پہلا حصّہ پڑھنے کے لیے لنک کھولیے
دوسرا حصہ
ہپاکُن سے تغافری ؛
تغافری، راکاپوشی بیس کیمپ کا مقامی نام ہے جسے سُن کر مجھے کوہ قاف کے کسی پہاڑی درّے کا گمان ہوا۔دور دراز کے علاقوں میں مقامی نام بھی کتنے منفرد، پیارے اور یادگار ہوتے ہیں نا۔
ہپاکُن سے تغافری کا ٹریک لگ بھگ دو سوا دو گھنٹوں کا ہے جس میں پہلے ایک شدید چڑھائی ہے، پھر کچھ ہموار ہے اور آخر میں درمیانے درجے کی ایک اور چڑھائی ہے۔ پورا ٹریک درختوں اور جڑی بوٹیوں سے گھرا ہے جسے کرتے ہوئے آپ بالکل بور نہیں ہوں گے۔
ہم چونکہ ہپاکن کا ٹریک کر کے فارم میں آ چکے تھے سو یہ ٹریک زیادہ مشکل محسوس نہ ہوا ،اور لگ بھگ دو گھنٹے بعد ہم ”چوکرین“ Chokrain پہنچ گئے۔ چوکرین راکاپوشی کا ویو پوائنٹ بھی کہلاتا ہے کہ یہاں سے راکاپوشی، ہاپاکن، دیران، مناپن گلیشیئر اور اس سے متصل برف کی دیوار ice wall کا بھرپور نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہیں سے ایک پہاڑ کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت سا راستہ آپ کو تغافری پہنچا دیتا ہے جہاں مقامی لوگ ہمیں روزمرہ کے کام کاج کرتے نظر آ جاتے ہیں۔
قراقرم کا تاج محل ؛
تغافری پہنچنے کے بعد میں نے اپنا سامان رکھا، میگی سے دو دو ہاتھ کیے اور پربتوں کی اس دیوی کو نظر بھر کے دیکھنے بیٹھ گیا جس کے لیے میں اتنی دور سے یہاں پہنچا تھا۔
سر سبز میدان، بیچ میں سانپ کی طرح بل کھاتا ٹھنڈے پانی کا ایک نالہ، دور دور ایستادہ چار پانچ خیمے، ایک پتھر کا کچن و باتھ روم اور پسِ منظر میں دور تک پھیلی ایک برف کی دیوار،بس یہی تھا تغافری۔
بس۔۔۔۔؟؟؟؟
ارے جب دُمانی اتنے قریب سے نظر آ رہا ہوتو اور کیا چاہیے۔
آج سے کئی سال پہلے جب میں میڈیکل کالج میں تھا تو میری والدہ نے مجھے نمرہ احمد کے ناول ”قراقرم کا تاج محل” کا بتایا۔ یہ ناول راکاپوشی پر لکھا گیا تھا۔ چونکہ مجھے ادب اور سیاحت دونوں سے لگاؤ تھا سو فوراً یہ ناول خرید کر پڑھ ڈالا۔ مجھے یاد ہے، اسے پڑھنے کے بعد کئی دن تک میں راکاپوشی کے عشق میں مبتلا رہاتھا۔ بار بار گوگل پہ اس پہاڑ کی تصاویر نکال کے دیکھتا رہتا تھا۔ اس وقت شاید ذہن کے کسی کونے میں یہ خیال تھا، کہ موقع ملا تو اس کے سامنے جا کر اسے سلام کروں گا۔
اس ناول نے میرے شوق کو نا صرف بھڑکایا بلکہ اس کی کچھ لائنیں میرے اندر تک سرائیت کر گئیں جن کی وجہ سے چلتے چلتے ایک شخص صحرا سے اس برف زار تک پہنچ گیا۔
شام ڈھلے چکن کڑاہی اور پیزا کی شکل میں کاٹی گئی تکونی چپاتیاں ہمارے سامنے رکھ دی گئیں۔ کھانے سے انصاف کر کے میں اپنے خیمے میں آ گیا کیونکہ مجھے کل کے لیے خود کو تیار کرنا تھا۔
رات کسی پہر مجھے گھٹنے میں درد کا احساس ہوا تو آنکھ کھل گئی، یہ درد مجھے اپنے وادی سرن کے گزشتہ ٹور سے ملا تھا جو اَب پھر جاگ رہا تھا۔ ایک پریشانی سی ہوئی کہ کل گلیشیئر پہ ٹریک کر پاؤں گا یا نہیں۔۔۔۔۔؟؟
پھر ایک اور سوچ در آئی کہ اس درد کے ساتھ مجھے آگے کا ٹریک کرنا چاہیئے یا نہیں؟
یہ فیصلہ صبح پہ چھوڑ دیا اور اللہ سے یہ دعا کی کہ میرے حق میں بہتر کرنا۔
کروٹیں بدلتے بدلتے پھر نیند کی دیوی مجھ پر مہربان ہو گئی۔
صبح اٹھ کر میں خیموں سے ذرا دور اس طرف نکل آیا جہاں راکاپوشی کا ”برفانی معبد” بالکل میرے سامنے تھا۔
ہیبت تو نظر نہیں آئی البتہ حسن اپنے جوبن پہ تھا۔
پربتوں کی دیوی کو ذرا جھک کے سلام کیا۔
برف سے ڈھکی اس چوٹی کو کیسے خراجِ تحسین پیش کرو گے۔۔۔ ؟
بائیں پہلو سے آواز آئی۔۔۔
کیوں ہر بار خراجِ تحسین پیش کرنا ضروری ہوتا ہے کیا۔۔ ؟
مالک کی اس تخلیق کا یہی خراجِ تحسین ہے کہ اسے بس جی بھر کے دیکھا جائے، اور دیکھا جائے، اور بس دیکھا جائے۔
لیکن اس معبد نے ابھی مجھ سے میری چاہت کا خراج وصول کرنا تھا۔
چلتے چلتے واپس کیمپ سائیٹ پہ آیا۔ سب ابھی سو رہے تھے۔ گھٹنے کا درد کچھ کم ضرور ہوا تھا لیکن اپنی جگہ موجود تھا۔
اتنی دور آ کر میں ایسے واپس نہیں جا سکتا تھا۔
مجھے دیران تک جانا تھا، اس چوٹی کے بادلوں کو چھونا تھا، کچیلی جھیل کے کنارے کھلے پھول دیکھنے تھے سو سر اوپر اٹھا کے آسمان کو دیکھا اور اپنے اللہ سے میں نے ہمت مانگی۔
شاید وہ قبولیت کا وقت تھا۔
دُمانی سے دِیران تک ؛
منگل 4 جولائی کی صبح نرم دھوپ کے ساتھ آئی تھی سو ہمارے لیئے یہ ایک خوشی کی خبر تھی۔
سلمان نے کہا کہ آج آرام سے نکلیں گے۔ راکاپوشی کے سامنے بیٹھ کر زبردست سا ناشتہ کیا جس میں ہلکے پھلکے پراٹھے، آملیٹ، چائے اور نگر کا بنا ہوا خاص چیری کا جیم شامل تھا۔ناشتے کے بعد پورٹرز نے سامان کو اچھے طریقے سے پیک کیا جس میں ہمارے بیگز کے علاوہ ایک ہریشر کُکر، چھوٹا سلنڈر اور کیمپنگ کا سامان شامل تھا۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ اونچائی پہ گوشت عام برتنوں میں نہیں پکایا جاتا، اسے گلانے کے لیئے پریشر کُکر کا استعمال کیا جاتا ہے۔
لگ بھگ دس بجے ہم نے اپنا سفر شروع کیا۔ اس سفر میں میرے، سلمان، وجیہ اور نعیم کے علاوہ دو نئے ہم سفر بھی شامل ہوئے تھے۔ ایک نوجوان پورٹر مہدی جبکہ دوسرا ہمارے احباب کا ہنزہ سے لایا گیا کُتا، کُبرو۔
چھے جانداروں پر مشتمل اس قافلے نے اپنا سفر شروع کیا۔
ایک بھرپور اونچائی اور اترائی کے بعد پتھروں کا انبار ہمارے سامنے تھا جس سے بڑی احتیاظ سے گزرنا تھا۔ بڑے، چھوٹے، نوکیلے، چپٹے ہر قسم کے پتھر تھے بس صحیح جگہ قدم رکھ کہ چلتے جانا تھا۔
ٹریکنگ اور زندگی؛
یہاں میں یہ بتا دوں کہ ٹریکنگ کرنا بالکل بھی سادہ کام نہیں ہے۔ آپ کو ٹریک کے حساب سے خود کو مینج کرنا پڑتا ہے۔
ٹریک کی پوی معلومات لے کےنکلنا ہوتا ہے۔
ٹریک کی ساخت کے حساب سے اپنی رفتار کم یا زیادہ کرنی ہوتی ہے، سانس کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے، پانی کا استعمال کم کرنا ہوتا ہے۔
پتھریلا ٹریک ہے تو دیکھ بھال کر مضبوط پتھر پہ قدم رکھنے ہوتے ہیں۔ چراگاہ یا میدان ہے تو رفتار کچھ تیز کر کر وقت بچانا ہوتا ہے۔
برف ہے تو کریوز کا خیال رکھ کر چلنا ہوتا ہے اور چلتے وقت اپنی ٹریکنگ اسٹک کو آگے کی طرف رکھ کہ راستے کی مضبوطی کو جانچنا ہوتا ہے۔ چڑھائی یا اترائی ہے تو اسے مختلف ٹکروں میں پار کرنا ہوتا ہے۔
مشکل اور زیادہ ڈھلوانی جگہ کے حساب سے بہترین اور اچھی گرپ grip والے جوتے رکھنے ہوتے ہیں۔
غرض ٹریکنگ بھی آپ کی زندگی کی طرح ہے
جہاں کئی موڑ آتے ہیں۔۔۔۔
آسان مشکل راستے آتے ہیں
چھوٹے بڑے ندی نالے یا رکاوٹیں ہوتی ہیں
آپ گرتے ہیں سنبھلتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ آپ اپنی منزل پہ پہنچ ہی جاتے ہیں۔
جیسے ایک وقت آتا ہے جب زندگی کی شام ہو رہی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ وقت آپ کو اداس سا کر دیتا ہے، کہ منزل سے زیادہ راستہ اور سفر آپ کو عزیز ہوتا ہے۔ منزل آ گئی تو ساتھ سفر کا چارم ختم ہو جاتا ہے۔
خیر، ٹریکنگ اور زندگی کا موازنہ کرتے کرتے ہم نے یہ حصہ پار کر لیا۔ اب میرے سامنے سفیدی ہی سفیدی تھی جیسے کسی گھر میں سفیدی کر کہ مجھے قید کر لیا گیا ہو۔
یہ برف زار تھا۔۔۔۔۔
قراقرم کا برف زار۔
قراقرم کا برف زار ؛
راکاپوشی سے دیران کی چوٹی تک گلیشیئر کی ایک دیوار سی کھڑی ہے جسے ”آئس وال” یا ”آئس وال آف راکاپوشی” بھی کہا جاتا ہے۔ اب اگلے پانچ گھنٹوں تک ہمارا سفر اسی برف زار میں ہو گا۔
یہاں پہنچ کر جب ہمیں ہوا کے تھپیڑوں نے ستایا تو ہم نے سامان سے اپنے اپنے گرم کپڑے برآمد کر لیئے اور سفر شروع کیا۔ سورج کی وجہ سے برف اپنی جگہ جمی ہوئی تھی جو ہمارے لیئے اچھی بات تھی لیکن راستے میں آنے والے نالوں کا پاٹ اتنا چوڑا تھا کہ ہمیں کراس کرنے کے لیئے کچھ آگے جانا پڑتا اور تنگ پاٹ سے چھلانگ لگانی پڑتی۔ ان نالوں کے پانی کی شدت تو آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ سارا گلیشیئر کا پانی تھا۔
ایسی جگہوں پہ آ کر ہم خدا سے اور قریب ہو جاتے ہیں شاید اس لیئے کہ شہروں کی تیز رفتار اور چکاچوند زندگی ہمیں قدرت کی باریکیوں اور عجائب کی طرف غور کرنے کا موقع کم کم ہی دیتی ہے۔ اس لیئے میں اکثر کوشش کرتا ہوں کہ ٹریکنگ کے دوران موسیقی کم سنوں اور ذکر اللہ زیادہ سے زیادہ ہو۔ سو یہاں بھی میری زبان ذکر اور اپنوں کے لیئے دعاؤں سے رواں تھی۔
اب تک راکاپوشی ہمارے ساتھ ساتھ تھا لیکن جیسے جیسے راستہ طے ہوتا گیا ہم مناپن گلیشیئر کے ہم سفر بن گئے اور دیران کی چوٹی ہمیں دکھائی دینے لگی۔
جبکہ ہماری ایک جانب ہنزہ کے پہاڑ تھے جو سورج کی روشنی سے چمک رہے تھے۔
تین گھنٹے بعد بھی یہ ٹریک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور اب برف دیکھ دیکھ کہ ایک کوفت سی ہونے لگ گئی تھی۔ اتنے میں دھڑام کی آواز آئی
دیکھا تو مہدی پھسل کہ گرا تھا اور اس کے ہاتھ سے کُکر چھوٹ کر ایک بڑے نالے میں جا گرا۔
اس سے پہلے کہ ہمارا اکلوتا پکانے کا برتن بہہ کے دور نکل جاتا اور ہم دیران جا کر ہاتھ ملتے رہ جاتے نعیم نے دوڑ لگائی اور کچھ نیچے جا کے اسے پکڑ لیا۔
الحمد لِلہ پڑھ کہ ہم اور احتیاط سے چلنے لگے۔
لیکن کچھ دیر بعد بارش شروع ہو گئی۔
اب مجھے پریشانی ہوئی کہ آگے کا راستہ آسانی سے نہیں کٹنے والا۔ جیکٹ کے نیچے ہاف سلیو شرٹ کی وجہ سے ٹھنڈ بھی لگ رہی تھی سو میرے ذکر اور دعاؤں میں شدت آ گئی۔ شاید اتنی پڑھائی تو میں نے پچھلے دو تین مہینوں میں نہیں کی ہو گی۔ کرم خُدا کا کہ بیس منٹ تک ہونے والی ہلکی بارش یک دم رک گئی اور ہم سب کے قدم تیز ہو گئے تاکہ یہ برف زار جلد از جلد پار کر سکیں۔ اس ٹریک پہ جس چیز کی اہمیت کا سب سے زیادہ اندازہ ہوا وہ پانی تھا۔ حلق میں کانٹے پڑنے پر جب دو گھونٹ ٹھنڈا پانی اندر جاتا تو جس میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی۔ سچ کہا کسی نے وہ بے رنگ مائع جو زمین پر صرف آب ہوتا ہے، پہاڑوں پر آب حیات ہوتا ہے۔
دی لاسٹ سٹریٹ
برف زار سے ایک جانب مڑ کر پتھریلا ٹریک شروع ہو گیا جس سے آگے برف کی کریوز (گلیشیئر میں پڑی برف کی دراڑیں جو اکثر بہت گہری ہوتی ہیں) ہمارے انتظار میں تھیں۔
کریوز کے بارے میں کافی پڑھ اور سن رکھا تھا سو اس خطرناک جگہ کو تکنیکی طور پہ پار کرنا تھا۔ اکثر کریوز لگتی چھوٹی ہی لیکن پورا پورا بندہ نگل لیتی ہیں۔ دوسرا ان کے کنارے اکثر پھسلن والے ہوتے ہیں اس لیئے خود کا سنبھالنا پڑتا ہے۔ کچھ کریوز خود پار کیں کچھ میں پورٹرز نے ہماری مدد کی اور یوں ہم یہ حصہ بھی پار کر گئے۔
سلمان نے بتایا کہ اب صرف دو چڑھائیاں ہیں اور پھر بیس کیمپ آپ کا۔
سلمان چونکہ میدانی علاقے کا بندہ ہے سو مجھے یقین آگیا کہ واقعی اب دو چڑھائیاں ہوں گی۔
لیکن۔۔۔۔۔
غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
ایک کہ بعد دوسری چڑھائی سے جب سانس پھول گیا تو کچھ دیر دم لینے کو رکے۔ سلمان سے میں نے پھر پوچھا کہ مجھے بتاؤ واقعی میں کتنا رہ گیا ہے۔۔۔؟؟
لیکن سلمان نے پکے پٹھانوں (جو اکثر آپ کو دو تین گھنٹے کے ٹریک کو آدھا گھنٹہ کہہ کر بہکاتے ہیں) کی طرح مجھے کہا کہ بس عظیم بھائی کچھ ہی آگے ہے، ایک دو چڑھائیاں اور جو پندرہ منٹ کی ہیں۔
لیکن یہ پندرہ منٹ جب آدھا گھنٹہ بن گئے تو میں نے بھی صبر کر لیا۔
چھ سات چڑھائیاں چڑھنے اترنے کے بعد ایک دلدل کو پار کیا تو سامنے ہماری آخری چڑھائی تھی جس کے بعد سلمان کے بقول ہماری منزل تھی۔ ہمارے دونوں پورٹر مہدی اور نعیم کب کے آگے جا چکے تھے اور یہ پہاڑ اتنا زیادہ ڈھلوانی سطح کا تھا کہ سلمان نے پکڑ کہ وجہیہ کو پار کروایا اور مجھے بھی کہیں کہیں اس کی مدد لینی پڑی۔
وجہیہ اتر گیا تھا، میں جب اوپر چڑھ گیا تو کچھ دور بیس کیمپ میں لگا ہوا گلابی خیمہ مجھے نظر آیا۔
یہاں میں نے سلمان کو آگے جانے کا کہا اور خود اس پہاڑ کے اوپر بیٹھ گیا۔ آسمان کو دیکھا اور اوپر بیٹھے تخت نشین کو کچھ آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا۔ وہ مجھے بارش، گلیشیئر، بڑے پتھروں، برفانی درزوں، دلدل اور ڈھلوانوں سے بچا کر صحیح سلامت یہاں تک لے آیا تھا۔
کچھ دیر بعد میں نیچے اترا اور بیس کیمپ جہاں گھاس کا قالین بچھا تھا وہاں جوتے اتار کہ چلنے لگ گیا۔
دیران بیس کیمپ ؛
خیمے کے قریب پہنچ کہ میں میٹ پہ ڈھے گیا اور دیران کو دیکھنے لگا۔
راکاپوشی کے مشرق میں واقع دیران کی چوٹی 7،266 میٹر اونچی ہے جو قراقرم کے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے۔ اہرام کی شکل کی یہ چوٹی نگر اور وادئ بگروٹ میں واقع ہے۔
یہ دنیا کی سات ہزار دو سو میٹر سے بلند 108 چوٹیوں میں 93 نمبر پر ہے جسے سب سے پہلے 1968 میں سر کیا گیا تھا۔
نعیم کے مطابق اسے سر کرنا بہت مشکل ہے کہ برف سے ڈھکے ہونے کی وجہ سے یہاں اکثر برفشار آتے رہتے ہیں۔ برطانوی، جرمن اور اطالوی ٹیموں کی ناکامی کے بعد اسے ایک آسٹرین ٹیم نے سر کیا تھا جس میں
Rainer Goeschl, Rudolph Pischinger اور Hanns Schell.
شامل تھے۔
یہاں خیمے لگانے کے بعد نعیم اور مہدی نے فٹافٹ سلنڈر پہ نوڈلز بنا کہ ہمیں پیش کیئے اور کھانے کے لیئے لکڑیاں ڈھونڈنے چلے گئے جبکہ میں قدرت کے عجائبات کی تصویر کشی میں مشغول ہو گیا۔
دیران بیس کیمپ اصل میں دیران چوٹی کے دامن میں ایک خوبصورت سرسبز میدان ہے جس کے ایک طرف دیران، ایک جانب سرسبز پہاڑ اور ایک سائیڈ پہ گلیشیئر کی دیوار واقع ہے۔
رنگا رنگ پھولوں سے مہکتی اس جگہ پہ دریا نما ایک بڑا نالہ بھی بہہ رہا ہے جو ہماری پانی کی ضروریات پوری کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔ ہمارے گلابی خیمے کے عقب میں بادلوں سے سورج کی آنکھ مچولی دیکھتے اور خدا کی قدرت کو سراہتے سراہتے وقت کیسے گزرا معلوم نہیں، شام سے پہلے دسترخوان پہ کھانا چن دیا گیا اور میں ”چکن پلاؤ” سامنے دیکھ کہ جذباتی ہو گیا۔
یہ سب ہمارے پورٹرز کی محنت تھی کہ آبادی سے دور دراز کے اس ویرانے میں ہمیں کھانے پینے کے حوالے سے کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ مزیدار سا چکن پلاؤ جی بھر کہ کھایا اور میں نے ”کبرو” سے بھی شیئر کیا جو اب اکثر میرے آگے پیچھے منڈلا رہا تھا۔
کھانے سے فراغت پا کر ہم نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر رات کو ایک بار دیران کے دامن میں محفل جمائی۔ رات کو اس چوٹی کا نظارہ ہی کچھ اور تھا۔ آسمان پہ بادل تھے لیکن میں نے انہیں لفٹ نہ کروائی۔
رات کو شاید ہم گیارہ بجے خیمے میں سونے چلے گئے کہ کل کچیلی جھیل سے ہو کہ واپس راکاپوشی بیس کیمپ جانا تھا۔
لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔۔۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں