں کے نیچے خوش قامت چوٹیاں دل رُباتھیں ۔منظر خُوش گوار اَور رستادُشوار تھا۔
خوش قامت پربتی دوشیزائیں اپنے حسن پر نازاں ،چاہنے والوں سے بے نیازخود کوسنوارے کھڑی تھیں۔اس دشوار رستے میں جیپیں کئی پڑاو لیتی ہیں۔رکتی ہیں اپنی تھکن دور کرتی ہیں اَور ٹھنڈاپانی ضرور پیتی ہیں۔یہاں پانی جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے جھرنوں کی صورت میں بہہ رہاتھا۔

وادی تخیل اَور موسیقی :۔
اس دُشواررستے پر جیپیں کئی پڑاو لیتی ہیں،رُکتی ہیں اَپنی تھکن اُتارتی ہیں اَور ٹھنڈاپانی پیتی ہیں۔یہاں پانی جگہ جگہ جھرنوں کی صورت میں بہتارہتاہے۔اس بہاو سے فطرت کاموسیقار سُرنکالتاہے اَور اِن وادیوں میں پھیلادیتاہے۔جھرنے بہتے ہیں ،بجتے ہیں اَور گُونجتے ہیں۔درمیان میں کسی پہاڑ کی چوٹی سے کوئی گڈریااَپنی بانسری پرہاتھ کی اُنگلیاں مترتب کرتاہے اَور سُر اُنڈیلنے لگتاہے۔
جیپ میں مسلسل وہ گانے تھے جوہم نے سکول اَور کالج کے ابتدائی زمانے میں سُنے تھے یایُوں کہیے کے نَوے کے عشرے میں گاے سارے ہندی گانے ایک کے بعد ایک ریکارڈ سے بج رہے تھے۔اِن سارے نغموں سے میراتعلق عجیب سارہا۔مَیں نے فلمیں کم دیکھیں صرف گیت سُنے ہیں۔ریڈیو بچپن سے ہی مجھے اَبّاجان نے لاکردیاتھا۔جب مَیں دو یاچھ ماہ کاتھاتو تب والد کویت میں تھے۔وہاں سے میرے لیے تین چیزیں خریدیں جو ساری کی ساری بیش قیمت تھیں۔ایک کھولناکار،ایک گول ریڈیو اَور ایک پارکر یافونٹین چابانی قلم۔قلم سکول دَور میں ہی کسی نے چرالیاتھا،ریڈیو مَیں نے توڑدیااَور کار اَب بھی ہے۔جب مَیں دُوسری جماعت میں پہنچاتو ایک اَور ریڈیو جو پہلے کے مقابلے میں نسبتاً بہت سستااَور عام ساتھا مجھے لاکردیاگیا۔پہلے پہل اُس سے خیبریں سُنتاتھا۔پھرسردراتوں کو دیگر پروگرام سُنتارہتا۔سرماکی طویل راتوں میں پہلے پہلے دنوں ہی چھٹیوں کاکام کرلیتاباقی دن کہانیاں پڑھتااَور رات کونشر ہونے والے پاکستانی اَور ہندوستانی پروگرام سُنتارہتا۔ایک مخصوص دُھن کے بعد یہ الفاظ رَس گھولتے ۔۔۔ریڈیو پاکستان ۔۔۔۔پاکستان کامعیاری وقت ۔۔۔رات کے آٹھ بجے ہیں۔مجھے کافی بعد سمجھ آئی کے‘ معیاری وقت ’سے کیامراد ہے۔آکاش وانی کی دُھن اَور ساری آوازیں سُریلی تھیں۔دوپہر اڑھائی بجے ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والاپروگرام ‘انتخاب ’ مثال تھا۔آج زبان،نسل ،ثقافت ،ملک ،اُجلی ندیاں ،روح ،سُر اَور سُرنگار سب آلودہ ہوچکے ۔ان سب میں بدیسی ملاوٹ نے اُجلارنگ پھیکاکرڈالا۔
توریڈیو اَور ٹیپ ریکارڈسے سُنے گیتوں کوسُنتے ہمیشہ میرااپناتخیل کام کرتاتھا۔جو مناظر اَوررُومانس ،گانوں کے سُننے ،تخیل کے تال میل اَور رنگ آمیزی سے جنم لیتے ۔فلموں میں اُن کانام ونشاں تک نہ ہوتا۔فلموں کے بدمزہ مناظر اَور مصنوعی دُنیا کے مقابل میرے تخیل کی وادیوں میں پروان چڑھے مناظر ہمیشہ بلنداَور دل کش تھے۔
اس کی ایک مثال :
میرا ننھیال جس گاوں میں ہے قدرت نے اُسے خاص فطری مظاہر سے نوازاہے۔پھلائی،شاہ بلوط،چیڑ ،زیتون ،سنگتروں ،کیلوں اَور دیگر پھل دار اَور خوش بودار درختوں سے سجایہ گاوں ہمیشہ مجھے پُرسکون کردیتاتھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے ۔گرماکے دنوں (منگ )ننھیال گیاہواتھا۔گاوں کی مغربی سمت ایک پہاڑ ہے ۔جس پر تب چیڑ کے بڑے بڑے درخت تھے ۔مَیں اس پہاڑپر کھڑاتھا۔گاوں سے بھی نیچے دُورچماروں کے گھر تھے ۔کہتے ہیں یہ لوگ کبھی عیسائی ہواکرتے تھے بعد کسی زمانے میں مسلمان ہوگئے۔ان میں سے ایک گھر کے باہرکھڑکی میں ٹیپ رکھی تھی ۔ڈیگ اَپنی پوری آواز میں یہ نغمہ بلند کررہاتھا۔
؂
تُوچاند ہے پُونم کا
تُوگیت ہے ساون کا
پریا۔۔۔اَو۔۔۔! پریا۔پریا۔۔اَوپریا۔
ہم بَن باسی لوگ ہیں۔نخلستانوں،چمنستانوں ،جنگلوں اَور پربتوں کے دامنوں سے لپٹی حسین وادیوں کی آغوش میں پلے بڑھے ہیں۔ساون رُتوں میں پیاکی آواز،چاند،چاندنی اَور اَلہڑ وادیوں کاحسن ۔اس میں سریلے پنچھی ،گنگناتی ندیاں ،دریا، ساون کاگیلاحسن اَور پونم راتوں کی چاندنی میں دُھلا دھرتی کاسُنہرابدن ۔۔۔کوئی ہم سے پوچھے۔یہی وجہ ہے کہ جب کسی گاڑی ،ہوٹل یاچاے خانے میں اس نغمے کوسُنتاہوں تو وہی بھری دوپہر میں پہاڑ پر کھڑا ہوجاتاہوں پھر نیچے گاوں اَور گاوں سے بھی نیچے ایک مٹی کے کچے گھر سے اس سنگیت کو ہواکے دوش پر اُبھرتاڈوبتاسنتا ہوں۔یاپھرگیلے ساون کی خاموش راتوں میں پیپہیے کی آواز کے پیچھے لپک جاتاہوں۔پھر نغمہ نگار نے آگے آگے کہاں کیاگایا یادنہیں رہتا۔ مَیں دیر تلک وہاں بیٹھارہتاجہاں چاندہوتا،چاندنی ہوتی،خاموش سرمئی رات ہوتی،گیلابھیگاساون ہوتااَوراک پنچھی کے میٹھے سُرہوتے۔
مگر جب ایک فلم میں پچھم کے کِسی دیس کے ایک آلودہ اَور گنجان دریاکے پُل کے نیچے مصنوعی رنگوں میں منظرایاہوایہ سنگیت دیکھااَور سُنا تو طعبیت بوجھل ہوگئی ۔کہاں فطرت کی جھولی میں سُچے رنگ اَور کہاں یہ آلودہ مناظر ،آلودہ تخیل اَور آلودہ دُنیا۔
؂
آج پہلی بار ۔۔۔۔۔دل کی بات ہوئی ہے۔

ٹیپ ریکارڈ پر اَگلانغمہ گُونجنے لگااَور میرے سامنے چڑھائی میں ناڑ نالے کے کنارے اِک خوب صورت اَور دُشوار وادی کامنظر کھُلاپڑاتھا۔میرے تخیل نے گاڑی سے باہر چھلانگ لگائی اَور اس وادی سے دل کی باتیں کرنے لگا۔ میراتخیل ایک بچہ ہے جسے وادیاں ،ندیاں ،کلکاریاں کرتاپانی ،پھول اَور پربت اچھے لگتے ہیں ۔ان کی سنگت میں یہ خوش رہتاہے۔یُوں ان بنوں ،جنگلوں ،آب گاہوں اَور پربتوں کی چوٹیوں پر بسے اَبر سے آنکھ مچولی کرتارہتاہے۔عاشق حسین میرے بائیں بیٹھے کبھی کبھاراَپنے قیمتی موبائل سے کوئی تصویر لے لیتے ۔یہ لمحے اُن کے لیے دُشوارتھے۔جیپ اس پگڈنڈی پر ہچکولے کھاتی آگے بڑھ رہی تھی۔عاشق حسین ایک طرف اپناتوازن برقرار رکھتے دُوسری طرف کیمرے میں منظر یک جنبش کھینچ لانے کی تدبیرکرتے ورنہ کوئی دھکا،ہچکولہ انھیں گاڑی سے باہر پھینک سکتاتھا۔نہیں تو کیمرہ بندہوتے منظر کو دُھندلاسکتاتھا۔ان دُشواریوں کے درمیان عاشق حسین اپنی کاری گری نبھارہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply