ہرے بھرے پہاڑوں کے دامن میں بسے اسلام آباد شہر کو دنیا کے خوبصورت دارالحکومتوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔اس شہر کی تہذیب بہت پرانی ہے یہاں شاہ اللہ دتہ کے مقام پر ہزاروں سال پرانے بدھا غاریں بھی ہیں یہ جگہ اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 سے تھوڑا ہی دور بالکل مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔
The Shah Allah Ditta caves, located in the village of the same name on the outskirts of the capital, boast Buddhist murals which date back some 2,500 years.
Located at the bottom of the Margalla Hills in the federal capital, the caves are a popular site for hundreds of visitors — from either within the country or from abroad. Most turn it into a historical weekend excursion to reconnect with history and take in the lush green natural ambience of the village.
While the village, believed to be named after a Mughal-era dervish, serves as a custodian of the history of the caves, seems to be fast disappearing into history itself owing to poor access roads leading to the village.
Moreover, the centuries-old history contained in the caves seems to be crumbling away with scant attention from the authorities to either do anything to protect the precious murals or to regulate and regularise tourist or research activity.







یہاں جانے کے لیے سڑک تو برائے نام ہی ہے یہاں پہاڑوں کے درمیان چند غار ہیں، ایک باغیچہ ہے اور ایک قدرتی چشمہ بھی جس کا پانی سڑک کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا نیچے جاتا ہے۔ یہ غاریں قدیم زمانے میں بودھ راہبوں کی عبادت کا مقام ہوا کرتی تھیں جبکہ شاہ اللہ دتہ نامی ایک شخص صدیوں پہلے اس بستی کے سربراہ تھے جن کے نام پر اس جگہ کا نام شاہ اللہ دتہ پڑا۔ برگد کے درختوں کی کئی منزلہ اونچی لٹکتی ہوئی جڑیں ان غاروں کو ڈھانپے رکھتی ہیں۔ باغیچے میں آم کے پیڑ ہیں جن کے سائے میں بیٹھ کر آپ سستا سکتے ہیں اور پاس ہی موجود سٹال پر چائے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، جہاں بطخیں آپ کو گھیرے رہیں گی۔ یہاں برگد کے سینکڑوں سال قدیم درخت سے ایک جھولا بھی لٹکایا گیا ہے ڈاکٹر دانی کے مطابق یہ غار ہزاروں سال پرانے ہیں جن پر بدھوں کے مذہبی پیشوا ’مہاتما بدھ‘ کے نقوش تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نقوش تو مٹ گئے لیکن غار کے خدوخال ویسے ہی ہیں۔ یہاں برگد کے قدیم جٹھاداری درخت بھی لگے ہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق یہ درخت بھی تقریباً 700، 800 سال پرانے ہیں۔ یہ درخت طرح طرح کے پرندوں کا بھی مسکن ہیں غاروں کے قریب ایک چشمہ بھی ہےجس کا پانی متبرک سمجھا جاتا ہے۔ کبھی اس میں اس تالاب میں مچھلیاں تیرتی دیکھی جاسکتی تھیں یہی پانی غاروں کے ساتھ واقع ایک باغ کو بھی سیراب کرتا ہے جسے سادھو کا باغ کہتے ہیں۔ آج بھی قریبی آبادیوں کے رہائشی یہاں سے پانی بھر کر لے جاتے ہیں۔ یوں ہزاروں برس سے یہ چشمہ لوگوں کی پیاس بجھا رہا ہے سجاد اظہر انڈیپینڈٹ اردو میں اپنے ایک تحقیقی آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ یہ غاریں پتھر کے درمیانی عہد کی ہیں جو ہندوستان سے وسطی ایشیا، یورپ اور چین جانے اور آنے والے راستے پر واقع ہیں۔ ٹیکسلا سے ہندوستان جانے کا راستہ انہی غاروں کے ساتھ سے گزرتا تھا اس لیے ان کی صرف مذہبی نہیں بلکہ ایک تزویراتی حیثیت بھی ہے۔
ہندو، بدھ مت، جین مت، سکھ اور مسلمان ہر دور میں ان غاروں کی اپنی مذہبی حیثیت رہی ہے لیکن بعد میں جب سولہویں صدی میں راولپنڈی کا ٹاؤن وجود میں آیا تو حسن ابدال سے براہ راست جی ٹی روڈ راولپنڈی لایا گیا جس سے شاہ اللہ دتہ کی غاروں کے ساتھ سے گزرنے والا راستہ رفتہ رفتہ متروک ہو گیا۔ اب وہاں گھنا جنگل دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ صدیوں تک یہاں سے بڑے بڑے کاروان گزر کر ہندوستان جاتے رہے۔ یہیں ساتھ ہی کینتھلا گاؤں میں ایک قدیم باؤلی بھی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے شیر شاہ سوری نے بنوایا تھا۔ انگریز دور کے محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق اس جگہ کو ڈیرہ گڑیالہ کہا گیا ہے جس کا مالک ناگا مہنت شمداس تھا جو ڈیرہ باوا بھگڑ داس کا گدی نشین تھا۔
پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے کیوریٹر اور انچارج عامر یٰسین نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ سائنس کی زبان میں یہ غار جس پتھر سے بنے ہیں اسے ٹفہ کہا جاتا ہے جو لائم سٹون کی ایک قسم ہے۔ یہ سمندر کے نیچے بنتی ہیں ۔ان کی عمر ساڑھے پانچ کروڑ سال تک ہو سکتی ہے۔ ٹیکسلا انسٹی ٹیوٹ آف ایشین سولائزیشن قائداعظم یونیورسٹی کے جرنل آف ایشین سولائزیشنز کے 2010ء کے شمارے میں لکھا ہے کہ کنجور کے پتھروں کی بنی ان غاروں کی لمبائی 40 میٹر ،چوڑائی 60 میٹر اور اونچائی 8 میٹر ہے۔ مشرق کی سمت جو غار ہے اس کی دیواروں پر کچھ تصویریں بھی نقش تھیں مگر بعد میں ان پر چونا پھیر دیا گیا۔ ان میں سے ایک تصویر ہندؤوں کے دیوتا شیو کی ہے جو اب بھی موجود ہے۔ یہ غار اندر سے دو منزلہ ہے، جس کی دیواروں پر مٹی کا لیپ بھی کیا گیا تھا اور شاید ان پر چونا بھی کیا گیا تھا مگر یہاں اندر جو آگ لگائی جاتی رہی اس کی وجہ سے دیواریں اب کالی سیاہ ہو چکی ہیں۔ غار نمبر دو کے اندر ایک میٹر کا پلیٹ فارم بھی ہے جو شاید عبادت کے لیے استعمال ہوتا ہو گا کیونکہ قیام پاکستان کے وقت شاہ اللہ دتہ میں ہندو خاندان بستے تھے جو یہاں آ کر اپنی عبادات کرتے تھے۔ ان غاروں میں برگد کا ایک قدیم درخت بھی ہے جس کے ساتھ سے ایک چشمہ بھی نکلتا ہے جس کا پانی متبرک سمجھا جاتا ہے۔ یہی پانی غاروں کے ساتھ واقع ایک باغ کو بھی سیراب کرتا ہے جسے سادھو کا باغ کہتے ہیں۔ یہ باغ بھی قدیم بتایا جاتا ہے جہاں کبھی انواع و اقسام کے درخت ہوا کرتے تھے مگر تقسیم کے بعد اس کے مالکان کیا گئے کہ چمن ہی ویران ہو گیا۔ شاہ اللہ دتہ میں وہ زمینیں جو ہندو اور سکھ چھوڑ کر گئے ان کا شمار تو نہیں لیکن ان غاروں اور باغ سے متصل 856 کنال زمین وقف متروکہ املاک کی ملکیت تھی جس میں سے اب صرف آٹھ کنال کا قبضہ ہی محکمے کے پاس ہے باقی جگہ پر قبضہ گروپ ہاتھ صاف کر چکے ہیں۔ مغل دور میں جب ہندوستان عرب اور وسط ایشیاء سے آنے والے صوفیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا تو اسی دور میں شاہ اللہ دتہ نامی بزرگ نے اس باغ میں قیام کیا یہیں ان کا مزار بھی ہے۔ اس سے پہلے جو جگہ سادھوؤں، بھکشوؤں، یا جوگیوں سے منسوب تھی وہ آج ایک صوفی شاہ اللہ دتہ سےمنسوب ہے اشوک کے دور میں جب ٹیکسلا کی تہذیب اپنے جوبن پر تھی ،ایک ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے وادئ ٹیکسلا کے مختلف شہروں کی اس زمانے میں وہی حیثیت تھی جو آج کے نیویارک لندن یا پیرس کی ہے ۔ٹیکسلا سے گزرنے والاہر قافلہ ان غاروں سے ہو کر گزرتا تھا یہاں کے چشموں سے پیاس بجھاتا تھا اور اگلا پڑاؤ منکیالہ میں کرتا تھا جہاں ٹیکسلا کی طرح کے شاندار سٹوپے تھے ۔ ٹیکسلا ٹائم کے مصنف انجینئر مالک اشتر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنڈت اور سادھو ان غاروں میں نفس کشی اور مراقبے کی مشقیں کرتے تھے جن کے پیروکار بھی ان کی خدمت میں موجود رہتے یہ اپنا سر منڈواتے لیکن بائیں جانب ایک لٹ چھوڑ دیتے تھے گیروے رنگ کی چادر لپیٹے جب یہ قریب کی بستیوں کا رخ کرتے تو چیلے چانٹے آشیر باد حاصل کرنے کے لیے ان کے گرد جمع ہو جاتے ۔سترویں صدی میں جب بری امام یہاں آئے تو ان کے پیروکاروں نے بھی انہی سادھوؤں کا حلیہ اپنایا ۔
شاہ اللہ دتہ کے غاروں سے ہی ایک سڑک اوپر جاتی ہے جہاں آپ جتنا اوپر جاتے جائیں گے آپ کے سامنے وادی اور اسلام آباد شہر کے اتنے ہی خوبصورت نظارے وا ہوتے جائیں گے۔ یہاں پر ایک مقام کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کا ہری پور ڈویژن شروع ہو جاتا ہے۔ یہ پورا علاقہ درحقیقت ایک قدیم شاہراہ تھی جس کے ذریعے افغانستان اور انڈیا منسلک تھے۔ یہاں ایک قدیم کنواں ہے جسے محمد اسماعیل عباسی کے مطابق شیر شاہ سوری نے بنوایا تھا۔ ان غاروں کے پاس لاکھوں سال پرانے بےشمار فاسلز زمین پر بکھرے پڑے ہیں فاسلز رکازیات یا حفریات ( paleontology) اصل میں حفرہ یعنی محفوظ رہ جانے والی قدیم باقیات اور یات یعنی علم کا مرکب لفظ ہے۔ اس علم میں قدیم اور کسی حد تک محفوظ شدہ حالت میں ملنے والی باقیات (جنکو فارسی میں سنگوارہ عربی میں محجر اور انگریزی میں fossil کہتے ہیں) کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں اس علم کو Paleontology یا Palaeontology کہا جاتا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ رکاز (fossil) ہمیشہ لازمی نہیں کہ کوئی پتھر ہی ہو اسی ليے اس کے ليے محجر اور سنگوارہ کے ساتھ ساتھ ایک اور لفظ —- حفرہ —- بھی استعمال ہوتا ہے جو حفر سے بنا ہے اور اس کا مطلب کسی بھی —- قدیم نقش یا باقیات —- کا ہوتا ہے اور یہی اصل میں رکاز کا درست مفہوم ہے اسی وجہ سے اردو ویکیپیڈیا پر Paleontology کے ليے حفر سے حفریات کا انتخاب کیا گیا ہے، حفر کی جمع احافیر یعنی fossils ہوتی ہے۔ ساختیاتی پیچیدگی کے حوالے سے رکازات راست ثبوت کے طور پر بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ نظریۂ ارتقا میں رکازات پر غیر معمولی زور رہا ہے، کیوں کہ ارتقا کے براہِ راست ثبوت کے طور پر (ایسا ثبوت جسے راست چشم انسانی سے دیکھا جا سکتا ہو) رکازات دلیل آخر ثابت ہو سکتے ہیں! ایسا نہیں ہے کہ رکازاتی سائنس ارتقائی بحثوں کے چھڑنے کے بعد وجود میں آئی ہو، بلکہ یہ سائنس نظریۂ ارتقا کی پیش کش سے کئی دہائیوں قبل ارتقا پذیر ہو چکی تھی۔ لیکن اس نظریے کے آنے سے قبل یہ محض چٹانوں اور ان کی تشکیل اور ان میں پائے جانے والے جانداروں کے ڈھانچوں اور ان کی تفصیلات مرتب کرنے تک محدود تھی۔ ڈارون کے پیش کردہ نظریۂ ارتقا کے بعد فطری طور پر اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اگر یہ نظریہ صحیح ہے کہ سادہ جانداروں سے پیچیدہ جاندار وجود میں آئے تو اس سادگی اور پیچیدگی کی درمیانی کڑیوں کا ریکارڈ زمین کی تہوں میں چھپاہونا چاہیے ۔ اس مفروضے کے بعد گویا رکازاتی سائنس میں انقلاب برپا ہو گیا اور درمیانی کڑیوں کی تلاش شد و مد سے شروع ہو گئی۔
A fossil is any preserved remains, impression, or trace of any once-living thing from a past geological age. Examples include bones, shells, exoskeletons, stone imprints of animals or microbes, objects preserved in amber, hair, petrified wood and DNA remnants. The totality of fossils is known as the fossil record. Fossils are the geologically altered remains of a once-living organism and/or its behaviour. There are two main types: body fossils represent all or part of the organism’s body, and trace fossils show evidence of the organism’s behaviour.
فوسلز ایسے جاندار ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ پتھر بن جاتے ہیں جب ایک زندہ چیز زمین میں ایسی جگہ دب جائے جہاں شدید دباؤ ہو مگر آکسیجن موجود نہ ہو، اور اس پر 10 ہزار سال گزر جائیں تو یہ جاندار پتھر کی شکل میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور کافی حد تک اپنی ساخت برقرار رکھتے ہیں کرہ ارض پر ہر وقت موسمی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ روز مرّہ کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیاں اتنی معمولی ہوتی ہیں کہ مشاہدے میں نہیں آتیں لیکن ہزاروں، لاکھوں سال گزرنے پر یہ اتنی نمایاں ہوجاتی ہیں کہ متضاد تک ہوجاتی ہیں اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج جو علاقے ویران اور خشک بیابان ہیں ان میں سے کئی جگہوں پر لاکھوں سال پہلے سمندر تھے
فوسیلائزیشن کا عمل ہزاروں سال تک جاری رہتا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف چیزوں کے عمل سے فوسلز کی تشکیل ہوتی ہے۔ جسمانی، کیمیائی اور حیاتیاتی ایجنٹ، جانداروں کے نامیاتی باقیات کے مکمل گلنے سے روکتے ہیں۔
ایک فوسل کو ماضی میں رہنے والے کسی جانور کا اصل نشان سمجھا جاتا ہے، جو ہڈی، درخت کا پتا، دانت یا پاؤں کے نشان کا نشان بھی ہوسکتا ہے۔ درحقیقت، فوسلائزیشن کے عمل کو کچھ نایاب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے وقوع پذیر ہونے کے لیے، کئی عوامل کا ایک مجموعہ ہونا چاہیے، جن کا امکان بہت کم ہے۔ تاہم، جانوروں کی کئی اقسام ہیں، جو آج پہلے ہی ناپید ہیں، اور جنہیں فوسلز کی شکل میں دریافت کیا گیا تھا۔ فوسیلائزیشن کا براہ راست تعلق مٹی کی تلچھٹ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوسلز صرف تلچھٹ والی چٹانوں میں پائے جاتے ہیں۔تلچھی چٹانوں کو قدرتی تشکیل کے طور پرخصوصیت دی جاتی ہے، جو تلچھٹ کے ٹکڑوں (یا چٹانوں) کے اکٹھا ہونے یا معدنیات کی بارش سے پیدا ہوتی ہیں۔ نمکین، جو آبی ماحول میں تحلیل ہوتے ہیں۔ عام طور پر، تلچھٹ کی چٹانیں دوسروں کے مقابلے میں نرم ہوتی ہیں، اور جن کی ارضیاتی تشکیل بھی زیادہ حالیہ ہے، اس حقیقت کے موجود ہونے کے باوجود یہ اشارہ کرتا ہے کہ یہ علاقہ پرانا ہے۔چٹانیں قدرتی ٹوٹ پھوٹ سے گزرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ لاتعداد تلچھٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ہم مثال کے طور پر سمندر کے پانی کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ اتنایہ ساحلی چٹانوں سے ٹکراتا ہے، یہ انہیں نیچے پہن کر ختم ہو جاتا ہے۔ اس عمل سے ساحل سمندر پر ریت پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح، کٹاؤ کا شکار پتھروں کی تلچھٹ کو پانی کی ہوا کے ذریعے دوسرے علاقوں میں لے جایا جاتا ہے۔ عام طور پر، وہ سمندر کی تہہ تک جاتے ہیں۔ ان تلچھٹ کے جمع ہونے کے بعد، سمندر کی تہہ میں، تلچھٹ کی بے شمار تہوں کے اوور لیپنگ کی وجہ سے جمع ہونے کا رجحان ہوتا ہے، تاکہ اوپری تہوں پر دباؤ اور وزن بڑھتا ہے۔ یہ پورا عمل اس کو جنم دیتا ہے جسے ہم لتھیفیکیشن یا ڈائی جینیس کہتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے، تلچھٹ کا ملاپ ہوتا ہے، جو تلچھٹ کی چٹانوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک بلاتعطل واقعہ، تلچھٹ کی چٹانوں کی نئی تہیں مٹی کے اوپر سے بنتی ہیں۔ اسی لیے، ان خطوں میں جہاں ان چٹانوں کی تشکیلوں کا ارتکاز ہے، جنہیں تلچھٹ کے طاس کہا جاتا ہے، یہ دیکھنا آسان ہے کہ ان کی تہیں کیسے بنتی ہیں، جنہیں اقتباسات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ وہ تلچھٹ جو اس کو جنم دیتے ہیں۔ فوسلز کے اوپر کی تہہ پتلی ہوتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے وہ مقدمے کا کم شکار ہوتے ہیں۔کٹاؤ۔یہ ضروری ہے کہ مٹی کا درجہ حرارت کم ہو اور اس میں آکسیجن کم ہو۔ اس سے گلنے والے مائکروجنزموں کے لیے اپنی جگہ پر رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔سڑن کی تہہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ جاندار کو زیادہ تیزی سے ڈھانپ لے، اس سے پہلے کہ یہ سڑ جائے، مائکروجنزموں کے عمل کی وجہ سے۔فوسیلائزیشن کا عمل انتہائی سست ہے۔ یہ لاکھوں سے اربوں سال تک رہ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ، یہ ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے، کیونکہ اس میں کئی عوامل شامل ہیں، جیسے کہ جسمانی، کیمیائی اور حیاتیاتی ایجنٹ، موسمی حالات، اور یہاں تک کہ ان جانداروں کی شکل بھی جو اس عمل میں شامل ہیں۔اس طرح، ان تمام عوامل پر منحصر ہے جو جاندار میں موجود تھے اور عمل کرتے تھے، جب یہ پہلے ہی مر چکا تھا، اور یہ کہ یہ ایک فوسل میں تبدیل ہوا، ہم فوسلائزیشن کی مختلف اقسام کی درجہ بندی کر سکتے ہیں، اس طرح: معدنیات: جسے “پرمینرلائزیشن” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جو کہ حیاتیات میں کچ دھاتوں کی شمولیت کی وجہ سے ہوتا ہے، اور جس کے نتیجے میں سیلیکا، چونا پتھر، اور دیگر کے ذریعے نامیاتی مادے میں تبدیلی آتی ہے۔ اس طرح، انہیں طویل مدت تک محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مممیشن: یا “تحفظ”، جیسا کہ اسے بھی کہا جاتا ہے۔ اس فوسلائزیشن کے عمل کو سمجھا جاتا ہے۔سب سے نایاب. یہ سخت اور نرم دونوں حصوں کو برقرار رکھنے کے قابل ہے۔
ممیشن کا عمل سبزیوں کی رال کے ذریعے ہوتا ہے، جسے امبر کہا جاتا ہے، جس میں جانوروں کی باقیات کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یا جمنے کے ذریعے بھی، جیسا کہ برف کے زمانے کے میمتھ کے ساتھ ہوتا ہے۔نشانات: جہاں مختلف قسم کے نشانات جو جانداروں نے چھوڑے ہیں ظاہر کیے جاتے ہیں، جیسے سرنگیں، پاخانہ، پٹری، انڈے یا قدموں کے نشان
سخت باقیات: ایک زیادہ عام فوسلائزیشن کے عمل پر مشتمل ہوتا ہے، ان سخت حصوں اور ہڈیوں کے پیش نظر جو کہ مخلوقات سے پائے جاتے ہیں۔ مولڈنگ: یہ عمل معدنیات کے مترادف ہے۔ تاہم، حیاتیات فوسلز کو ڈھالنے کے عمل میں غائب ہو جاتے ہیں۔ تاہم، سڑنا باقی ہے (اندرونی ڈھانچہ اور بیرونی ڈھانچہ دونوں)، جو کہ سخت حصے کی تولید کے برابر ہے یہ عمل کافی عام ہے، اور عام طور پر چٹانوں اور پتھروں میں پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف، کاؤنٹر مولڈنگ کا عمل ایسک کو بھرنے کے ذریعے ہوتا ہے، جو مولڈ کے اندر ہوتا ہے۔

غاروں کے بالکل ساتھ ہی کاروباری سرگرمیاں بھی شروع ہو چکی ہیں بہت سے ہوٹل یہاں بن چکے ہیں اور فاسلز کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا جا رہا ھے بلکہ اب تو یہ فاسلز ڈھونڈنے پڑتے ہیں اس کہ علاوہ قبضہ مافیا کی پلاٹنگ سے ان غاروں کو شدید خطرات بھی لا حق ہیں ۔حالانکہ آثار قدیمہ کے تحفظ کے قانون مجریہ 1975ء کے تحت ان غاروں کے دو سو فٹ تک کسی بھی قسم کی تعمیرات ممنوع ہیں اور خلاف ورزی پر تین سال تک سزا ہو سکتی ہے یہ غاریں پانینی ، سکندر اعظم ، چندر گپت موریہ ، اشوک ِ اعظم ، کو ٹلیہ چانکیہ ، سمیت کتنی ہی نامور ہستیوں کی گواہ ہیں ۔ بعض ہندو مؤرخین یہ قیاس بھی کرتے ہیں کہ شیو اور ان کی بیوی سیتا نے بھی راج کٹاس جاتے ہوئے یہی راستہ اختیار کیا تھا۔داتا صاحب اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری جیسے صوفیا نے بھی شاید کوئی پل یہاں گزارا ہو گا ۔مگر یہ سب گزرے ہوئے کل ہیں جن سے شاید یہاں کے لوگوں کو اب کوئی رغبت نہیں رہی ۔ان کی دلچسپیاں ان پہاڑوں کو کاٹ کر اپنے محل بنانے میں ہیں حالانکہ یہیں قریب دنیا کی ایک بڑی تہذیب اپنے محلوں سمیت دفن ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں