18ویں صدی کے فرانسیسی مورخ، مضمون نگار، ڈرامہ نگار، کہانی کار، شاعر، فلسفی، دولت مند تاجر اور ایک معاشی مصلح، والٹیئر ایک منظم مذہب کے خلاف اپنے نظریات کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں نے مغرب میں لبرلزم اور شہری آزادیوں کو فروغ دیا۔
اپنے وقت کے اس مشہور فرانسیسی فلسفی والٹیئر کے اثر و رسوخ کے بارے میں برطانوی مصنف ول ڈیورنٹ لکھتے ہیں کہ جس طرح ’اٹلی میں نشاۃ ثانیہ تھی، اور جرمنی میں اصلاح پسندی کی تحریک، فرانس میں والٹیئر تھا۔ وہ اپنے ملک کے لیے نشاۃ ثانیہ اور اصلاح کا نصف انقلاب تھا۔‘
ان کی سوانح عمری کے مطابق، والٹیئر ایک ہمہ گیر اور بہت قابل مصنّف تھا، جس نے تقریباً ہر ادبی شکل میں اور ہر صنف میں اپنی تخلیقات چھوڑی ہیں، جن میں ڈرامے، نظمیں، ناول، مضامین، تاریخی، بلکہ سائنسی مقالے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے 20,000 سے زیادہ مقالے اور 2,000 کتابیں اور کتابچے لکھے۔
اگرچہ انہیں ایک مذہب مخالف نقاد اور کیتھولک مسیحیت کے مخالف کے طور پر جانا جاتا تھا، لیکن اس نے اسلام کے کردار کی بھی شدید مخالفت کرتے ہوئے ایک ڈرامہ لکھا جس میں پیغمبر محمد کو ایک جعلساز، جھوٹا نبی، ایک سازشی، ایک بے رحم حکمران اور انتہا پسند جنونی قرار دیا۔
سنہ 1736 کے آس پاس اس نے یہ ڈرامہ لکھا اور اس کا عنوان تھا (Le fanatisme, ou Mahomet le Prophète)، جس کے انگریزی میں معنی بنیں گے (Fanaticism, or Mahomet the Prophet) اور اردو میں لفظی معنی ہوں گے ‘جنونیت، یا محمد رسول اللہ’۔
یہ ایک پانچ ایکٹ کا ڈرامہ تھا جسے 25 اپریل 1742 کو فرانس کے شہر لِل میں سٹیج کیا گیا تھا۔ والٹیئر نے ڈرامے کی ایک کاپی پوپ بینیڈکٹ ششم کو بھیجی، جس میں دو مقدس تمغوں کی اور لاطینی زبان میں اپنے لیے تعریفی سند کی درخواست کی تھی۔
پوپ نے اس ڈرامے کی وجہ سے والٹیئر کو ایوارڈز بھیجے تھے اور ساتھ ہی ایک جواب تھا جس میں انہوں نے ’محمیٹ جیسے بہت خوبصورت سانحہ‘ لکھنے کے لیے اُس کا شکریہ ادا کیا تھا۔ لہٰذا اس ڈرامے کے لکھنے کا مقصد ان کے لبرل نظریات سے جڑا ہوا نظر نہیں آتا ہے بلکہ اس کا مقصد شاید پوپ کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔
والٹیئر نے خود اپنے ڈرامے ‘محمیٹ’ کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے اس میں یہ دکھانے کی کوشش کی کہ ایک جعلساز کی قیادت میں جنونیت، کمزور ذہنوں سے کیسی کیسی خوفناک زیادتیاں کروا سکتی ہے۔‘
ڈرامے کی مغرب میں شہرت:
اس ڈرامے کا انگریزی میں ترجمہ 18ویں صدی میں لندن اور 20ویں صدی کے اوائل میں امریکہ میں کیا گیا۔ سنہ 2013 میں اس کا ایک بار پھر انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ اس سے قبل یہ ڈرامہ تقریباً متروک ہو چکا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ والٹیئر کا زیادہ تر ادب طویل عرصے سے فراموش کر دیا گیا ہے، سوائے اس کے آزاد خیالی والے نظریات، لبرلزم اور اس کے مشہور ناول ‘کینڈیڈ’ کے، تاہم آج کا یورپ اب بھی اُس کے ڈرامے ‘محمیٹ’ کو دوبارہ دریافت کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
سنہ 2005 میں مشرقی فرانس کے ایک شہر ’این‘ میں اس ڈرامے کی پروڈکشن کے نتیجے میں منسوخی کے مطالبات اور پرفارمنس ہال کے باہر ہی گلیوں میں احتجاج کی وجہ سے کچھ خلل پڑا تھا۔ لیکن شہر کے میئر نے یہ کہتے ہوئے اس ڈرامے کی پرفارمینس کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا کہ آزادی اظہار جدید یورپ کا ‘سنگ بنیاد’ ہے۔
اس کے بہت سے حامی اس ڈرامے کے دفاع میں یہ جواز دیتے ہیں کہ ’کیتھولک چرچ کی عدم برداشت اور مسیحیت کی جانب سے کیے گئے اس کے جرائم‘ اس کا ہدف ہو سکتے ہیں‘ جنہیں اس ڈرامے کے ذریعے فلسفی نے اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ جواز مضحکہ خیز لگتا ہے۔
اس ڈرامے کے کرداروں میں محمد، عمر، زوپیر اور زوپیا کے دو بچوں سِید اور پالمیرا نمایاں ہیں۔ یہ ڈرامہ پیغمبر محمد کے اخلاقی کردار پر براہ راست حملہ ہے۔ عمر ایک مشہور تاریخی شخصیت ہیں جو بعد میں دوسرے خلیفہ بنے، انہیں محمد کے ایک سفاک ساتھی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
سعید اور پالمیرا کے کردار محمد کے لے پالک بیٹے زید بن حارثہ اور ان کی بیوی زینب بنت حجش کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ زوپیر مکے کے سردار ابوسفیان کی نمائندگی کرتا ہے، حالانکہ ان کی حقیقی زندگیاں کسی بھی طرح ان کرداروں سے مشابہت نہیں رکھتی ہیں۔ تاریخ کے حقیقی کرداروں پر مبنی افسانوی تاریخ کی اسی صنف کو سلمان رشدی سمیت کئی مصنفین نے استعمال کیا ہے۔
نپولین کی والٹیئر پر شدید تنقید:
تاہم یہ نپولین تھا جس نے والٹیئر کو ‘محمیٹ’ لکھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انھوں نے کہا کہ والٹیئر نے (محمد) کو ایک ’عظیم انسان‘ کے طور پر پیش کرنے کے بجائے، انھیں محض ایک دھوکے باز اور ظالم بنا دیا تھا۔ محمیٹ گہری تنقید کا نشانہ تھے۔‘
نپولین نے لکھا کہ ‘والٹیئر اپنے ہیرو کے کردار اور طرز عمل میں فطرت اور تاریخ دونوں سے الگ ہو گیا ہے۔ اس نے محمیٹ کو پست سازشوں میں اتار کر اسے رسوا کیا ہے۔ اس نے ایک عظیم انسان کی شخصیت کو مسخ کیا ہے، جس نے دنیا کا چہرہ بدل دیا۔ اس نے (محمیٹ) کو ایک ایسے بدمعاش کی طرح پیش کیا کہ جیسے وہ پھانسی کے پھندے کے لائق تھا۔‘
نپولین نے والٹیئر پر مزید تنقید اس بنا پر بھی کی کہ اُس نے ’عمر کے کردار کو بھی مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا۔‘
بہرحال والٹیئر کی تاریخی حساسیت کے بارے میں ایک مشہور سکاٹش مصنف تھامس کارلائل نے دلیل دی ہے کہ ’والٹیئر نے ایک مذہب مخالف شخص کی طرح تاریخ پڑھی، نہ کہ ایک نقاد کی نظر سے، اُس نے تاریخ کو محض اینٹی کیتھولک تماشوں کے طور پر بیان کیا۔‘
والٹیئر نے آخری دنوں میں اپنا آخری ڈرامہ “آئرین” بھی لکھا تھا اور وہ بھی افسانوی تاریخ جیسا تھا۔ اس ڈرامے میں مرکزی کردار عثمانی خلیفہ محمد فاتح تھا (جس نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا)۔ اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ سلطان فاتح اپنی یونانی نژاد مسیحی کنیز کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے اُس کے جانیساریز (غلاموں کی وفادار فوج) بغاوت کردیتے ہیں۔
اس عشق کا انجام یہ ہوتا ہے کہ سلطان جانیساریز کی وفاداریاں واپس حاصل کرنے لیے اپنی معشوقہ کو قتل کر دیتا ہے۔ اس ڈرامے سے بھی والٹیئر کی مسلم دشمنی کی ایک انتہائی شکل نظر آتی ہے۔

بشکریہ فیسبک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں