مملکت خداداد پاکستان میں اتنا کچھ گھٹیا ہے اور اتنی گہرائی تک سرایت پذیر ہو چکا ہے اور قبول بھی کر لیا گیا ہے کہ ہمیں اپنے گھٹیا پن کو دیکھنے کے لیے دوسروں کی مدد لینا پڑتی ہے۔
مثلاً تقریباً ہر مرد بتائے گا کہ معاشرے کے اخلاق کتنے گھٹیا ہو گئے ہیں، کیسے لوگ نوبالغ لڑکیوں کو بیرونِ ملک بلانے میں مدد دینے کا ’جھانسہ‘ دے کر ورغلاتے ہیں۔ یا اور کچھ نہیں تو کیسے اپنے ’اگلے‘ دورۂ پاکستان کے دوران کوئی قیمتی تحائف دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ کیا بیشتر لوگ کم و بیش ہر سطح پر ایسا نہیں کر رہے ہوتے؟ کیا یہ اُن کا ایڈونچر نہیں ہے؟ بالخصوص اپنے مردانگی کے گھونسلوں میں انڈے پڑے پڑے خراب ہو جانے پر!
لیکن اس سب کا پتا تب چلتا ہے جب ’کوئی دوسرا‘ اس کی نشان دہی کرتا ہے۔ پوچا لگاتی ہوئی نوکرانی کے گریبان میں جھانکنا کس کا مشغلہ نہیں؟ کوئی لڑکی ان باکس میں آ جائے تو اُس سے ’اندر‘ کی باتیں پوچھنے کی خواہش کو کس نے unlearn کیا ہے؟
جو لڑکی یہ باتیں طشت از بام کرے گی، وہ نہ صرف بہت سے مردوں بلکہ عورتوں یا لڑکیوں کی طرف سے بھی نشانہ بنے گی کیونکہ مرد سوچیں گے کہ اگلی باری ہماری نہ ہو، اور کئی لڑکیاں سوچیں گی کہ اِس چکر میں ہمارا شوگر ڈیڈی نہ ڈر جائے۔ سو شوروغوغا مچتا ہے اور مومنات سہم جاتی ہیں۔
سہم اس لیے جاتی ہیں کہ اُن کے پاس اپنی بات ثابت کرنے کا کوئی فورم نہیں۔ ساتھ دینے والے بھی تماشا باز ہیں۔ ویسے بھی آج تک بے نظیر سے لے کر عائلہ ملک وغیرہ تک کون اپنے اوپر کیچڑ اچھالا جانا ثابت کر کے تہمت لگانے والے کو کٹہرے میں بھی لا پائی ہے؟
وکیل تو کیس کریں گے اور لڑیں گے۔ وہ کبھی نہیں ہارتے، ہارتا تو کلائنٹ ہے۔وہ ہار جائیں تب بھی مال بنے گا، جیت جائیں تب بھی مال بنے گا، سمجھوتہ کر کے بیٹھ جائیں تب بھی فائدہ۔ وکیل قانون کے محبوب ہیں۔
لیکن اس سب میں ہم سب کے لیے بہت سبق ہے۔ بالخصوص اُن کے لیے جو چالیس پینتالیس سال یعنی جوانی کی عمر کو پھلانگ چکے ہیں۔ یقیناً اُن کا حق ہے کہ الٹے سیدھے انڈونچر کر کے اپنے اندر زندگی کی باقیات کو محسوس کرتے رہیں۔ لیکن کبھی تو کہیں تو رکنا ہی ہے؟ یا عمر بھر حرامی ہی رہنا ہے؟ اِن کی شب سست موج گہرے پانیوں میں ہی ڈوبتی رہیں گی؟ اِنھیں کنارہ ڈھونڈنا نہیں آئے گا کیا؟

میں تہذیب کی کہانی کے سوا آج کل کچھ بھی پوسٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن مردانگی کے بہت سے پول کھولنا پڑیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں