میرے گھر والے نہیں کہتے یہ میرا اپنا شوق ہے۔جس کی خاطر میں ذلیل ہوتا ہوں۔
ہمارے ایک بچپن کے دوست تھے نام تو انکا شائد رشید تھا لیکن نک نیم پیڈا تھا، جب وی سی آر پر کاروباری حضرات نے گلی محلوں میں چھپ چھپا کر نیلی فلمیں دکھانے کا انتظام کیا تو یہ سہولت کافی دیر بعد ہمارے علاقے میں پہنچی پہلے ہمارے بڑے کزن جن کے پاس جیب خرچی زیادہ ہوتی تھی اور انکا ذوق آج کے تنظیم کاری کے ماہر سیاست دانوں سے ملتا جلتا ہوتا تھا۔ وہ دور داراز علاقوں نارتھ ناظم آباد گولی مار وغیرہ اس بے ضر سی تنظیم کاری کے لئے جاتے ایک اطلاع یہ بھی تھی کے سندھ میڈیکل کالج کے جمہوریت وانقلاب پسند طالب علم راہنماہ حضرات بھی اپنے خرچے پورے کرنے کے لئے انڈین فلموں کے ساتھ ایک آدھ مخصوص رنگ کی فلموں کو چلانے کا انتظام کرتے اور اپنی پڑھائی کی جائز ضروریات پوری کرتے ۔۔ کمال محبت تھی اس زمانے کے ڈاکٹروں کی تعلیم سے اغواء برائے تاوان ودیگر خرافات تو بعد میں آئی ۔خیر بات ہو رہی تھی جب یہ کاروبار نواحی بستیوں میں پہنچا تو ہمارے اس بچپن کے ساتھی کا رویہ اس دن عجیب و غریب ہوتا۔ کیونکہ فلمیں دیکھتے تو وہ سب۔ لڑکے تھے جو بیس روپے خرچ کرسکتے تھے لیکن ان کا شوق ذرا اتنا زیادہ تھا جتنا آج کل کے کئی بڑے سیاستدانوں کا گوڑی نیلی و آسمانی رنگ کی فلموں میں کام کرنے کا ہے۔ وہ کیونکہ درزی کا کام سیکھتے تھے انھیں ان کے استاد سے ہفتے کے ہفتے پیسے بھی ملتے تھے لہذا وہ ایسا کوئی سنہرا نیلا موقع نہ چھوڑتے تھے۔ وہ اس روز گلی کی نکر پر چہک رہا ہے۔ہوتا بلا وجہ سیٹیاں جس کا وہ بہت ماہر تھا بجا رہا ہوتا۔دوست سمجھ جاتے آج کہیں آسمانی رنگ کی یا گوڑی نیلی رنگ کی فلم چلنے کا انتظام ہے۔ اسے جب اس کی اس عادت کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ۔تو وہ معصومیت سے کہتا۔” یہ میرا اپنا شوق ہے۔جسکی خاطر میں ذلیل ہورہا ہوں،میرے گھر والے مجھے نہیں کہتے جاؤ فلمیں دیکھوں” کل اسمبلی میں شوکت ترین کو سکہ بند سیاستدانوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھ کر پیڈے مرحوم کی یہ بات یاد آگئی یقیناً یہ شوکت ترین کا اپنا شوق ہوگا۔ورنہ گھر والے کس کے کہتے ہیں جاؤ ذلیل ہو۔
یہ مضمون 31 دسمبر 2021 کو لکھا گیا۔
چولاں بارے کھچاں سے اقتباس
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں