جیمز شیرا،پردیسی حب الوطن/تحریر؛تحقیق وتدوین : اعظم معراج

سرورق : سرفراز ثاقب
قانونی مشیر : رضی احسن ایڈوکیٹ(ہائی کورٹ)
اشاعت اول : اگست 2023 ء
ناشر : معراج پبلی کیشنز
قیمت : سافٹ کاپی مفت

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ

اس کتاب کا کوئی بھی حصہ معراج پبلی کیشنز /مصنف سے باقاعدہ تحریری اجازت کے بغیر کہیں بھی شائع نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اس قسم کی کوئی بھی صورتحال ظہور پذیر ہوتی ہے تو قانونی کارروائی کا حق محفوظ ہے۔

Mairaj Publications
20-C Sunset Commercial Street,2 Phase IV D.H.A Karachi .
Ph : +92-21-35888981-2
Email: mairajpublications@hotmail.com

فہرست

مقصد کتاب
اظہار تشکر
سنہری ققنس
جیمز شیرا ……پردیسی حب الوطن
رگبی کا لارڈ میئر جیمز شیرا
جیمز شیراکے بارے میں شعیب سڈل کی تقریر سے اقتباس
ڈاکٹر جیمز شیرا کانمائندہ ہلال عباس حیدر کو دیئے گئے انگریزی انٹرویو کا ترجمہ
تمام عقائدمیں دوستی منتشر دنیا کے لیے امید ہے…… تحریر :اسکارلٹ اسٹیونز
قوم کے اصل ہیرو ……( ڈاکٹرجیمز شیرا کے فکر انگیز خیالات)
نغمہ شناخت

انتساب

جون بوسکو ،سرفرازثاقب اورصابر علی کے نام، ان تین اشخاص کے تعاون کے بغیرتاریخ کے جبر و امتیازی سماجی رویوں کی بدولت ،معاشرتی بیگانگی کے مرض میں مبتلا مسیحی نوجوانوں کے لئے روشنی کی اس مینار شخصیت کا خاکہ کبھی مکمل نہ ہوتا۔

اس کے علاوہ یہ انتساب انعام رانا،اسماء مغل اور مکالمہ ویب سائٹ کی پوری ٹیم کے نام بھی ہےجن کی بدولت تحریکِ شناخت کا کام ڈیجیٹلی محفوظ بھی ہورہا ہے،اور دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔

مقصد کتاب
شناخت نامہ ( مجموعہ کتب)تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی پندرہ کتب کا مجموعہ زیر ترتیب ہے۔یہ ہزار سے بھی زیادہ صفحات پر مبنی کتاب ہوگی۔اس لئے اس میں دیر بھی لگ رہی ہے۔
تحریک شناخت معاشرتی آگاہی اور اجتماعی خود شناسی کی ایک فکری تحریک ہے۔ جس کا نہ کوئی انتخابی، سیاسی، مذہبی ایجنڈا ہے اور نہ ہی یہ کوئی این جی او ہے اس فکری تحریک کا کوئی انتظامی ڈھانچہ بھی نہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے اس کے رضا کار اس فکر کو اپنی سماجی، معاشرتی و معاشی حیثیت کے مطابق پھیلانے میں اس یقین سے حصہ لیتے ہیں کہ یہ فکری تحریک پاکستان کے بالعموم پسے طبقات اور بالخصوص مسیحیو ں کے لئے پاکستانی معاشرے میں بالترتیب‘‘فکری، شعوری،تعلیمی،معاشی،سماجی، معاشرتی،علمی ،تہذیبی،مذہیی اور سیاسی ترقی کی راہیں ہموار کرے گی۔’’
اس تحریک کی بنیاد اس خیال /مفروضے پر ہے۔ کہ ‘‘کسی بھی ملک قوم ومعاشرے میں کوئی ایسی کمیونٹی/اقلیت جو کسی بھی اعتبار سے مثلاً مذہب ،رنگ ،نسل، مسلک، پیشے، جنس اور زبان کے لحاظ سے اقلیت میں ہواور اس وجہ سے اس گروہ کو امیتازی سماجی رویوں یا دیگر ایسے تعصبات کا سامنا ہو۔ایسا گروہ اگر ردعمل میں معاشرے سے بیگانہ ہو کر معاشرے سے کٹ جائے۔تو ایسے انسانی گروہ اپنے آپ پر ایسے معاشروں میں انفرادی واجتماعی ہر طرح کی ترقی کے ہزاروں راستے خود ہی بند کرلیتے ہیں۔جسکا نتیجہ صدمے سے دائمی فرار کی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہونے کا نکلتا ہے اور اگر فرار کی راہیں بھی دستیاب نہ ہوں تو معاشرتی بیگانگی کا یہ مرض انہیں گہری پستیوں میں لے جاتا ہے۔لہٰذا کسی بھی معاشرے میں اپنی ایسی شناخت جس کی بنیاد پر ان سے تعصب برتا جارہا ہو۔اسے فخر سے قائم ودائم رکھتے ہوئے معاشرے میں انضمام integration سے اپنی عزت دارانہ بقاء کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔’’اس مفروضے(hypothesis) کے دفاع کے لئے تحریک شناخت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس فکری تحریک کے اغراض و مقاصد کے حصول کیلئے درس خود شناسی و خود انحصاری کے ساتھ پاکستانی مسیحیوں کو یہ منترہ بھی رٹایا جارہا ہے کہ آپ اس دھرتی کے بچے ہو آزادی ہند،قیام ،تعمیر دفاع پاکستان میں تمہارے اجداد اور موجودہ نسلوں کا شاندار کردار ہے۔اپنی اس شاندار شناخت کو مدنظر رکھتے ہوئے معروضی حالات میں پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دستیاب موقعوں ، اپنی کمزوریوں اور توانائیوں کا اعدادوشمار سے تجزیہ طکمخ (swot analysis) کرو اور اپنے اجداد کی اس سر زمین پر فخر سے جیو۔گو کہ حالاتِ اور واقعات امتحان لیتے ہیں لیکن ان سے مایوس ہوکر اپنی اس وراثت کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ اس مقصدِ کے لئے تاریخ کے اوراق کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی مسیحیوں کے ایسے گوہر نایاب بھی ڈھونڈے جاتے ہیں۔ جو معاشرتی رویوں کے جبر یا اپنی زندگیوں میں آسانی کے لئے ہجرتوں کے عذاب سے گزر کر دیار غیر سدھار گئے۔ لیکن دھرتی سے ناطہ نہ توڑ سکے۔ان میں سے ایسے خؤش نصیب کم ہی ہیں جن کی خدمات کو حکومت پاکستان و ریاست پاکستان مانا بھی اور سراہا بھی ایسی شخصیات کا خاکہ ہو یا مختصر سوانح حیات وہ یقیناً معاشرتی بیگانگی کی مرض کا ایک پراثر علاج ہے۔جمیز شیرا صاحب کے اس سوانحی خاکے کو‘‘ شناخت نامہ’’( مجموعہ کتب) کے چھپنے سے پہلے اس میں سے نکال کر ڈیجیٹل شکل میں مفت پبلک کرنے کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ فرض کریں اگر‘‘ شناخت نامہ’’ ( مجموعہ کتب) کے شائع ہونے میں سال ،چھ مہینے مزید لگ جاتے ہیں، تو ایسے سوانحی خاکے ان نوجوانوں کے فوری کام آسکیں جو تاریخ کے جبر امیتازی سماجی ،معاشرتی رویوں یا انکی ذیلی پیداوار امتیازی قوانینِ کی بدولت ردعمل میں معاشرتی مرض میں مبتلاء ہیں اور وہ اگر اپنی عمر کے اس حصے میں ایسی کسی شخصیت سے متاثر ہو کر اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لاکر معروضی سماجی حالات کے اندر رہتے ہوئے اپنی زندگی میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ خاکہ دو سال پہلے تیار کر لیا گیا تھا۔لیکن کیونکہ ایسے ہی بے شمار خاکے درکار تھے لہٰذا پھر باقی سب کتب کو بھی یکجا کرنا ودیگر مراحل میں مزید دیر کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ ایسی معلومات کو جتنی جلدی ہو سکے عام کرنا چاہیے تاکہ جتنے زیادہ لوگ اس سے عمر کے اس حصے میں مستفید ہو سکیں جب ایسی معلومات کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً فرض کریں ایسی روشن مثال کسی طالب علم کو جس نے میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑنے کا ارادہ کیا ہو اسے آگے بڑھنے کی ترغیب دے سکے۔بصورت دیگر شخصیات میں معاشرتی بیگانگی کے باعث سے پھوٹنے والے دیگر امراض کے اثرات شخصیات پر اتنے گہرے ہوجاتے ہیں۔ جو پھر ساری عمر نہیں جاتے۔ جمیز شیرا صاحب ایک بین الاقوامی سطح کی شخصیت ہیں برطانیہ جانے والی ہماری اشرفیہ اور خصوصاً برطانیہ میں ہمارے ہر نئے آنے والے سفارت کار اور مسیحو کے برطانیہ میں مقیم سماجی وسیاسی کارکن سب انھیں پہچانتے ہیں۔لیکن عجیب اتفاق ہے کہ میں نے جب بھی کسی عام پڑھے لکھے نوجوان سے بھی پوچھا آپ جیمز شیرا صاحب کو جانتے ہیں تو اکثریت کا جواب نہ میں ہوتا ہے۔اسی طرح خاصے پڑھے لکھے صاحب علم صاحب رائے مسلمان پاکستانی بھی انھیں نہیں جانتے۔ لہٰذا جب یہ کتاب مفت پی ڈی ایف فارم میں واٹس ایپ گروپوں میں تحریک کے بے لوث رضا کاروں کے ذریعے اور تحریک شناخت کے بغیر کسی معاہدے اور سرمایہء کاری کے اپنی ویب سائٹ مکالمہ پر چھپے گی تو تحریک کے بنیادی مقصد مسیحی نوجوانوں کی معاشرتی بیگانگی کے مرض کے علاج کے ساتھ معاشرتی ہم آہنگی کا بھی بڑا ذریعہ بنے گی۔سرقہ ماہرین سے گزارش ہے۔کہ یہ دہائیوں کی تحقیق سے کسی خاص مقصد سے تیار کیا گیا دستاویزی کتابی سلسلہ ہے۔ اس لئے آپ جب بھی ان معلومات پر ہاتھ صاف کریں آپ کو اجازتِ ہے۔لیکن ان کتب کا حوالہ ضرور دیں تاکہ جس طرح یہ معلومات آپ کے انفرادی مفاد کے لئے کام آئیں گی۔حوالہ دینے سے اس با مقصد جدو جہد سے نوجوانوں کے لئے مذید تحقیق کے دروازے کھلیں گے۔جس سے ایسی مزید معلومات اور اس تحریک کے اغراض و مقاصد نوجوانوں پر واضح ہونے سے مسیحی نوجوانوں یا دیگر پسے ہوئے طبقات کے نوجوانوں کے لئے اجتماعی طور فکری ،شعوری، تعلیمی معاشی ،سماجی ،معاشرتی ،علمی، تہذیبی ، مذہبی اور سیاسی ترقی کی راہیں ہموار ہو سکیں گی ۔
اعظم معراج
کراچی 24جولائی 2023

اظہار تشکر
اس خاکے کی تیاری کے لئے سب سے پہلے تحریک شناخت برطانیہ کے رضا کار  جون بوسکو کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے جیمز شیرا سے متعارف کروایا اور تحریک کے مقصد کو ان کے سامنے کچھ اتنا بڑا بنا کر پیش کیا کہ جب میں نے آج سے 3سال پہلے جیمز شیرا صاحب کے گھنٹوں پر محیط ٹیلیفونک انٹرویو شروع کئے توجیمز شیرا صاحب  نا صرف خوشی خوشی یہ انٹرویو دیتے بلکہ اس بات کا برملہ اظہارِ بھی کرتے کہ آپ لوگ کمال بڑے مقصد کے لئے اتنی محنت کر رہے ہو۔ جسکی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ہے۔جسکا ثبوت تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد اور تحریک کے دوہرے ووٹ کی آگاہی مہم کو انکا سراہنا ہے۔اس کتابچے میں اس آڈیو پیغام کو تحریری شکل میں شامل کرنے کے علاؤہ دوہرے ووٹ کے لئے انکے حکمرانوں کو لکھے گئے خط کا انگریزی متن بھی شامل کیا جارہاہے۔اس سے انکی یہ کوششیں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے معاملات میں دلچسپی کا ایک اور ثبوت ہے اس کے بعد صابر صاحب جنہوں نے کمال محنت سے کئی انگریزی مضامین کو نہ صرفِ اردو ترجمہ کیا بلکہ کئی ٹی وی انٹرویوز کو بھی سن کر لکھا۔سب سے بڑھ کر سرفراز ثاقب جن کی تکنیکی سپورٹ اگر حاصل نہ ہوتی تو تحریک شناخت کے اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے پہلی دو کتب چھوڑ کر شائد کئی کتب لکھی ہی نہ جاسکتی اور یہ جو سوشل میڈیا پر تحریک کے اغراض و مقاصد بیان کرتے پمفلٹس،کتب / تحریک کا مقصد بیان کرتا تشہیری مواد کبھی بھی اتنی جلدی اور وافر مقدار میں دستیاب نہ ہوتا۔ ان تینوں کے علاؤہ میں تحریک کے ان تمام رضا کاروں کا بھی شکر گزار ہوں جو نہ صرفِ پاکستان بھر میں بلکہ دنیا کہ کونے کونے میں جہاں بھی کوئی پاکستانی مسیحی آباد ہے وہاں وہاں تحریک کا فلسفہ خود آگاہی اپنی اپنی معاشی سماجی و معاشرتی حیثیت سے اس یقین سے پھیلاتے ہیں کہ یہ فکری تحریک پاکستان کے معروضی حالات میں پاکستان کے مسیحی نوجوانوں کے لئے فکری ،شعوری، تعلیمی معاشی ،سماجی ،معاشرتی ،علمی، تہذیبی ، مذہبی اور سیاسی ترقی کی راہیں ہموار کرے  گی ۔
اعظم معراج کراچی

سنہری قُقنس
اعظم معراج
(حمزہ توف اور امرتا پریتم کی نظموں سے ماخوذ)
اے وطنِ عزیز کے محروم و بے شناخت بیٹو!
اپنے سماج سے بیگانو!
دھرتی سے اپنی نسبت سے لاعلم دھرتی واسیو!
اس ارضِ پاک کو بنانے
سنوارنے ۔۔۔ سجانے
اور بچانے میں اپنے اجداد کے کردار سے بے بہرہ معصومو!
اپنے آباء کی سرزمین پر اجنبیوں کی طرح رہتے اور
نفرت انگیز سماجی رویوں کے وار سہتے
اپنے روشنی کے میناروں کو
اپنی محرومیوں کے اندھیروں میں ۔۔۔ گُم کرتے خاک نشینو!
خود رحمی، احساس کمتری و برتری کی
چکی کے پاٹوں میں پسے ہوئے راندہ درگاہ
ہم وطنو!
ہزاروں لوگ
تمہاری ان محرومیوں کا نوحہ کہتے۔۔۔ اور سینہ کوبی کرتے ہیں
تمہاری ان کمزوریوں اور پستیوں کو بیچتے ہیں
بے شک اس ظلمتِ شب میں
اُمید کے دیے جلانے والے
تمہیں دھرتی سے نسبت بتانے والے
اور یہ منترہ
تمہیں رٹانے والے
کہ تم بھی وارث ہو اس سرزمیں کے
اور اس ارضِ پاک کو
اپنے خون پسینے سے سینچنے والے وطن کے معماروں
اور روشنی کے میناروں سے
تمہارا ناطہ جوڑنے والے
شہدائے وطن کے پاک لہو کے رنگ سے
تمہاری بے رنگ روحوں میں
رنگ بھرتے مرد قلندر
بہت سے صبحِ نو کی نوید سنانے والے ہوں گے
یاد رکھنا
ان بہت سوں میں سے ایک میں بھی ہوں
لیکن اگر
کبھی لمبی اندھیری رات کے سیاہ گُھپ
اندھیروں سے گھبرا کر یہ دیوانے
صرف چند بھی رہ گئے تو
ان چند میں ایک میں بھی ضرور ہوں گا
پھر اگر
اُمید سحر میں ان میں سے صرف ایک بچا
تو وہ
یقینا ً میں ہی ہوں گا
لیکن اگر
گھنے پیڑوں کے جُھنڈ میں سے
سورج کوچُھوتے درختوں پر
اُمیدِ حیاتِ نو میں نغمۂ مرگ گاتے ہوئے
قُقنسوں کے مہک دار شاخوں سے بنے گھونسلوں میں سے
سنہری ٹھنڈی ہوتی ہوئی آگ میں سے
کئی نوجوان
سورج کی طرح چمکتے
قرمزی سنہرے قُقنس
اپنی ہزاروں سال کی پستیوں، ذلتوں اور
محرومیوں کے بھاری بوجھ
اپنے توانا سنہری پروں سے جھٹکتے ہوئے
چونچوں میں
اپنی قابلِ فخر شناخت کے علم دبائے
اُمیدوں کی روشن شمعیں دلوں میں جلائے
عزم و حوصلے اور اُمنگیں
جن کے سینوں میں موجزن ہوں
جن کی نظر
روشنی کے میناروں سے اُٹھتی ہوئی
دُور آسمانوں پر ہو
اور
وہ دن کے اجالوں میں
سورج کی طرف
لمبی اڑانیں بھریں
تو سمجھ لینا
جن مہک دار گھونسلوں سے
جواں قُقنس اڑتے ہیں
ان گھونسلوں میں
میرے بدن کی راکھ تھی
اعظم معراج
‘‘شناخت نامہThe Identity ’’ سے اقتباس

ڈاکٹر جیمز شیرا……پردیسی حب الوطن
گوجرانوالہ سے تین میل دور لواہیانوالہ نام کا ایک گاؤں ہے اس گاؤں میں تقریبا سو گھرانے مسیحیوں کے بھی آباد ہیں زیادہ تر مسیحیوں کا پیشہ کھیتی ،مزدوری یا حصے ٹھیکے پر کاشت کاری تھا۔ ان مسیحی گھرانوں میں سے ایک گھرانہ مہنگا بھٹی مسیحی کا تھا یہ کسان بھی مسلمان زمینداروں سے حصے ٹھیکے پر زمین لے کر کاشت کرتا اس کی بیوی کا نام برکت بی بی تھا۔ اس کا ایک بیٹا مورس بھٹی تھا جو بچپن سے ہی اس کے ساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹاتا۔ 6مارچ 1946ء خدا نے اسے ایک اور بیٹے سے نوازا۔ یہ بچہ جب اسکول جانے کی عمر تک پہنچا تو اسے گاؤں کے مدرسہ پرائمری اسکول میں داخل کر دیا گیا۔ بچے کو پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ اس لئے بچے نے کامیابی سے پرائمری کا امتحان پاس کیا تو والد نے بچے کی تعلیم کے لئے لگن اور خداداد صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اسے گاؤں سے تین میل دور گوجرانوالہ میں اقبال ہائی اسکول داخل کروا دیا۔ جبکہ اس دور میں کھیت مزدوری اور حصے ٹھیکے پر کاشت کاری کرنے والے یا چھوٹے زرعی اراضی کے مالکان کسانوں کے بچے عموماً پرائمری میں ہی اسکول چھوڑ کر ماں باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد گار بن جاتے یا چرواہے بن جاتے۔ یہ بچہ روز صبح اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تین میل پیدل سفر کرکے گوجرانوالہ اسکول پہنچتا اس طرح اس نے لگن سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ اس وقت پنجاب میں وہ ہی بچے اپنا یا تعلیمی سفر جاری رکھ پاتے ہیں جو مکمل توجہ دیں ورنہ فیل ہونے کا مطلب کھیتی مزدوری یا بڑے زمینداروں کے ڈھور ڈنگر چرانا، پڑھائی میں کمزور بچے اساتذہ کے مارپیٹ جسے تشدد کہنا زیادہ درست ہے رویوں سے تنگ آ کر کچھ دن ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ مارپیٹ سننے کے بعد کھیتی مزدوری کو ترجیح دیتے۔ اس بچے نے کامیابی سے مڈل یعنی آٹھویں درجے تک تعلیم مکمل کی۔ باپ نے بچے کی تعلیم سے متاثرہ ہو کر اس بیٹے کے بعد پیدا ہونے والی اپنی بیٹی بلقیس بی بی کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دینی شروع کی۔ اب یہ بچہ گاؤں کے ماحول کے مطابقجوان ہو چکا تھا۔مڈل اسکول کے درمیان میں ہی مہنگا بھٹی نے بچے کو سائیکل لے دی اور اسے اپنے خاندان کی آمدنی میں بھی ہاتھ بٹاتا تھا۔ لہٰذا یہ نوجوان لڑکا صبح اُٹھتا اپنی بھینسوں کا دودھ دُوتا سائیکل پر لادتا اپنا اسکول یونی فارم اپنے ساتھ رکھتا گوجرانوالہ شہر میں حلوائیوں اور دودھ دہی کی دکان والوں کو دودھ دیتا اس کے بعد کپڑے تبدیل کرتا اور اسکول پہنچ جاتا پھراسکول سے چھٹی کے بعد گھر پہنچتا، پڑھنا، لکھنا ماں باپ کا کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹانا اسی ڈگر پر چلتے نوجوان نے میٹرک کر لیا اور پھر اسلامیہ کالج گوجرانوالہ سے گریجویشن کر لیا اور ایف سی کالج لاہور میں ایم اے پولیٹیکل سائنس میں داخلہ لے لیا۔ دودھ کا کاروبار بھی چلتا رہا جب کام ذرا بڑھا تو اس نوجوان نے ایک ملازم بھی رکھ لیا۔ لاہور جانے کے لئے شب وروز و تبدیل ہوئے اور یہ نوجوان سائیکل پر گاؤں سے گوجرانوالہ دودھ پہنچاتا۔ اسٹیشن پہنچتا باؤ ٹرین جو کہ پاکستان ریلوے کے لاہور کے نزدیک شہروں سے لاہور کے دفاتر میں کام کرنے والوں کے لئے چلائی تھی اس میں بیٹھتا لاہور اسٹیشن پر اُترتا۔ بس یا رکشے میں ایف سی کالج پہنچتا شام کو اسی روٹ سے واپس گھر پہنچتا۔
یہ نوجوان اپنی تعلیم خاندانی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے علاقے میں کاتھولک چرچ کو بھی وقت دیتا اس طرح وہ اپنے علاقے اور خصوصاً بلجیم سے آئے ہوئے فادر صاحبان کی خصوصی توجہ شفقت کا بھی سبب بنتا۔ لہٰذا فادر صاحبان خصوصاً فڈن ٹین Fidentian کی کوشش تھی کہ یہ نوجوان یورپ کی بڑی یونیورسٹیوں میں سے کسی میں سے پی ایچ ڈی کرے۔ ماسٹر ڈگری مکمل کرنے کے بعد اس نوجوان کی شادی 20دسمبر 1969 کو گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی محترمہ نور جہاں پادری بی ایم بخش کی صاحب زادی سے ہوئی۔ آخر فادر فڈن ٹین کی کوشش رنگ لائی اور کاتھولک بلجیم یوفی ولورین یونیورسٹی نے انٹرنیشنل ریلیشن میں پی ایچ ڈی کے لئے اسکالر شپ بھجوا دیا۔ یہاں اس کہانی کا خوبصورت اختتام ہو جانا چاہیے تھا لیکن لگن، عزم حوصلے جدوجہد کی اصل کہانی شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے۔ بلجیم ایمبیسی سے ویزہ کی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد روانگی کے لئے جب یہ نوجوان ٹکٹ لینے کے لئے پی آئی اے کا دفتر پہنچا تو ائن لائن کے افسران نے کہا کہ ٹکٹ تب تک نہیں مل سکتی جب تک آپ اسٹیٹ بینک سے کلیرنس نہیں لے کر آتے یہ نوجوان اسٹیٹ بینک گیا تو وہاں کے بابو لوگوں نے کہا یہ کلیرنس تب تک نہیں مل سکتی جب تک وزارت تعلیم سے نو آبجکیشن سر ٹیفکیٹ نہیں ملتا۔ کہ وزارت تعلیم کو اس اسکالر شپ پر کوئی اعتراض نہیں بلجیم یونیورسٹی میں پڑھنے کے شوق سے سرشار یہ نوجوان بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچا اور منسٹری آف ایجوکیشن کے ایک ڈی جی جن کا تعلق مشرقی پاکستان موجودہ بنگلا دیش سے تھا نے فرمایا کہ اس اسکالر شپ کا ہمارے پاس تو کوئی ریکارڈ نہیں ہم کیسے نوآبجکیشن(کوئی اعتراض نہیں) کا سر ٹیفکیٹ دے سکتے ہیں ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم اپنے گرجے کے ذمہ داروں سے کہو کہ وہ پاکستان کے کچھ مسلمان نوجوانوں کے لئے اسکالر شپ کا بندوبست کریں پھر ہم تمہیں ان کے ساتھ ہی اسکالر شپ کے لئے نو آبجکشن سر ٹیفکیٹ (کوئی اعتراض نہیں کی سند) جاری کر دیں گے۔ اسلام آباد سے مایوس ہو کر یہ نوجوان واپس گاؤں پہنچا اور اپنے حلقے کے ایم این اے چوہدری جلیل سے ملا ایم این اے نے اپنے ایک رشتے دار جو ان دنوں اسلام آباد میں ہی کسی محکمے میں سیکشن آفسر تھے اس سے بات کی لیکن مسئلہ حل نہ ہوا آخر حل یہ نکالا گیا کہ ائر لائن کو چھوڑا جائے اور طورخم بارڈر سے بذریعہ بس افغانستان سے ہوتے ہوئے ایران، ترکی کے روٹ سے یورپ پہنچا جائے۔ اس سلسلے میں چوہدری جلیل نے مشہور سیاستدان سابقہ وزیر داخلہ عبدالقیوم خان سے بات کی انہوں نے کہا ٹھیک ہے نوجوان کو بھیج دو اس طرح یہ نوجوان اپنے بچپن کے دوست محمد رمضان کے ساتھ جو کہ اپنے دوست کو خدا حافظ کہنے کے لئے طورخم تک جانا چاہتا تھا۔یہ نوجوان عبدالقیوم سے ملے انہوں نے اپنے ایک رشتے دار جوپشاور میں کسٹم کلیکٹر تھے ان سے بات کی انہوں نے سرسری طورپر طورخم بارڈر پر تعینات امیگریشن والوں سے بات کی اور نوجوانوں کو طورخم بھجوا دیا۔ جب یہ نوجوان پشاور پہنچے تو رات ہو چکی تھی دونوں دوست چارپائی ہوٹل پر سوئے بقول اس نوجوان کے یہ پہلی رات تھی جو میں نے اپنے گاؤں، اپنے گھر سے باہر گزاری، صبح ہوئی یہ دوست طورخم میں کسٹم اہلکاروں تک پہنچے کسٹم اہل کاروں نے ویزے پر نہیں بلکہ پاسپورٹ کو ہی جعلی قرار دے دیا بھولے بھالے دیہاتی بجائے اس کے پاسپورٹ جعلی قرار دیے جانے کی وجوہات جانتے۔ واپس لاہور جانے کے لئے طورخم سے پشاور ایئرپورٹ بھاگے تاکہ بذریعہ ہوائی جہاز لاہور پہنچ کر پاسپورٹ کے اصلی ہونے کا ثبوت لا سکیں۔ ائرپورٹ سے پتہ چلا لاہور جانے والی فلائٹ اڑ چکی ہے لہٰذا یہ بس اڈے گئے اور فلائنگ کوچ پر رات گئے لاہور پہنچ کر بجائے پاسپورٹ آفس کے باہر فٹ پاتھ پر سو گئے۔ صبح ہوئی جب دفتر کے گیٹ کھلے تو انہوں نے اندر جانے کی کوشش کی تو محافظوں سے توں تکرار شروع ہوئی محافظ کہتے یار ابھی تو کوئی آیا بھی نہیں یہ توں تکرار جاری تھی تو ڈائریکٹر کی گاڑی داخل ہوئی ڈائریکٹر نے انہیں اندر بلایا اور مسئلہ پوچھا مسئلہ سن کر وہ مسکرائے اور بولے بھولے بادشاہو! پاسپورٹ کو جعلی کہہ کر وہ تم سے رشوت مانگ رہا تھا نیز اس نے پاسپورٹ کے ایک صفحے پر اپنے دستخط کئے اور کہا اب مسئلہ ہو تو اتنی دور آنے کی بجائے میری بات ان سے کروانا۔
اب یہ دونوں دوست پھر پشاور پہنچے اور محمد رمضان نے اپنے دوست کو خدا حافظ کہا اور نوجوان طورخم کے راستے افغانستان داخل ہو گیا۔ تھوڑا سا سامان دل میں اعلیٰ تعلیم کے لئے لگن جب یہ نوجوان کابل پہنچ کر دوسرے یورپ جانے والوں کے ساتھ بس کے انتظار میں کابل کے بس اسٹینڈ پر ایران جانے والی بس کے انتظار میں بیٹھا تھا تو یورپ سے آنے والی ایک بس اڈے میں داخل ہوئی جس میں یورپین سیاح سوار تھے اور ان کی اگلی منزل پاکستان تھی اور وہ پچھلے کئی دنوں کی خواری سے غیر ملکی کرنسی کی اہمیت کو بخوبی سمجھ چکا تھا وہ بس میں داخل ہوا اور اس نے سیاحوں کو مخاطب کرکے کہا کہ میں ایک پاکستانی طالب علم ہوں جو اسکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کے لئے بلجیم جا رہا ہوں میرے پاس پاکستانی روپے ہیں اور مجھے ڈالر درکار ہیں آپ کی اگلی منزل پاکستان ہے اور آپ کو وہاں پاکستانی روپے کی ضرورت پڑے گی لہٰذا آپ مجھ سے پاکستانی روپے لے کر مجھے ڈالر دے دیں یوں نوجوان کا مسئلہ جو حکومت پاکستان کے کئی ادارے مل کر نہ حل کر سکے ایک دو سیاحوں کی مدد سے حل ہو گیا۔ پیسے بدل کر نوجوان جب اپنے اڈے کے ساتھیوں تک پہنچا تو وہ پیچھے پڑ گئے ہمیں بھی زرمبادلہ دو۔ ورنہ ہم افغانی اہلکاروں سے شکایت کریں گے یوں آدھے ڈالر پھر پاکستانی روپوں میں بدل گئے۔ یوں اسی طرح کی کئی مشکلات کا سامنا کرتا رہا ۔ یہ نوجوان کابل سے ایرانی شہر مشہد سے تہران ہوتا ہوا آزربائجان کے راستے ترکی اور استنبول سے اورینٹ ایکسپریس کے ذریعے بلجیم اپنی منزل پر پہنچا ۔آفرین ہے خداوند یسوع مسیح کی تعلیمات کی روح کو سمجھنے والے خدا کے بندوں پر انہی میں سے ایک فادر لابیریس نے وہاں میزبانیکے لئے موجود تھے ۔ یونیورسٹی کی کاغذگی کارروائی مکمل ہوئی۔ سب سے پہلے تین مہینے کا زبان کا کورس کیا گیا۔ ساتھ ہی نوجوان نے تگ و دو کرکے اپنی بیوی کو بھی بلجیم بلا لیا۔
یونیورسٹی شروع ہو گئی فلیمش زبان سے نابلد اجنبی لوگ گھر سے دوری کا احساس اور بڑھا دیتی جیسے تیسے چھ مہینے گزرے پردیس میں پہلے کرسمس کی آمدنے نوجوان جوڑے کو وطن کی یاد کا احساس اور زیادہ دلا دیا۔ بیوی نے صلاح دی کہ گوجرانوالہ میں ہمارا ایک پڑوسی خاندان برطانیہ میں مقیم ہے ہم کرسمس کی چھٹیاں وہاں گزارتے ہیں اس طرح یہ نوجوان جوڑا بلجیم سے برطانیہ پہنچا۔
برطانیہ میں ماحول اپنا اپنا سا لگا محمد رشید کا گھر انہیں اپنے گھر کا احساس دلاتا۔ لوگ انگریزی بولتے سڑکوں پر بھی اکثر پاکستانی نظر آتے یہاں نوجوان کا دل لگنے لگا نوجوان نے کوشش شروع کر دی۔کہ میرا اسکالر شپ یہاں ٹرانسفر ہو جائے میزبانوں کے ایک دوست حسن اقبال چشتی سے ملاقات ہوئی یہ کووینٹری کاؤنٹی کا ایک خوشحال کاروباری انسان دوست شخص تھا اس نے نوجوان کی اے ای آئی کمپنی میں پہلی نوکری کا بندوبست کیا اقبال چشتی صاحب نے ہی اس نوجوان کو ایمپلائمنٹ ایکس چینج میں رجسٹرڈ کروایا بیگم کو پہلے ہی نوکری مل چکی تھی نوجوان کی اہلیہ ایف سی کالج سے ہی ماسٹر ڈگری ہولڈر تھی چھ ہفتوں کی اسٹیل کٹر کی نوکری کے دوران ہی یہ جوڑا رگبی شفٹ ہو گیا۔
جہاں صرف ابھی چھ مہینے ہی گزرے تھے کہ برطانوی ریلوے میں گارڈ کی اُسامیوں کے لئے بھرتی شروع ہوئی اس نوجوان نے بھی اپلائی کیا اور کامیابی سے ٹیسٹ مکمل کئے اور ٹریننگ مکمل کی اور برطانوی ریلوے میں گارڈ کی نوکری شروع کر دی اسکالر شپ ٹرانسفر کرنے سے یونی ورسٹی انتظامیہ نے معذرت کر لی اور نوجوان نے برطانیہ رہنے کو ترجیح دی اور یوں گوروں کے بتائے ہوئے ریلوے پر باؤ ٹرین سے گوجرانوالہ سے لاہور جانے والا طالب علم نوجوان مسافر بطور ریلوے گارڈ لندن سے برمنگھم سفر کرنے لگا یہ سفر 1972ء سے 1976ء تک جاری رہا اس دوران ہی واروک یونیورسٹی سے نوجوان نے ایجوکیشن میں پوسٹ گریجویشن کی اور بطور ریلوے کو خیرباد کہہ کر بطور ایڈوائزری ٹیچر ملازمت شروع کی اقبال چشتی جو کہ لیبر پارٹی میں متحرک تھے ان کی راہنمائی اور ساتھ ہی سماجی بھلائی کے کاموں کے لئے اپنے شوق کی تسکین کے لئے لیبر پارٹی جوائن کر لی اور اپنے علاقے میں نہایت محنت سے اپنے لوگوں کی خدمت شروع کر دی اور انتہائی خلوص سے پارٹی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا۔ 1981ء میں پارٹی نے نوجوان ورکرکے پارٹی کے منشور سے لگن اور خلوص دیکھتے ہوئے اسے رگبی ڈسٹرکٹ کونسل کی رکنیت کے لئے ٹکٹ دیا یوں پہلی دفعہ رگبی کے ووٹروں جس میں 99فیصد سے بھی زیادہ ہی انگریز تھے ایک اجنبی نام سنا اور پڑھا تھا۔ جیمز شیرا اس طرح آج کے مشہور پاکستانی نژاد رگبی کاؤنٹی کے پہلے پاکستانی اور برطانیہ بھر میں دوسرے میئر منتخب ہونے والے ڈاکٹر جیمز شیرا برطانوی سیاست میں اُبھرے پھر انہوں نے اپنے حلقے کے لوگوں کی ایسی خدمت کی کہ وہ مسلسل کونسلر منتخب ہوتے رہے۔ 1987ء میں لیبر پارٹی نے انہیں ڈپٹی میئر نامزد کیا۔
1988ء میں وہ رگبی کے میئر منتخب ہوئے وہ رگبی میں میئر منتخب ہونے والے پہلے پاکستانی میئر تھے اور برطانیہ میں منتخب ہونے والے دوسرے پاکستانی تھے ان سے پہلے محمد عجائب بریڈ فورڈ کے میئر منتخب ہو چکے تھے۔ 1985-1986ء میں یہ اعزاز بھی لیبر پارٹی کے پاس ہی ہے اس دوران جیمز شیرا انٹرکلچرل ایجوکیشن فار واروِکشائر کے ڈائریکٹر، لیبر پارٹی کے سینئر کونسلر اور لیبر گروپ کے رہنما ہیں۔ آپ رگبی کے میئر رہے اور اب رگبی کے ریسورسز اینڈ کارپوریٹ گورنینس پینل کے چیئرمین ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ واروکشائر پرائمری کیئر ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور وائس چیئرمین بھی ہیں۔ واروکشائر ہیلتھ اتھارٹی کے چیئرمین اور ویسٹ مڈلینڈز ساؤتھ سٹریٹجک ہیلتھ اتھارٹی کے وائس چیئرمین بھی رہے۔ رگبی ریس ایکویلٹی کونسل کے چیئرمین رہے اور واروکشائر ریس ایکویلٹی پارٹنرشپ کے ڈائریکٹر اور رگبی اور ساؤتھم کے جنرل انکم ٹیکس کمشنر ہیں۔
جیمز شیرا آکسفرڈ سینٹر فار مشن اسٹڈیز کے بورڈ ممبر رہے۔ رگبی مائٹن ہاسپائس کے بانی اور چیئرمین رہے اور نیشنل ٹرسٹی آف برنارڈز اور اس کی آڈٹ کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ وہ رگبی میں سینٹ ایڈریو بین کے چیئرمین اور نارتھ لینڈز پرائمری سکول گورننگ باڈی کے چیئرمین رہے اور آفسول اور پیرول بورڈ کے رکن بھی رہے۔ آپ واروکشائر کالج اور کووینٹری یونیورسٹی کے گورنر ہیں۔
ڈاکٹر جیمز شیرا مسلسل دس بار رگبی کے کونسلر منتخب ہوئے۔ یہ برطانیہ کا قومی ریکارڈ بن چکا ہے۔ جیمز شیرا رگبی کے پہلے کونسلر ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا اور آپ برطانیہ میں طویل مدت تک کونسلر رہنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ جیمز شیرا دوسرے اس وقت وہ لیبر پارٹی کی طرف سےBenn وارڈ کے نمائندہ ہیں اور اس عہدے کی مدت مئی 2022 تک ہے۔ وہ اس عہدے پر 1981 سے مسلسل فائز ہیں۔ انہوں نے دسویں مرتبہ کونسلر منتخب ہونے پر کہا کہ‘‘مجھے پاکستانی اور برطانوی ہونے پر فخر ہے اور میں بلاامتیاز نسل و مذہب کمیونٹی کی خدمت کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہوں’’۔ انہوں نے دل و جان سے اپنی کمیونٹی کی خدمت کی اور اپنی ساری صلاحیتیں وقف کر دیں جس کا نمایاں ثبوت یہ ہے کہ وہ دسویں بار کونسلر بنے۔ یہ ان کے اخلاص اور سنجیدہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔انہوں نے پاکستانی کمیونٹی سے خاص طور پر نوجوان نسل کو ہدایت کی کہ کمیونٹی اور سیاست میں فعال کردار ادا کریں۔
بین المذاہب تعلقات اور خدمات کے اعتراف میں جیمز شیرا کو 1992 میں ستارہ پاکستان کا صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ اس طرح وہ بیرون ملک رہنے والے واحد پاکستانی ہیں جنہیں یہ ایوارڈ ملا۔ 2007 میں انہیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا ایوارڈ حکومت برطانیہ کی طرف سے ملا۔مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے اس موقعہ پر ڈاکٹر جیمز شیرا کو مبارک باد دی اور کہا کہ انہیں فخر ہے کہ ڈاکٹر جیمز شیرا پاکستانی ورثہ ہیں۔ پوری قوم کو ان پر فخر ہے۔
ان کی خدمات کے اعتراف میں واروِکشائر کے رگبی ٹاؤن میں آپ کے نام پر ایک سڑ ک کا نام ‘‘جیمز شیرا وے’’ رکھا گیا ہے۔ یہ سڑک تقریبا 63 میٹر طویل ہے۔ یہ نام برطانیہ میں ایک منفرد نام ہے۔
2017 میں آپ کو رگبی کونسل کا اعزازی فری مین بنایا گیا اور یہ رگبی کونسل کا اعلیٰ ترین اعزاز ہے۔
ڈاکٹر جیمز شیرا نیاگست 2019 کو برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر انڈیا کے مظالم کی توجہ دلائی اور آرٹیکل 35-A اور 370 کے خاتمے کی مذمت کی۔ انہوں نے لکھا کہ ان شقوں کا خاتمہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اور اس اقدام سے خطے میں امن کی کوششیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کونسل کے مستقل ممبران کشمیر میں انڈیا کے مظالم پر اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ انہوں نے وزیراعظم بورس جانسن سے اپیل کی کہ حکومتِ برطانیہ اس مسئلے پر بروقت سنجیدہ ایکشن لے۔
ڈاکٹر جیمز شیرا پاکستان کی شناخت ہیں۔ انہوں نے وطن عزیز کے تقدس پر حرف نہ آنے دیا۔ مسیحی ہونے کے باوجود کبھی شراب نہ پی تاکہ ملک کا نام بدنام نہ ہو۔ بلکہ جب وہ میئر منتخب ہوئے تو رگبی میں ان کے ناقدین اس بات پر پریشان تھے کہ کیوں رگبی کاؤنٹی میں شراب پر پابندی ہی نا لگا دی جائے اپنی اس عادت کے بارے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ برطانیہ میں دنیا کے ہر ملک سے لوگ بستے ہیں لہٰذا جب کبھی کوئی کسی بھی کسی ایسی حرکت میں ملوث پایا جاتا ہے جسے معاشرے میں بری نظر سے دیکھا جاتا ہو تو اخبار میں خبر کے ساتھ اس برطانوی شہری کے آبائی ملک کا نام ضرور لکھا جاتا ہے وہ مزید کہتے ہیں کہ شراب پی کر کہا کہ اپنے ملک و قوم کا نام بدنام ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے میں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ میں شراب کو منہ لگاؤں انہوں نے اپنی زندگی میں اسی طرح کی مثبت عادتوں کو اپنایا ہوا ہے۔
وہ برطانوی سیاست دان ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اقلیتی حقوق کے حوالے سے آپ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں اور یہ سنجیدگی عملی اقدامات سے نظر آتی ہے۔ مسیحیوں کے تعلیمی اداروں میں سے صرف ایف سی کالج واپس کیا گیا جبکہ گارڈن کالج، مرے کالج، ایڈورڈ کالج وغیرہ ابھی تک واپس نہیں کیے گئے۔
برطانیہ پہنچنے پر آپ نے پانچ سال تک ریلوے گارڈ کی نوکری کی۔ اور پھر لیبر پارٹی کی طرف سے کونسلر کا الیکشن لڑا۔ اگر ڈاکٹر جیمز شیرا کی زندگی کو ایک سطر میں بیان کرنا ہو تو کہوں گا۔ ‘‘ ڈاکٹر جیمز شیرا ہر وقت زندگی کے مثبت پہلو پر نظر رکھتے ہیں’’ اور یہ لائن سطر میں اپنے پچھلے کئی مہینے کی جیمز شیرا سے لمبی ٹیلی فون گفتگو کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں۔ مثلاً ڈاکٹر شیرا نے مجھ سے کبھی ذکرنہیں کیا کہ انہوں نے پاکستان میں کیسے نفرت بھرے امتیازی رویے سہے لیکن کس طرح ان کے میزبان محمد رشید نے انہیں بلیک میل کیا۔ انہوں نے مجھے رشید کی بھی میزبانی کا ذکر کیا لیکن انہوں نے یہ سب بھگتا جس کا انکشاف اقبال چشتی کی کتاب ‘‘نیا پاکستان’’ کے ایک باب میں اقبال چشتی نے لکھا ہے۔ جو کہ آپ اگلے صفحات پر پڑھ سکتے ہیں۔ اقبال چشتی سے میں نے کہا یہ واقعات انہوں نے مجھے نہیں بتایا تو اقبال چشتی صاحب کہتے ہیں۔ وہ کبھی بھی زندگی کے منفی پہلوؤں کو سامنے نہیں لاتے اور شکوے شکایت کی بجائے کچھ کر گزرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ مجھے جو پتہ چلا وہ بھی پچاس سال پرانی باتیں ہیں جو اگرمجھے پتہ نہ ہوتی تو میں جمیز شیرا کی مدد نہ کر پاتا۔
مثلاً ایک مسیحی نوجوان کے لئے یہ بہت آسان تھا کہ وہ سکھ کا سانس لیتے ہی پی آئی اے کے رویے ، وزارت تعلیم کے بنگال بابو کو بنیاد بنا کر این جی او بناتا اور محرومیوں کی سوداگری کرتا لیکن انہوں نے محمد رمضان، محمد رشید اقبال چشتی کے مثبت کردار کو یاد رکھا اور یہ بات فخر سے بتاتے ہیں کہ میں نے پچاس سال میں ایک دفعہ بھی پاکستان جاتے ہوئے پی آئی اے کے علاوہ کسی ایئرلائن پر سفر نہیں کیا اور کہتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ پاکستانی مسیحیوں کے حقوق کے لئے متعلقہ اہلکاروں و حکمرانوں سے کھل کر بات کی لیکن کبھی بھی کسی ایسے مظاہرے میں شریک نہیں رہا جس میں دیار غیر میں پاکستان کا امیج خراب ہو۔ اسی طرح جب ڈاکٹر جیمز شیرا رگبی ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر تھے تو ایک چینی وفد سرکاری دورے پر برطانیہ آیا انہوں نے رگبی کاؤنٹی کابھی دورہ کیا وفد میں شامل ایک چینی وزیر برطانیہ میں باہر سے آ کر بسنے والے اس پاکستانی سے متاثر ہوا جس نے دور دیسوں میں آ کر لیبر پارٹی میں اپنی جگہ بنائی تھی چند سال گزرے ڈاکٹر جیمز شیرا رگبی کے میئر ہو گئے اور وہ وزیر چین کے وزیراعظم ہو گئے وزیراعظم چین نے ا پنی خصوصی دعوت پر رگبی کے وفد کو چین آنے کی دعوت دی جس میں بطور میئر رگبی ڈاکٹر جیمس شیرا بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر جیمس شیرا شلوار شیروانی میں ملبوس تھے۔ ایک چینی ٹی وی اینکر نے ان سے پوچھا آپ چین میں بطور برطانوی کاؤنٹی کے میئر آئے ہیں لیکن لباس آپ کا پاکستانی ہے تو ڈاکٹر جیمز شیرا نے کہا ‘‘میرا جسم برطانوی اور میری روح پاکستانی ہے’’ اسی دورے میں ایک اور اعزاز ان کے حصے میں آیا انہی دنوں چینی حکومت دیوار چین کی مرمت کر رہی تھی حکومت پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر سرکاری سطح پر اس عظیم عالمی ورثے کی مرمت میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے کچھ رقم دینے کا فیصلہ کیا پتہ نہیں یہ اس وقت کی حکومت کا فیصلہ تھا یا چین میں تعینات پاکستانی سفیر اکرم ذکی کا فیصلہ تھا کہ انہوں نے کہا آپ بطور پاکستانی یہ رقم حکومت پاکستان کی طرف سے چینی حکومت کو دیں۔
1988ء میں میئر رگبی بننے کے بعد سے برطانوی ضلعی سیاست میں ان کی نیک نامی اور ان کی روح اور نس نس میں بسی پاکستانیت کی بدولت برطانیہ میں جو بھی پاکستانی ہائی کمشنر تعینات ہوتا ہے وہ ڈاکٹر جیمز شیرا کو برطانیہ میں اپنی سفارتی …… کا ایک قیمتی اثاثہ سمجھ کر انہیں عزت و تقریم دیتا ہے مختلف ادوار میں برطانیہ میں پاکستانی سفیر تعینات رہنے والے پاکستانیوں میں سے اکثر سے ان کے ذاتی مراسم بھی ہیں۔ ڈاکٹر جیمز شیرا کی انسانیت اور دیار غیر میں رہ کر اپنے آبائی وطن کی خدمت کے کچھ اور پہلوؤں کواُجاگر کرنے کے لئے یہاں ان کے بارے میں ان کے دوستوں کے مضامین شامل کئے جا رہے ہیں بے شک ڈاکٹر جیمز شیرا کی شخصیت و زندگی نہ صرف پاکستانی مسیحی نوجوانوں کے لئے بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے میں نے بھی ڈاکٹر جیمز شیرا کا صرف نام سن رکھا تھا اور میں دنیا بھر سے انہیں میں سماجی ناانصافی پر مبنی معاشروں سے جا کر سماجی انصاف پر مبنی معاشروں میں جگہ بنانے والے لاکھوں لوگوں میں سے ایک سمجھتا تھا لیکن میں تحریک شناخت برطانیہ کے رضا کار  جون بوسکو  کا شکر گزار ہوں جن کی مسلسل تحریک دینے سے میں ڈاکٹر جیمز شیرا سے متعارف ہوا اور مجھے تحریک شناخت کے لئے ایک ایسی روشن مثال کے بارے میں جاننے کا موقعہ ملا جو اس دو سطروں کی عملی تفسیر ہے کہ
درکھلا تھا مگر ادھر نہ گئے
ہم تو دیوار سے ہی واقف تھے

رگبی کا لارڈ میئر جیمز شیرا
اقبال چشتی کی کتاب ‘‘نیا پاکستان’’ سے اقتباس
میری زندگی میں ایک شخص ایسا بھی آیا ہے جس شخص کے بارے میں جب بھی سوچتاہوں میرا سر فخر سے بلند اور عقیدت سے جھک جاتا ہے۔ آپ کو میری داستان حیات پڑھ کر یہ اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ میں نے اپنے کردار و عمل سے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ مگر دنیا میں ایک شخص ایسا بھی ہے جس نے مجھے متاثر کیا ہے۔ وہ شخص ہے انگلستان کے شہر رگبی کا سابق میئر اور پاکستان کے شہر گوجرانوالہ کے ایک نواحی گاؤں کا نوجوان شیرا مسیح جو اب برطانیہ میں جیمز شیرا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جیمز شیرا حال ہی میں رگبی میونسپل کارپوریشن کا دسویں بار کونسلر منتخب ہوا ہے۔ کارپوریشن نے اس کی اعلیٰ خدمات پر ایک سڑک کو جیمز شیرا کے نام سے منسوب کیا ہے۔ جیمز شیرا کو حکومت پاکستان کی جانب سے سب سے بڑا سول اعزاز ‘‘ ستارہ پاکستان’’ عطا کیا گیا جبکہ ملکہ برطانیہ الزبتھ بھی جیمز شیرا کو بکنگھم پیلس میں ایک خصوصی تقریب میں ملاقات کا اعزاز دے چکی ہیں۔ مشرق کا یہ ستارۂ آج مغرب میں اپنی چمک سے آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے۔
شیرا مسیح، جیمز شیرا کیسے بنا، یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔ اس داستان کو شاہکار بنانے میں میرا بڑا کردار ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی یہ عرض کیا ہے انسانوں سے پیار اور اس کی عظمت کا اقرار میری زندگی کا بنیادی اصول رہا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ انسان ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت کی دلیل ہے۔ اسی لئے میرے رب نے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا ہے۔ یوں تو میری زندگی انسانوں کی آبیاری سے بھری پڑی ہے۔ مگر میں یہاں چند ایسے افراد کا تذکرہ کروں گا جن کا میں نے ہاتھ تھاما اورمیرے رب نے مجھے وسیلہ بنا کر ان کی کایا پلٹ دی۔ ایسے ہی افراد میں ایک نام جیمز شیرا کا بھی ہے جن سے میری رفاقت چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے۔ شاید قدرت نے انہیں ترقی کی معراج پر پہنچانے کے لئے مجھے وسیلہ بنایا تھا۔ پہلے میں جیمز شیرا کی ذاتی زندگی کے بارے میں بتاتا ہوں جو مذہبی تعصب، نفرت اور عزم و استقلال کی داستان ہے جو مجھے 44سال پہلے خود اس نے سنائی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں جیمز شیرا کی بابت آپ کو کچھ بتاؤں۔ ان سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں بتاتا چلوں۔ مجھے اپنے دفتر کے لئے اکثر اوقات لوگوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ کاؤنٹری میں میری ٹریول ایجنسی تھی اور میں ایئر ٹکٹنگ کا کام کرتا تھا۔ اس سلسلے میں اکثر اخبارات میں اشتہار بھی شائع کرواتا تھا۔ شاید یہ اشتہار پڑھ کر شیرامسیح اپنی اہلیہ کے ہمراہ میری ٹریول ایجنسی ‘‘ ورلڈ لنک ایوی ایشن’’ کے آفس میں آئے۔ رشید نامی ایک صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے جو شیرا مسیح کے شہر گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے اور صراف کا کام کرتے تھے۔ شیرا مسیح نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ کاؤنٹری میں رشید صاحب کے گھر میں رہتے ہیں۔ رشید کے چلے جانے کے بعد شیرا مسیح نے اپنی بیتا سنائی اور بتایا کہ رشید ہم دونوں میاں بیوی کو بہت تنگ کرتا ہے۔ حالانکہ اسی نے مجھے انگلینڈ بلوایا تھا۔ اب رشید ہر وقت دھمکیاں دیتا ہے کہ تم برطانیہ میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہو اور میں متعلقہ حکام سے تمہاری شکایت کرکے برطانیہ سے نکلوا دوں گا۔ میں نے شیرا مسیح کی دستاویزات دیکھیں تو پتہ چلا کہ موصوف اسٹودنٹس ویزے پر برطانیہ آئے ہیں اور ان کے قیام کی قانونی مدت ابھی چھ ماہ بقایا ہے۔ شیرا مسیح بہت ہی سادہ اور معصومانہ طبیعت کے مالک تھے۔ میں نے انہیں رگبی آنے کی دعوت دی۔ یہاں میرے کئی فلیٹس تھے۔ میں نے انہیں اپنا ایک فلیٹ رہنے کے لئے دے دیا اس طرح ان کی زندگی میں ایک ٹھہراؤ آ گیا۔ وہ کاؤنٹری سے میرے پاس رگبی آ گئے۔ شیرا مسیح کو یہ شبہ ہر وقت پریشان کئے رکھتا کہ انہیں غیر قانونی قیام کے الزام میں برطانوی پولیس کسی وقت بھی گرفتار کر لے گی اور انہیں برطانیہ سے نکال دیا جائے گا۔ اب جیمز شیرا کی داستان حیات سنئے ! جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جیمز شیرا پہلے شیرا مسیح تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت میری عمر 17سال تھی۔ گوجرانوالہ کے ریلوے اسٹیشن پر میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا جو مجھے گوجرانوالہ سے انگلستان لے آیا۔ ہوا کچھ یوں کہ میں نے گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن پر نصب نلکے سے پانی پی لیا۔ میں ہاتھوں کی اوک سے پانی پی رہا تھا کہ ایک شخص نے مجھے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ لوگ جمع ہو گئے ہر کوئی مجھ پر ہی اپنا غصہ ٹھنڈا کر رہا تھا۔ مجھے پیٹنے والا شخص لوگوں کو بتا رہا تھا کہ یہ عیسائی ہے اور اس نے نلکے سے پانی پیا ہے مجھے حیرت ہوئی کہ نلکے سے پانی پینا بھلا کون سا جرم ہے۔ غصے سے بھرے اس شخص نے مجھے چپت رسید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے نلکاناپاک کر دیاہے۔ یہ عیسائی ہے۔
شیرا مسیح کی بات سن کر میرے ذہن میں اچھری والا واقعہ آ گیا۔ جو بچپن میں خود میرے ساتھ پیش آیا تھا۔ جب میری والدہ نے بھی نلکے سے پانی پینے پر ہمارے گھر پر کام کرنے والی ‘‘بھنگن’’ اچھری کو خوب لعن طعن کی تھی اور میں نے اپنی ماں کا ساتھ دینے کے بجائے اس بھنگن کا ساتھ دیا تھا۔ جسے میں اپنی ماں کا درجہ دیا کرتا تھا۔ شیرا مسیح بتا رہے تھے کہ نلکے سے پانی پینے جیسے جرم میں اپنے اوپر فرد جرم عائد ہونے کے واقعات مجھے کئی بار پیش آئے۔ گوجرانوالہ کے نواح میں میرا گاؤں ہے۔ بڑے نامساعد حالات میں، میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ والد حد درجہ غریب تھے وہ چار جماعتیں پڑھے ہوئے تھے اس لئے تعلیم کی اہمیت سے آگاہ تھے مگر وہ ہم بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھے۔ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے میں نے اس کا حل یوں نکالا کہ میں نے پیسے جوڑ جوڑ کر ایک پرانی سائیکل خرید لی۔ میں صبح سویرے اٹھتا اور اپنے گاؤں سے دودھ جمع کرتا اور وہ سائیکل پر لے کر گوجرانوالہ شہر آتا اور فروخت کر دیتا۔ میں نے شہر میں واقع اقبال ہائی اسکول میں از خود داخلہ لے لیا۔ جہاں میں میٹرک تک زیر تعلیم رہا۔ شہر میں آنے کے باوجود میں مذہبی تعصب کا نشانہ بنتا رہا۔ جب میں نے ایف سی کالج لاہور میں داخلہ لیا تو یہاں بھی میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں ایک ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا معلوم نہیں ہوٹل انتظامیہ کو یہ بات کیسے معلوم ہو گئی کہ میں مسیحی ہوں۔ ہوٹل کا منیجر نما ایک شخص میرے پاس آیا اور حکم دیا کہ تمہیں کھانے کے بل کے ساتھ ان برتنوں کی قیمت بھی ادا کرنی ہو گی جن میں، میں نے کھایا پیا ہے۔ اس شخص کی بات سن کر میں بڑی خفت محسوس کر رہا تھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے مسلمان ہیں کہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کا مذہب تو آیا ہی تعصبات کو ختم کرنے کے لئے تھا۔ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت اللعالمین ہیں جو ہر انسان کے لئے آفاقی پیغام لائے ہیں۔ قرآن پاک کا تو موضوع ہی ‘‘انسان’’ ہے اس کے باوجود یہ لوگ یسوع مسیح کو ماننے والوں سے اس قدر بھیانک سلوک کیوں کرتے ہیں۔
میں شیرا مسیح کی باتیں غور سے سن رہا تھا انتہائی سادہ طبیعت کا یہ نوجوان ا پنے دل کا غبار نکال رہا تھا ۔ دوران گفتگو میں نے اسے مشورہ دیا…… یار شیرا اگر تمہیں یہاں ترقی کرنی ہے تو میری ایک بات مانو۔ تم اپنا نام تبدیل کر لو۔ میرا مطلب ہے کہ شیرا مسیح سے تم اپنا نام جیمز شیرا رکھ سکتے ہو۔ جیمز شیرا کی شخصیت کی مناسبت سے یہ نام اس لئے بھی مناسب تھا کیونکہ اس کا رنگ گورا چٹا اور باڈی توانا تھی اور وہ کہیں سے بھی ایشیائی باشندہ نہیں لگتا تھا۔ یہ نوجوان میری یہ بات سن کر گہری سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا جی اقبال صاحب آپ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ آج سے میں جیمز شیرا ہوں، شیرا مسیح نے میرا مشورہ مان لیا۔ شیرا مسیح کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا کہ انہیں غیر قانونی قیام کے جرم میں کسی وقت بھی پولیس پکڑ لے گی اور انہیں برطانیہ بدر کر دیا جائے گا۔ ایک روز شیرا مسیح اور میرا چھوٹا بھائی ظفر چشتی ہانپتے کانپتے آفس میں داخل ہوئے، شیرا مسیح کچھ زیادہ ہی خوفزدہ دکھائی دے رہے تھے۔ دفتر میں داخل ہونے کے بعد ان پر عجیب بدحواسی کا عالم طاری تھا۔ ‘‘آج تو کمال ہی ہو گیا۔’’ یہ جملہ بار بار دہرا رہے تھے۔ ظفر چشتی جو خود بھی اسٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ آئے تھے، وہ شیرا مسیح کی اس حالت پر مسلسل ہنس رہے تھے۔ میں نے پوچھا…… آخر ہوا کیا ہے۔ بتاتے کیوں نہیں۔ ظفر چشتی نے بتایا کہ ہم بازار میں کھڑے تھے کہ وہاں معمول کی انجام دہی کے لئے پولیس آ گئی۔ شیرا مسیح پولیس کو دیکھ کر اس قدر گھبرا گئے کہ سڑک کی دوسری جانب ایک دکان پر جا کھڑے ہوئے۔ انہوں نے جلدی سے ایک سگریٹ خریدا اور انتہائی بھونڈے انداز میں سگریٹ سلگایا اور کش پر کش لگانے لگے۔ (حالانکہ شیرا مسیح سگریٹ نہیں پیتے تھے) یک لخت انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور قریب کھڑی ہوئی ایک کار میں بیٹھ گئے اور ڈرائیو کو اسٹونی اسٹن روڈ چلنے کو کہا جہاں ہمارا آفس ہے۔ ظفر چشتی بتا رہے تھے کہ جب شیرا مسیح نے ڈرائیور کو کرایہ دینے کے لئے پیسے جیب سے نکالے اور اسے دینے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے کہا۔ ‘‘ او مسٹر میں ٹیکسی ڈرائیور نہیں ہوں پولیس آفیسر ہوں، کیا تم نے کار پر لکھا ہوا لفظ ‘‘ پولیس’’ نہیں دیکھا۔ بس پھر کیا تھا شیرا مسیح مزید بدحواس ہو گئے۔ پولیس افسر ہمیں چھوڑ کر روانہ ہو گیا۔’’
تھوڑے عرصے کے بعد شیرا مسیح برٹش ریلوے میں بطور گارڈ ملازم ہو گئے تو ان کا یہ معمول بن گیا کہ وہ جب بھی ڈیوٹی سے واپس آتے تو اپنے گھر جانے سے قبل مجھے ملنے کے لئے میرے گھر ضرور آتے تھے اور کئی گھنٹے تک ہماری آپس میں سیاسی معاملات پر گفتگو رہتی کیونکہ ان دنوں میں لیبر پارٹی کا رگبی میں اہم رکن تھا۔ انہیں اخبار پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ واپسی پر ان کے ہاتھ میں اخبار لازمی ہوتا تھا۔ وہ باریک بینی سے اخبار کا مطالعہ کرتے اور جب بھی اپنے دوستوں اور احباب کے پاس بیٹھے تو وہ اخبار کی خبریں انہیں سناتے۔ لوگ اپنے وطن اور شہر کی خبریں شوق سے سنتے۔ پاکستان اور بھارت کے حالات سے وہ ہر وقت باخبر رہتے اور اپنی معلومات کا تبادلہ اپنے ملنے جلنے والوں سے کیا کرتے تو ایک روز پادری نے شک کا اظہار کرتے ہوئے انہیں جاسوس کہہ دیا وہ میرے پاس آئے اور بولے اقبال صاحب لوگ مجھے جاسوس سمجھنے لگے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں واقعی جاسوس ہوں۔ اس عجیب و غریب سوال پر میں اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ میں نے انہیں سمجھایا۔ ارے خدا کے بندے! تم جاسوس ہو تو یہ بات تو تمہیں معلوم ہونی چاہیے تاکہ تم جاسوس ہو یا نہیں۔ اندازہ کیجئے کہ اس طرح کی معصومیت کا انداز فکر رکھنے والا شخص آج کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے۔ یہ صرف میرے رب کی دین ہے۔
شیرا مسیح سے جیمز شیرا بننے تک یہ شخص رگبی کی مقبول شخصیت بن چکا تھا۔ ایشیائی لوگوں کی تو وہ جان بن چکا ہے۔ مرد خواتین اسے دل و جان سے چاہتے ہیں اور اس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، برطانیہ میں پیدا ہونے والی ایشیا کی نئی نسل میں بھی جیمز شیرا مقبول ترین شخص ہے۔ جسے لوگوں نے دسویں بار رگبی کا کونسلر منتخب کر لیا ہے۔ میری زندگی میں اتنا باکردار، ایماندار اور سچا انسان اور کوئی نہیں آیا۔ میں نے ہی انہیں لیبر پارٹی میں شامل کروایا تھا۔ میئر منتخب ہونے سے قبل کاؤنٹری یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف برمنگھم جبکہ وہ اس وقت ایک لاج کے گورنر بھی رہے۔ انہوں نے بہت سے پاکستانی طالب علموں کو انگلینڈ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد دی۔ انہوں نے سات سال میں پانچ کالج بھی قائم کئے۔ ایک جانب انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی تو دوسری جانب اعلیٰ تعلیمی خدمات پر حکومت پاکستان نے ‘‘ستارۂ پاکستان’’ کے اعزاز سے نوازا۔ جیمز شیرا یونیورسٹی کے گورنر ہیں۔ سائیکل پر دودھ فروخت کرنے والا گوجرانوالہ کے ایک پسماندہ گاؤں کا یہ نوجوان آج بھی برطانیہ میں پاکستانیوں کے لئے عزت و توقیر کی علامت ہے۔ وہ آج بھی پاکستان کی نوجوان نسل کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ تعلیم، تحقیق، سائنس و ٹیکنالوجی پر بھرپور توجہ دیں ورنہ اس شعبے کو نظر انداز کرنے والی قومیں خود بھی نظر انداز ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹر جیمز شیرا سے آج بھی میری دوستی اور محبت کا رشتہ برقرار ہے۔ مجھے اس پر فخر ہے کیونکہ میرا لگایا ہوا یہ پودا آج سایہ دار شجربن چکا ہے جس سے آج بھی بڑی تعداد میں نوجوان پاکستانی فیضیاب ہو رہے ہیں۔ جیمز شیرا کے کردار کو دیکھ کر میرا ایمان پختہ ہو جاتا ہے اور میں یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

جیمز شیراکے بارے میں شعیب سڈل کی تقریر سے اقتباس
جیمز شیرا ہمارے لیے محترم شخصیت ہیں۔ میں ان سے پہلے بھی واقف تھا۔ پہلے بھی ایک دفعہ ان کے بلانے پر میں رگبی گیا تھا۔ یہ آج سے کوئی دس سال پہلے کی بات ہے جب میں نیشنل پولیس بیورو کا سربراہ تھا اور ہم وہاں ایک وفد لے کر گئے تھے۔ انہیں پتہ چلا تو انہوں نے خصوصی طور پر ہمیں بلایا۔ ہمارے ساتھ وزیر داخلہ بھی تھے۔ رگبی میں گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک سڑک کا نام جیمز شیرا سٹریٹ ہے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں کہ یہ دیکھ کر مجھے کتنا زیادہ فخر ہوا۔ اور آج یہ فخر اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وہ گوجرانوالہ اور پاکستان کے سپوت ہیں اور لندن میں بیٹھ کر انہوں نے اس ملک کے لیے جتنا کام کیا ہے اس کے اعتراف میں انہیں ستارہ پاکستان کا ایوارڈ دیا گیا۔ اور برطانیہ میں انہیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا ایوارڈ دیا گیا۔ وہ دس مرتبہ وہاں کے کونسلر منتخب ہو چکے ہیں۔ یہ چالیس سال سے اوپر بنتے ہیں۔ ایک دفعہ وہ اسی کاؤنٹی کے میئر بھی رہ چکے ہیں۔ جہاں بھی پاکستان اور بین المذاہب ہم آہنگی کی بات ہو وہ آگے آتے ہیں اور پاکستان میں جب بھی اقلیتوں کا مسئلہ ہو تو میری توجہ ہمیشہ اس طرف دلاتے ہیں۔ وہ یہ سب کام بے لوث کرتے ہیں۔

ڈاکٹر جیمز شیرا کے ساتھ گفتگو
نمائندہ ہلال میگزین انگریزی کے نمائندہ عباس حیدر کے انٹرویو کا اردو ترجمہ
پاکستانی ماہر تعلیم، سیاستدان اور انسانیت نواز ڈاکٹر جیمز شیرا سے ملیے جنہوں نے اپنی زندگی دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔
اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلسل کوششوں سے انسان بالآخر ان ارفع بلندیوں کو حاصل کر لے گا جس کے لیے اس نے محنت اور ثابت قدمی سے کام لیا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس طرح کے مشورے اکثر ان لوگوں کے لیے بیکار لگتے ہیں جو کامیابی کے پھل کا ذائقہ چکھنے کی خواہش سے محروم ہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے جو فتح حاصل کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں اور اپنی راہ میں حائل ہر رکاوٹ پر قابو پانے کی ہمت رکھتے ہیں۔ مقصد کی مستقل مزاجی اور جذبے کی پختہ آزادی فتح کی کلید ہیں۔ اس موجودہ مقالے میں ہم اپنے قارئین کو سرزمین پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے شخص سے متعارف کرائیں گے جنہوں نے اپنی انتھک کوششوں سے بیرونی ساحلوں پر اپنے ملک کا تشخص بلند کیا ہے اور اپنے شاندار کردار کے ذریعے اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی ہے اور اس طرح پاکستانی شخصیت کو عزت و وقار کی مزید بلندیوں تک پہنچایا ہے۔
ہم یہاں ڈاکٹر جیمز شیرا کے ساتھ ہیں جو برطانیہ (یو کے) کے ایک ممتاز سیاست دان اور ماہر تعلیم ہیں، جو بین المذاہب ہم آہنگی اور انسان دوستی میں حصہ لینے کے لیے معروف ہیں۔ انہوں نے جیمز شیرا فاؤنڈیشن قائم کی جو پاکستان میں تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران بہت سے ایوارڈز اور اعزازات حاصل کیے ہیں جن میں 2022ء میں کووینٹری یونیورسٹی سے اعزازی ڈاکٹریٹ اور جون 2007ء میں ملکہ کی سالگرہ کے معززین کی فہرست میں ملکہ الزبتھ سی ممبر آف دی آرڈر آف دی برٹش ایمپائر (ایم بی ای) شامل ہیں۔ ڈاکٹر جیمز شیرا کو ستارہ پاکستان اور ہلال قائد اعظم سے نوازا گیا جو پاکستان کے اعلیٰ درجے کے سول ایوارڈز ہیں۔ ڈاکٹر جیمز شیرا پاکستانی معاشرے کے لیے ایک روشن مثال ہیں جنہوں نے محنت، لگن، ایمانداری اور پیشہ ورانہ مہارت کی بنیاد پر اپنا نام اور ساکھ بنائے۔
انہوں نے ایک قابل ذکر سیاسی کیریئر بھی گزارا ہے۔ 1988 ء میں انہوں نے رگبی کے پہلے منتخب پاکستانی میئر بن کر تاریخ رقم کی۔ انہوں نے پاکستان اور برطانیہ کی متعدد یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں۔ وہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تعلیم اور ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے میں فعال طور پر شامل رہے ہیں، برطانیہ کی پاکستان سوسائٹی کے صدر اور اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے بانی رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر جیمز شیرا کی زندگی میں کئی اہم شخصیات نے اہم کردار ادا کیا لیکن انہوں نے خاص طور پر معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر اکبر ایس احمد کا سنہری الفاظ میں ذکر کیا۔ سابق وزیر اعظم گورڈن براؤن اور لیبر پارٹی کے موجودہ رہنما اور حزب اختلاف کے رہنما کیئر اسٹارمر سمیت کئی اہم شخصیات نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔
ڈاکٹر شیرا نے پاکستان اور برطانیہ دونوں میں تعلیم کے شعبے میں ایک ممتاز کیریئر گزارا ہے۔ انہوں نے پاکستان اور برطانیہ کے مختلف تعلیمی اداروں میں استاد، ہیڈ ماسٹر اور پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ پاکستان کے متعدد اسکولوں اور کالجوں کے بورڈ آف گورنرز کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے 1977 ء سے 1987 ء تک نیوبولڈ مڈل اسکول میں استاد کی حیثیت سے آغاز کیا اور 1981ء سے 1987ء تک ماحولیاتی مطالعات کے سربراہ بنے۔ وہ 1987ء سے 1995ء تک واروک شائر کاؤنٹی کونسل میں بین الثقافتی تعلیم کے لیے کاؤنٹی ایڈوائزر اور 1995 ء سے 2011ء تک انٹر کلچرل کریکولم سپورٹ سروس (آئی سی ایس ایس) کے ڈائریکٹر سمیت کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے کووینٹری یونیورسٹی، واروک شائر کالج اور نیومین یونیورسٹی کالج، برمنگھم سمیت متعدد بورڈ آف گورنرز میں خدمات انجام دیں۔ وہ متعدد کمیٹیوں کے رکن بھی رہے ہیں ، جیسے مساوات اور شمولیت شراکت داری بورڈ اور کیتھولک کمیشن فار ریشل جسٹس۔ ڈاکٹر شیرا مختلف اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں جیسے این ایچ ایس آرڈن کلسٹر کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر اور این ایچ ایس آرڈن کلسٹر کے مساوات، تنوع اور انسانی حقوق گروپ کے چیئرمین۔ وہ ویسٹ مڈلینڈ ساؤتھ اسٹریٹجک ہیلتھ اتھارٹی (این ایچ ایس) اور واروک شائر ہیلتھ اتھارٹی کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔
ڈاکٹر جیمز شیرا کی زندگی، خدمات اور شخصیت پر تحریریں متعدد قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔ تاہم، ایسی زبردست اور تاریخی شخصیت کے دائرہ کار کو کسی ایک مضمون میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال، ہم آپ کے ساتھ ان کی زندگی، کردار اور خدمات کے بارے میں کچھ بصیرت کا اشتراک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر جیمز شیرا اس وقت پارکنسن کی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے بدقسمتی سے ان کی نقل و حرکت اور بول چال محدود ہو رہی ہے۔ ہلال کی ٹیم نے 29 مارچ 2023 ء کو گوجرانوالہ کے علاقے لویانوالہ میں ان کے گھر پر ان سے ملاقات کی۔ آئیے اس ‘‘وطن کے بیٹے’’ سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، ایک ایسے پاکستانی سے جس پر ہم سب کو فخر ہے۔
ہلال: ڈاکٹر جیمز شیرا، آپ کے ساتھ یہ گفتگو کرنا اعزاز کی بات ہے۔ آپ کا کیرئیر ممتاز اور متنوع ہے جس میں سیاست، تعلیم اور انسان دوستی شامل ہے۔ براہ مہربانی ہمیں اپنی ابتدائی زندگی اور تعلیم کے بارے میں مزید بتائیں۔
ڈاکٹر جیمز شیرا: آپ کا شکریہ۔ یہاں ہونا خوشی کی بات ہے۔ میں اس بات چیت کے لیے وقت نکالنے کے لیے ٹیم ہلال کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرا خاندان اور میں آپ کو یہاں خوش آمدید کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں، میں 1946ء میں گوجرانوالہ میں ماہنگا مسیح اور برکت بی بی کے ہاں پیدا ہوا۔ میرے والد ایک کسان تھے جنہوں نے صرف پانچویں کلاس مکمل کی تھی اور میری والدہ تو کبھی سکول ہی نہ گئی تھیں۔ تاہم، یہ میری والدہ کی شدید خواہش تھی کہ میں اعلی تعلیم حاصل کروں۔ اپنے والدین کو سخت محنت کرتے دیکھ کر میں چھوٹی عمر سے ہی ان کی کوششوں میں شریک ہو گیا۔
میں نے اپنی ابتدائی تعلیم کے لیے ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے دوران، میں صبح اپنے گاؤں سے اپنی سائیکل پر دودھ بیچنے کے لیے اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ پھر دودھ بیچنے کے بعد، میں اپنی کلاسوں میں شامل ہو جاتا، یہ طویل عرصے تک چلتا رہا۔ سخت محنت، قسمت، حالات اور وقت نے مجھے فورمین کرسچن کالج (ایک چارٹرڈ یونیورسٹی) لاہور تک پہنچنے میں مدد کی۔ وہاں سے مجھے بیلجیئم کی کیتھولک یونیورسٹی آف لووین میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ ملی، لیکن میں وہاں کیسے پہنچا اور ویزا کیسے حاصل کیا، یہ ایک بہت لمبی اور دلچسپ کہانی ہے۔ اس طویل کہانی کا اجمال یہ ہے کہ میں نے اٹلی پہنچنے سے پہلے افغانستان، ایران، ترکی، یونان اور یوگوسلاویہ کا سفر طے کیا جہاں سیمیں نے برسلز جانے والی ٹرین پکڑی۔ میں نے بیلجیئم میں تین سال تک سخت محنت کی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے واقف رہا جو بعد میں پاکستان کے لیے جوہری سائنس میں اپنی خدمات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ برطانیہ میں میرے دوست مجھے 1970 میں انگلینڈ لے گئے اور مجھے رگبی اسٹیشن پر ریلوے گارڈ کی نوکری مل گئی۔ واروک یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد میں نے نیوبولڈ مڈل اسکول میں ایک استاد کی حیثیت سے داخلہ لیا۔ میں نے کاؤنٹی کونسل کے محکمہ تعلیم میں شمولیت اختیار کی جہاں میں نے اپنی ریٹائرمنٹ تک کام کیا۔
میں نے ہمیشہ پاکستان کے پرچم بردار کی حیثیت سے زندگی گزاری ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا، اس لیے نہیں کہ یہ کوئی مذہبی چیز ہے بلکہ اس لیے کہ یہ پاکستان کے میرے تقریباً 98 فیصد ہم وطنوں کو پسند نہیں ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ یہ ثقافت اور فخر کی بات ہے کہ میں کبھی شراب نہیں پیوں گا۔ میرے کچھ مغربی دوست اس پر مجھے طعنہ دیتے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ سب سمجھ گئے اور میرے جذبے کا احترام کرنے لگے۔
ہلال: آپ کا سیاسی کیرئیر بھی قابل ذکر رہا ہے۔ براہ مہربانی ہمیں برطانیہ میں لیبر پارٹی میں اپنی شمولیت کے بارے میں مزید بتائیں۔
ڈاکٹر جیمز شیرا: بالکل۔ میں 1960 کی دہائی میں برطانیہ میں لیبر پارٹی میں شامل ہو گیا۔ مجھے 1982 میں بورو کے بین وارڈ کی نمائندگی کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا جو چار دہائیوں کی عوامی خدمت کا آغاز تھا۔ پھر میں 1988 میں رگبی کا میئر بن گیا۔ سیاست میں میری شمولیت کا مقصد سماجی انصاف اور مساوات کو فروغ دینا تھا اور میرا کام اندرون اور بیرون ملک لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لایا ہے۔
ہلال: آپ کسی برطانوی شہر کے پہلے پاکستانی نڑاد میئر تھے۔ کیا آپ ہمیں اس تجربے کے بارے میں مزید بتا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر جیمز شیرا: جی ہاں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، میں 1988 میں رگبی کا میئر منتخب ہوا اور کسی برطانوی شہر کا پہلا پاکستانی نڑاد میئر بن گیا۔ یہ ایک ناقابل یقین تجربہ تھا اور مجھے اس کردار میں کمیونٹی کی خدمت کرنے پر فخر تھا۔ میں نے اپنے دور میں پاکستانی اور برطانوی برادریوں کے مابین ثقافتی تبادلے اور تفہیم کو فروغ دینے کے لیے کام کیا۔ میرا سب سے اہم مقصد ہمیشہ بغیر کسی امتیاز کے کمیونٹی کی خدمت کرنا رہا ہے۔ میں کئی سالوں سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مساوات اور تنوع کو مکمل عزم کے ساتھ فروغ دے رہا ہوں -96 سیاسی ، سماجی اور ثقافتی طور پر۔ میں برادریوں کے درمیان پل تعمیر کرنے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔
میں نے 2005 سے 2022 تک رگبی میں لیبر گروپ کی قیادت بھی کی ہے۔ 2014 میں میں نے رگبی کونسل کے ‘بین وارڈ’ سے لگاتار 10 ویں بار کونسلر منتخب ہو کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ میں نے 2010 سے 2014 تک رگبی بورو کونسل کے چیئر جائزہ اور اسکروٹنی بورڈ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
رگبی کے لوگوں کے لیے میری خدمات کے اعتراف میں رگبی بورو کونسل نے مجھے بورو آف رگبی کے فری مین کا باوقار اعزاز دیا تھا۔
اس کے علاوہ واروک شائر کالج کے فیلوز کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے میری کوششوں کے اعتراف میں رگبی میں ایک سڑک کا نام جیمز شیرا وے رکھا گیا ہے جس سے میں واحد زندہ شخص اور اس اعزاز سے لطف اندوز ہونے والا پہلا پاکستانی بن گیا ہوں۔ اس سے پہلے ایک سڑک کا نام مہاتما گاندھی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ مجھے 2010 میں بیڈفورڈشائر یونیورسٹی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹر آف بزنس اینڈ ایڈمنسٹریشن سے نوازا گیا۔ مجھے فخر ہے کہ میری لگن، محنت اور دیانت داری کی وجہ سے مجھ جیسا سادہ سا پاکستانی بیرون ملک میں اتنی عزت اور پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
ہلال: آپ کئی دہائیوں سے سیاست سے وابستہ ہیں۔ کس چیز نے آپ کو سیاست میں شامل ہونے کی ترغیب دی، اور آپ کے خیال میں سیاست دان بین الثقافتی تبادلے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر جیمز شیرا: میں سیاست میں اس لیے آیا کیونکہ میں قائد اعظم محمد علی جناح سے متاثر تھا۔ وہ سیاست میں میرے رول ماڈل ہیں۔ میں کمیونٹی کے لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالنا چاہتا تھا۔ بین الثقافتی تبادلے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں سیاست دانوں کا اہم کردار ہے۔ ان کے پاس ایسی پالیسیوں کو تشکیل دینے کی طاقت ہے جو بین الثقافتی تبادلے اور تفہیم کے لیے سازگار ماحول پیدا کرسکتی ہیں۔ سیاست دان برادریوں کے درمیان پل تعمیر کرسکتے ہیں، تنوع کو فروغ دے سکتے ہیں اور مکالمے اور تعاون کے ذریعے ثقافتی اختلافات کی خوشی منا سکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ سیاست دان تنوع کی اہمیت کو تسلیم کریں اور زیادہ جامع معاشرے کی تشکیل کے لیے کام کریں۔
ہندوستان میں مسلم اور عیسائی اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہیاس سے مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ سینکڑوں عیسائی منتشر ہو گئے اور ان سے کہا گیا کہ یا تو اس علاقے کو چھوڑیں یا اپنے عقیدے کو۔ معصوم متاثرین کو قبائلی ثقافت کی پیروی کرنے یا تشدد کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ملک بھر میں پرامن برادریوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کے بارے میں معلومات بہت افسوسناک ہیں۔ ہندوستان بین المذاہب ہم آہنگی میں بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سیاسی قیادت اور ان کی پالیسیوں کو تاریخ میں ‘تیسرے درجے’ کے رہنماؤں کے طور پر یاد کیا جائے گا جس سے ان کا ملک ‘تیسرا طبقہ’ بن جائے گا۔ مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہندوستانی صدر جو خود ایک قبائلی/ اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اس طرح کے گھناؤنے جرائم پر خاموش رہتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اقلیتوں کی محرومی کی وسعت اور سنگینی کو بہت سے دوسرے لوگوں سے زیادہ اچھی طرح سمجھتی ہیں، لیکن وہ جنگجوؤں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ کمیونٹیز کی خدمت کے مواقع سے نمٹنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری بلا شبہ ملک کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔
یہ پاکستان میں ہمیشہ سے مختلف رہا ہے۔ میں اپنی ابتدائی تعلیم کے لیے ایک مسلم مدرسے میں پڑھتا رہا لیکن کسی نے مجھے کبھی مذہب تبدیل کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا۔ جی ہاں، دور دراز دیہی علاقوں میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو قابل مذمت ہیں۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں یا اداروں یا عدلیہ نے کبھی بھی مجرموں کا ساتھ نہیں دیا۔ اس سے پاکستان کی اقلیتوں کو پاکستان کی ثقافت اور روایات کو اپنانے کی امید ملتی ہے۔
ہلال: تعلیم میں آپ کا کردار قابل ستائش ہے۔ کیا آپ ہمیں پاکستان کے مختلف اسکولوں اور کالجوں کے بورڈ آف گورنرز میں خدمات انجام دینے کے اپنے تجربے کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر جیمز شیرا: جی ہاں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے برطانیہ اور پاکستان کے مختلف اسکولوں اور کالجوں کے بورڈ آف گورنرز میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ میں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا کہ جن اداروں کی میں نے خدمت کی وہ اپنے طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کریں۔ میں نے اداروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ زیادہ جامع ہوں اور متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلباء کو مواقع فراہم کریں۔
میرا تعلیمی پس منظر تعلیم میں میرے کیریئر میں اہم رہا ہے ، جہاں میں نے برطانیہ کے متعدد تعلیمی اداروں میں ایک استاد ، ہیڈ ماسٹر اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔
تعلیم میں میرا کیریئر جاری رہا ، اور میں نے بہت عاجزی سے کئی کلیدی عہدوں پر کام کیا ، جیسے 1987 سے 1995 تک واروک شائر کاؤنٹی کونسل میں بین الثقافتی تعلیم کے لیے کاؤنٹی ایڈوائزر اور 1995 سے 2011 تک انٹر کلچرل کریکولم سپورٹ سروس (آئی سی ایس ایس) کا ڈائریکٹر رہا۔ ان اہم عہدوں پر فائز رہتے ہوئے مجھے فنڈز جمع کرنے اور پھر ان کے مناسب استعمال کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ایک زمانے میں 2 ارب پاؤنڈ کا بجٹ میرے پاس تھا اور میں نے اپنے فرائض کو مہارت اور عمدگی سے نبھایا۔
ہلال: بین الثقافتی تعلیم میں آپ کا اہم کردار رہا ہے۔ براہ مہربانی ہمیں واروک شائر کاؤنٹی کونسل میں بین الثقافتی تعلیم کے کاؤنٹی مشیر اور ڈائریکٹر انٹر کلچرل کریکولم سپورٹ سروس (آئی سی ایس ایس) کی حیثیت سے اپنے کام کے بارے میں مزید بتائیں۔
ڈاکٹر جیمز شیرا: بالکل۔ میں نے 1987 سے 1995 تک واروک شائر کاؤنٹی کونسل میں بین الثقافتی تعلیم کے لیے کاؤنٹی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس کردار میں، میں نے بین الثقافتی تعلیم سے متعلق امور پر اسکولوں اور کالجوں کو مدد اور رہنمائی فراہم کرنے کے لیے کام کیا. بعد میں، مجھے انٹرکلچرل کریکولم سپورٹ سروس (آئی سی ایس ایس) کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا، جو 450 اسکولوں اور کالجوں کو بین الثقافتی مدد کے لیے اسٹریٹجک قیادت فراہم کرتا ہے۔ میں نے اپنے لیے جو مقصد مقرر کیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ سیاہ فام اور اقلیتی نسلی (بی ایم ای) طالب علموں، خانہ بدوش روما ٹریولرز اور یورپی یونین کے ملکوں اور دنیا بھر سے نئے آنے والوں کی کامیابیوں کو اجاگر کر یں۔
ہلال: آپ کو آپ کے فلاحی کاموں کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ کیا آپ ہمیں جیمز شیرا فاؤنڈیشن اور اس کے مقاصد کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر جیمز شیرا: جی ہاں۔ میں نے جیمز شیرا فاؤنڈیشن قائم کی جو پاکستان میں تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔ یہ ایک خیراتی تنظیم ہے جو میں نے سب کے لیے تعلیم کو فروغ دینے اور ضرورت مندوں کو صحت کی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرنے کے لیے قائم کی ہے۔ فاؤنڈیشن ان مستحق طلباء-04 کو اسکالرشپ فراہم کرتی ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہم زچہ و بچہ کی صحت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پاکستان میں پسماندہ طبقات کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ ہم نے ایک اہم اثر ڈالا ہے، اور ہم مستقبل میں اپنے کام کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ فاؤنڈیشن نے جن اقدامات کی حمایت کی ہے ان میں اسکولوں کی تعمیر، پسماندہ طلباء-04 کو وظائف کی فراہمی اور دیہی علاقوں میں میڈیکل کلینک قائم کرنا شامل ہیں۔ ہمارا مقصد پاکستان میں لوگوں، خاص طور پر پسماندہ اور کمزور لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کرنا ہے۔
ہلال: آپ نے اپنے کیریئر کے دوران بہت سے ایوارڈز اور اعزازات حاصل کیے ہیں۔ آپ کون سے ایوارڈز یا اعزازات کو خاص طور پر اپنے دل کے قریب رکھتے ہیں؟
ڈاکٹر جیمز شیرا: مجھے جتنے بھی ایوارڈز اور اعزازات ملے ہیں وہ اہم ہیں، لیکن کچھ خاص طور پر میرے دل کے قریب ہیں۔ پہلا ایم بی ای ہے ، جو مجھے 2007 میں ملا تھا۔ مجھے ملکہ الزبتھ دوم کی جانب سے تعلیم اور بین الثقافتی تعلقات میں میری خدمات کے اعتراف کا اعزاز دیا گیا۔ دوسرا ایوارڈ جو میرے دل کے قریب ہے وہ ہلال قائد اعظم ایوارڈ ہے جو مجھے صدر پاکستان کی طرف سے ملا۔ اپنے آبائی ملک سے یہ سول ایوارڈ حاصل کرنا ایک بہت بڑا اعزاز ہے، اور یہ میرے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔ آخر میں، بیڈفورڈشائر یونیورسٹی اور ایف سی کالج یونیورسٹی سے مجھے ملنے والی اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں بھی اہم ہیں کیونکہ وہ تعلیم اور بین الثقافتی تعلقات میں میری خدمات کو تسلیم کرتی ہیں۔
ہلال: آپ پاکستان کی طاقت کیا دیکھتے ہیں اور کیا چیز مستقبل کے بارے میں آپ کو کیا دیتی ہے؟
ڈاکٹر جیمز شیرا: پاکستان بہت مہمان نواز ملک ہے۔ اس کی متعدد طاقتیں ہیں ، جیسے اس کا موسم ، علاقہ ، دریا ، میدان اور پہاڑ۔ اس کے پاس سب کچھ ہے۔ ہمیں صرف اس کو وہ پاکستان بنانے کی ضرورت ہے جس کا جناح نے تصور کیا تھا۔ ہماری سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمارے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے۔ مجھے اس وقت دکھ ہوتا ہے جب پاکستان اور اس کی مسلح افواج کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹی خبریں اور پروپیگنڈا پھیلایا جاتا ہے۔ ہماری فوج کے پاس شہادت اور قربانیوں کا ورثہ ہے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ ہماری فوج ایک حقیقی نجات دہندہ اور خدا کا آلہ کار ہے۔ جب تک ہمارے پاس یہ مضبوط فوج ہے دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی۔ آپ مجھے بتائیں کہ کتنی بڑی طاقتیں دہشت گردی کو شکست دے سکتی ہیں جیسا کہ پاکستان نے کیا ہے۔ یہ ایک نعمت ہے کہ کم از کم ہمارے پاس ایک مضبوط فوج ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم موجودہ منظر نامے سے واپس نکلیں گے۔ ایک اور طاقت ہمارے نوجوانوں کی ہے۔ ہمیں ان سے استفادہ کرنے، انہیں ہنر سکھانے اور انہیں اچھی تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپ میں عمر رسیدہ آبادی ہے اور پاکستانی نوجوانوں کے پاس ان ممالک میں اپنا مستقبل بنانے کی بہت گنجائش ہے، بشرطیکہ وہ اچھی طرح سے تیار اور تعلیم یافتہ ہوں۔
ہلال: آخر میں آپ پاکستان کے نوجوانوں کو کیا مشورہ دیں گے؟
ڈاکٹر جیمز شیرا: میں نے ہمیشہ پاکستانیوں خصوصاً نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ سخت محنت کریں اور اپنے کام کی ذمہ داری لیں۔ ہمیشہ پاکستان اور اس کے عوام کے بارے میں سوچیں۔ میں نے اپنی زندگی اس مقصد کے ساتھ گزاری اور اس نے میری زندگی بدل دی۔ آپ بھی یہ کر سکتے ہیں۔تعلیم کامیابی کی کنجی ہے ، لہٰذا میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کریں اور اپنی صلاحیتوں اور علم کو فروغ دیں۔ فعال ہونا اور رضاکارانہ طور پر کام کرنے اور کمیونٹی تنظیموں میں شامل ہونے کے مواقع تلاش کرنا بھی ضروری ہے۔ تعاون کے ذریعے، نوجوان لوگ اپنی برادریوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں۔ آخر میں، ایک مثبت رویہ برقرار رکھنا اور مقصد کے لیے پرعزم رہنا ضروری ہے۔ مثبت اثر ڈالنے کے لیے صبر، استقامت اور سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس کیانعامات لامحدود ہیں۔ جو نوجوان اپنی زندگیوں میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ان کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اس میں شامل ہوں اور پاکستان کے مقصد اور جذبے سے وابستہ رہیں۔

انٹرویو لینے والا عملے کا ایک رکن ہے۔
Email: abbashaiderr212@gmail.com

تمام عقائدمیں دوستی منتشر دنیا کے لیے امید ہے
اسکارلٹ اسٹیونز (Scarlett Stevens)
صرف تین سال پہلے پیو ریسرچ سینٹر نے ایک سروے کے ذریعے معلوم کیا کہ امریکہ میں 55فیصد پروٹسٹنٹ مسیحیوں کا خیال ہے کہ اسلام اور جمہوریت فطری طور پر ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ میڈیا اکثر اس مبینہ عدم مطابقت کو برقرار رکھتا ہے، پھر بھی ان شروع میں مختلف نظر آنے والے لوگوں کے مابین بڑے رابطے موجود ہوسکتے ہیں۔ بہت سے امریکی مسیحی دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ قابل قدر تعلقات نہیں رکھتے اور وہ یہ دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ مسلمانوں کی بہت سی امیدیں اور خوف ، اقدار اور جذبات بھی انہی کی طرح ہیں۔
بین المذاہب تعلقات کے سب سے پرامید نمونوں میں سے ایک ڈاکٹر جیمز “جم” شیرا کا ہے جو 25 جون کو اپنے معزز ساتھی اور عزیز دوست سفیر اکبر احمد کے ساتھ “گیٹ وے گزٹ ود جون بوسکو ” پر نمودار ہوئے۔ بہت کم امریکی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر شیرا کون ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کو انہیں ایک قابل ذکر اسکالر اور مسیحی کے طور پر دیکھنا چاہیے جو مذہبی رواداری کو فروغ دیتے ہیں۔ اس سے قبل وہ برطانیہ میں رگبی کے پہلے پاکستانی میئر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں جو اسی نام کیایک کھیل کی جائے پیدائش ہے۔ ستار? پاکستان سے نوازے جانے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکہ برطانیہ کی جانب سے بھی اعزاز سے نوازا گیا اور وہ مسلسل دس بار بین وارڈ کونسلر کے طور پر دوبارہ منتخب ہوئے۔ “گیٹ وے گزٹ” میں ان کی موجودگی کی صبح میری ڈاکٹر شیرا سے ایک حیرت انگیز گفتگو ہوئی جس کے دوران انہوں نے بین المذاہب مکالمے پر مشتمل اپنے طویل کیریئر کے ساتھ ساتھ سفیر احمد کے ساتھ اپنی قیمتی دوستی پر بھی روشنی ڈالی جو چار دہائیوں پر محیط ہے۔ ان مثالی ذہنوں کے درمیان تعاون نے بین المذاہب مکالمے اور مذہبی رواداری کے شعبوں میں متعدد اہم خدمات کو جنم دیا ہے۔
سفیر احمد کے کیریئر کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک 1998ء-04 میں کرسٹوفر لی کی اداکاری والی فلم جناح کی تیاری تھی۔ پردے کے پیچھے، ڈاکٹر شیرا نے سفیر احمد کے ساتھ سفر کیا اور سڑک پر اپنی پنجابی حس مزاح کا استعمال کرتے ہوئے دانشمندی اور خلوص کے ساتھ مشکل سوالات کے جوابات دیے۔ انہوں نے اپنے دوست کے فلم پروجیکٹ کی جانب سے لابی کرتے ہوئے صدر پاکستان اور دیگر اہم حکام سے ملاقات کی۔ فلم کی ریلیز کے بعد کے سالوں میں ، ہدایت کار کو دیے گئے غیر متناسب کریڈٹ کے بارے میں تنازع رہا۔ سفیر احمد کے دفاع میں ڈاکٹر شیرا نے حال ہی میں ایکسپریس ٹریبیون کے ایڈیٹر کو “اکبر احمد کا جناح” کے عنوان سے ایک خط لکھا تھا۔ اس خط میں انہوں نے اس تنازع کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ‘میرے خیال میں ڈاکٹر احمد کے نام کے بغیر فلم کی نمائش کسی ایسے شخص کی شراکت، عزم اور محنت کو نظر انداز کرنے کا ایک انتہائی ناپسندیدہ طریقہ ہے جو فلم کا معمار تھا اور جس نے اسے ممکن بنانے میں بین الاقوامی سطح پر مدد کی تھی۔’
لیکن ان کا تعاون یہیں ختم نہیں ہوا۔ سفیر احمد کی جانب سے ڈاکٹر شیرا کو آکسفورڈ یونین ڈیبیٹ سوسائٹی میں اپنے علم کی دولت بانٹنے کا ناقابل یقین موقع ملا، جب سفیر اس دعوت نامے سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں تھے لیکن انہوں نے درخواست کی کہ ڈاکٹر شیرا ان کی نمائندگی کریں۔ سفیر احمد نے ایک ایسے ترجمان کی تلاش کی جو 1990 ء-04 کی دہائی میں “ہمدردی اور علم کے ساتھ” اسلام کی نمائندگی کرے اور ایک مسیحی کی حیثیت سے ڈاکٹر شیرا نے اسلام اور جمہوریت کی مطابقت پر زور دیا۔ سفیر احمد نے ترکی کے شہر استنبول میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والی کانفرنس میں خطاب کرنے کے لیے اپنی جگہ ڈاکٹر شیرا کا انتخاب کیا جسے وہ اپنے کیریئر کی سب سے مشکل تقریری مصروفیات میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر شیرا نے یاد دلایا کہ وہ بات کرنے میں بہت گھبراتے تھے، خاص طور پر چونکہ اقوام متحدہ عالمی سطح پر بہت اہم بین المذاہب کام کرتی ہے، لیکن کئی طویل سیشنز کے بعد ان کے دوست نے انہیں پْریقین بنا دیا۔
ان کیگفتگو کرنے اور تنظیمی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر سفیر احمد نے ایک بار پھر ڈاکٹر شیرا کو پاکستان سوسائٹی کا سربراہ مقرر کیا جو 1951 ء-04 میں برطانیہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ ڈاکٹر شیرا نے نہ صرف رگبی کو میئر کی حیثیت سے زیادہ روادار جگہ بنانے کا تہیہ کیا بلکہ انہوں نے بانی محمد علی جناح کے نظریات سے وفادار پاکستان کو فروغ دینے کے لئے بھی ڈاکٹر احمد کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔
ڈاکٹر شیرا نے کہا کہ جناح کا پاکستان مثالی پاکستان تھا۔ انہوں نے مذہبی تکثیریت اور رواداری کے ایک شاندار ملک کا تصور پیش کیا۔
وسیع تر انسانیت کے لیے سرگرمیوں میں ان کے کام کے اعزاز میں ڈاکٹر شیرا اور سفیر احمد کو کینٹربری کے آرچ بشپ ڈاکٹر روان ولیمز نے لیمبیتھ پیلس میں مدعو کیا تھا ، جو ان کے آخری بین المذاہب اجتماعات میں سے ایک ہوگا۔ اس تقریب میں ڈاکٹر شیرا نے اپنے دوست کے بارے میں کہا: “ایک جنوبی ایشیائی مسیحی ہونے کے ناطے میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جنوبی ایشیا نے دو اکبر پیدا کیے ہیں- اکبر اعظم، شہنشاہ جس نے ہندوستان کو متحد کیا، اور اکبر احمد، جو تحقیق اور علم کے ذریعے قوموں کے درمیان امن اور ہم آہنگی لاتا ہے۔ اکبر جسے میں کئی دہائیوں سے جانتا ہوں وہ میرا بھائی اور ہیرو ہے۔ وہ پوری انسانیت سے تعلق رکھتا ہے”۔
سفیر احمد نے اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ ان کی امن کی تلاش اور ڈاکٹر شیرا جیسے افراد کی تلاش آنے والی نسلوں تک جاری رہے گی۔ سفیر احمد کی بیٹی ڈاکٹر امینہ ہوتی نے بھی گزشتہ برسوں کے دوران ڈاکٹر شیرا کے ساتھ مضبوط تعلق استوار کیا ہے۔ ڈاکٹر شیرا نے اسلام اور بین المذاہب امن کے بین الاقوامی اسکالر کی حیثیت سے ہوتی کے کیریئر کے بارے میں کہا، “وہ اپنے والد سے مشعل لے رہی ہیں”۔ اگرچہ ڈاکٹر ہوتی ایک مضبوط مسلمان ہیں لیکن وہ ڈاکٹر شیرا کو ایک “روحانی باپ” اور ایک قریبی خاندانی دوست سمجھتی ہیں۔ برطانیہ اور مسلم دنیا میں ان کے بین المذاہب کام کا تسلسل ان عظیم شخصیات کی وراثت کا احترام کرتا ہے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد کے لیے مذہبی تکثیریت کے سفیر کے طور پر کام کرنے کی مثال قائم کی ہے۔ ان کی حالیہ کتاب “جیمز اینڈ جیولز: دی ریلیجنز آف پاکستان” ہے جس میں ملک کے اقلیتی عقائد کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر شیرا کا اکثر حوالہ دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر شیرا اکثر مذاق کرتے ہیں کہ مختلف عقائد کے تین دوستوں کی دوستی پر مبنی بالی ووڈ فلم امر اکبر انتھونی کو جیمز اکبر امینہ کے ساتھ اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر شیرا اور سفیر احمد کے درمیان دوستی اس وقت مزید پختہ ہوئی جب احمد نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ سفیر احمد کے دفتر میں اپنے معمول کے لنچ کو دیکھتے ہوئے، بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ کمشنر کے ساتھ کھانا ایک شاندار تقریب ہوگی، لیکن اس کے بجائے زیادہ تر چیزیں معمولی تھیں۔ احمد نے مزاحیہ انداز میں اپنے شاندار کھانے کی کمی کو یاد کرتے ہوئے کہا ” کوئی بریانی نہیں، صرف سادہ سینڈوچ”۔ ڈاکٹر شیرا اپنے خیالات میں اپنے پیارے دوست سفیر کے بارے میں اس سے زیادہ اچھی باتیں نہیں کہہ سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اکبر پوری انسانیت کا آدمی ہے۔ ڈاکٹر شیرا نے اس بات پر زور دیا کہ سفیر احمد ان بہت سے اعزازات کے مستحق ہیں جو انہیں ملے ہیں اور یہاں تک کہ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ وہ بین المذاہب “میل جول” کے لیے اپنی محنت اور لگن کے لیے نوبل امن انعام کے مناسب وصول کنندہ ہوں گے۔ یہ سن کر سفیر نے عاجزی سے اصرار کیا کہ یہ ڈاکٹر شیرا ہی ہیں جنہیں نامزد کیا جانا چاہیے۔ ان دونوں کی دوستی کے بعض ناقدین نے نیم مزاحیہ انداز میں کہا ہے کہ “ڈاکٹر شیرا نے ڈاکٹر احمد کو عیسائی اور ڈاکٹر احمد نے ڈاکٹر شیرا کو مسلمان بنا دیا ہے”۔ لیکن ایک دوسرے کے مذہب کو تبدیل کرنے کے بجائے اس جوڑے نے اپنے عقائد پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ذہنوں کو وسعت دی ہے۔
سفیر احمد اور ڈاکٹر شیرا کے درمیان “بین المذاہب بھائی چارہ” ظاہر کرتا ہے کہ بعض اوقات سب سے زیادہ تعلقات ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو ہمارے عقائد اور نظریات کو چیلنج کرتے ہیں۔ چار دہائیوں کی دوستی کے بعد دونوں اب بھی باقاعدگی سے بات کرتے ہیں، واشنگٹن ڈی سی میں سفیر احمد اور رگبی، برطانیہ میں ڈاکٹر شیرا۔ عدم رواداری، عدم مساوات، غربت اور ناانصافی اب بھی انہیں پریشان کرتی ہیں۔ نسلی تناؤ، سیاسی پولرائزیشن اور کووڈ 19 کے اجتماعی خطرے کے درمیان، ہر ایک کو اپنے عقائد سے بالاتر ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر شیرا نے کہا کہ کورونا وائرس کسی شخص کے مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کرتا اور اس کی وجہ سے ہمیں ایک متحدہ محاذ بننا چاہیے اور اس وبائی مرض کو لوگوں اور قوموں کو مزید الگ کرنے کے بجائے ایک ساتھ لانے کے موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ ”وہ سینٹ جیمز ہیں” سفیر احمد سوچ سمجھ کر کہتے ہیں۔
میرا آبائی شہر شارلٹس ویل، وی اے سے دو گھنٹے سے بھی کم فاصلے پر ہے جو اس ملک میں پرتشدد نسلی تنازعات کی بدترین وباؤں میں سے ایک کا مقام ہے۔ امریکہ میں ایک نوجوان خاتون کی حیثیت سے میں جانتی ہوں کہ سرنگ کے آخر میں روشنی دیکھنا اور ایک ایسی جگہ پر حب الوطنی تلاش کرنا کتنا مشکل ہوسکتا ہے جو نفرت سے بھری ہوئی ہو۔ تاہم سفیر احمد اور ڈاکٹر شیرا کے درمیان دل کو چھولینے والے اتحاد آنے والی نسلوں کے لیے تسلی اور انمول سبق بھی رکھتے ہیں۔ مختلف مذاہب سے ہونا ان دونوں پاکستانیوں کے لیے دوستی اور کام کے والے تعلقات کی تلاش رکاوٹ نہیں بنا ، ان تعلقات نے انہیں دنیا کو یہ دکھانے کے قابل بنایا کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان امن کیسا ہوسکتا ہے۔
اگر امریکہ کے نوجوان اسکالرز کھلے دل و دماغ کے ساتھ ایک دوسرے سے رابطہ کر سکیں، تبھی وہ علم، ہمدردی اور مذہبی رواداری کے ساتھ روشن مستقبل کو روشن کرنے کے لیے ‘میل جول’ کی اس مثال کو استعمال کر سکیں گے۔
بلیک لائیوز میٹر تحریک کے حوالے سے ایگزیکٹو برانچ کی جانب سے ہمدردی کی کمی اور کووڈ-19 کے غیر سفید فام برادریوں پر پڑنے والے اثرات کا مقابلہ ان لوگوں کی زبردست امید کے ساتھ کیا جانا چاہیے جو ریاستوں کو دوبارہ متحد کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی اس دوستی کو مسیحیوں اور مسلمانوں، سفید فام لوگوں اور بی آئی پی او سی کے درمیان پل تعمیر کرنے کے لیے ترغیب کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ اس پیچیدہ وقت کے دوران ڈاکٹر شیرا کا آخری سبق سادہ تھا: “ہمیں، اب پہلے سے کہیں زیادہ، ایک دوسرے سے سیکھنا ہوگا”۔
اسکارلٹ اسٹیونز امریکن یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل سروس میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہیں۔ ان کا تعلق ورجینیا کے شہر روانوک کے بلیو ریج پہاڑوں سے ہے اور انہیں نسل، مذہب اور ثقافت کا مطالعہ کرنے کا شوق ہے۔

قوم کے اصل ہیرو
ڈاکٹرجیمز شیرا کے فکر انگیز خیالات
میں نے پاکستان کے انتخابی نظام اور اقلیتوں کے مسائل کے حوالے سے اعظم معراج صاحب کا تبصرہ پڑھا ہے۔ انہوں نے بڑے واضح اور صاف انداز میں بیان کیا ہے۔ میں اسے دوبارہ پڑھ رہا ہوں۔
مجھے حیرت ہوئی کہ ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جو اتنا درد رکھتے ہیں اور اتنی تفصیل میں جا کر اپنی قوم پر اثرانداز ہونے والی چیزیں بیان کر رہے ہیں۔ اور ایک ہم لوگ ہیں کہ سوئے ہوئے ہیں جو نہ پڑھتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ کسی سے شیئر کرتے ہیں۔
خدارا اعظم معراج کی کتابیں لو اور پڑھو اور دیکھو کہ اس شخص نے کتنی محنت کر کے سوئی ہوئی قوم کو جگانے کی کوشش کی ہے اور مسیحیوں کو بتایا ہے کہ تمہارا مستقبل کیا ہے، ماضی کیا تھا اور تم نے کیا کیا حصہ ڈالا ہے اور اس پر فخر کرو۔ جو خرابیاں ہیں ان کو حل کرنے کے لیے تاریخی علم اور تذکرہ و تجزیہ ہونا چاہیے اور یہ سب آپ کو ان کتابوں میں ملے گا خاص طور پر جو دستوری تبدیلیاں پاکستان میں آئی ہیں ان کو سمجھو اور دیکھو کہ مسیحیوں کی نمائندگی کہاں سے شروع ہوئی۔ انہوں نے 1947ء سے اب تک بڑی تفصیل سے تجزیہ کیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں ایسے سپوت ہماری قوم کے ہیرو ہیں۔ اصل ہیرو وہ ہے جو قوم کے لیے درد رکھتا ہے اور اس کے لیے کام کرتا ہے۔ اس شخص نے اپنی جیب سے پیسے لگا کر ہمیں اس ریسرچ سے مستفید کیا ہے جو پاکستان میں کسی لائبریری سے ملنا مشکل ہے۔
میری دعا ہے کہ خدا ان کو زندگی بخشے اور ہمت و طاقت بخشے تاکہ یہ اپنا کام جاری رکھیں اور قوم کے ایشوز کو نمایاں کریں۔ یہ بڑا ضروری ہے اور یہ کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دی ہیں چاہے وہ پاکستانی افواج میں ہیں، انتظامی عہدوں پر ہیں یا دوسرے فلاحی شعبوں میں ہیں یا شعبہ تعلیم میں ہیں ان کو بھی انہوں نے بڑی تفصیل سے اپنی کتابوں میں نمایاں کیا ہے۔ یہ ایک خزانہ ہے۔ اس خزانے کو جب تک کھول کر نہیں دیکھیں گے یہ علم آپ کو نہیں مل سکے گا۔ کوشش کریں کہ ان کی کتابوں کو لے آئیں۔ لائبریری سے نہیں ملتیں تو بازار سے لے آئیں اور ان کو پڑھیں اور بچوں کو بھی دیں اور دوستوں کو بھی دیں تاکہ سب کو علم ہو کہ ملک کے لیے ہماری قربانیاں کیا ہیں، ملک کے لیے ہم نے کیا کرنا ہے اور ملک کو کیسے آئیڈیل اسٹیٹ بنانا ہے جو محمد علی جناح کے خواب و خیال کے مطابق ہو کہ ‘‘پاکستان کسی ایک کے لیے نہیں، پاکستان سب کے لیے ہے۔ اس میں آپ اپنی مسجدوں، مندروں اور کلیسوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ مذہب کا کاروبارِ ریاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ سب سے پہلے آپ پاکستانی ہیں پھر مسلمان یا مسیحی۔’’
میں سمجھتا ہوں انتخابی نظام پر ان کا تبصرہ بہت قابل توجہ ہے کہ ہمیں کیسا ووٹ سسٹم چاہیے، کیسے نمایندے چاہئیں اور اس کے لیے انہوں نے تجاویز بھی دی ہیں کہ ان کے اثرات معاشرے پر کیا ہوں گے۔ خدا را میری اپیل ہے کہ آپ ان کتابوں کو پڑھیں اور دوسروں کو پڑھوائیں تاکہ ا ن کو ہمت ملے کہ اپنے قومی مفاد کو سمجھیں اور انتخابیوں خامیوں کو دور کرواسکیں اور مل جل کر پاکستان کو ایک آئیڈیل اسٹیٹ بنا سکیں جس میں ہر ایک کو رہنے کا حق ہو ہر ایک کو جینے کاحق ہو ہر ایک کو خوش حال ہونے کا حق ہو ہر ایک کو مذہبی آزادی ہو اور ہر ایک کا تحفظ ہو اور ہر کوئی لگن اور شوق سے اپنے ملک کی خدمت کر سکے۔
جہاں کہیں بھی آ پ کی رسائی ہے اور جس کمیونٹی میں بھی آپ کام کر رہے ہیں وہاں ان کتابوں کو پروموٹ کریں۔ یہ شخص دن رات جس لگن سے کام کررہا ہے اس سے اس کا مقصد پیسہ بنانا نہیں۔ میری ملاقات حال ہی میں ان سے ہوئی ہے۔ ہر ہفتے فون کرتے ہیں اور کوئی نہ کوئی نیا موضوع بھیجتے رہتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں ہماری قوم میں ایسے سپوت بھی ہیں ایسی لگن والی اور ذہین قیادت بھی ہے جس نے اپنے دن رات اپنی قوم کو جگانے کے لیے وقف کر دیے ہیں۔ قوم کو ان پر فخر کرنا چاہیے، ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور قوم کو ان کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ اپنے بچوں کو اس قابل بنا سکیں کہ وہ اپنا حق مانگ سکیں۔
میں اعظم معراج کا مشکور ہوں کہ انہوں نے لگن سے اور علمی مہارت سے یہ تحقیق کی ہے۔ وہ قوم کا فخر ہیں۔ مجھے آپ پر فخر ہے۔ پوری قوم تہ دل سے آپ کی مشکور ہے۔ میں پاکستان میں نہیں رہتا۔ میں انگلینڈ میں رہتا ہوں۔ پچھلے پچاس سال سے یہاں پر ہوں۔ یہاں پر رگبی کا میئر چنا گیا اور پچھلے چالیس سال سے شعبہ تعلیم میں رہا ہوں۔ آج کل ان کی کتابیں پڑھ رہاہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی کتابوں میں ہر لیول کے بچے کے لیے مواد مل سکتا ہے۔ تھوڑی سی محنت کر کے ہر عمر کے بچے لیے اسے موزوں بنایا جا سکتا ہے۔ یہ معلومات کا سمندر ہے۔ جتنا اس میں اتریں گے اتنا ہی نئی اور نایاب چیزیں ملیں گی۔ اس ورثے کو محفوظ کریں۔ اس شخص کی عزت کریں۔ اس کا ساتھ دیں۔ حوصلہ افزائی کریں تاکہ یہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں قوم کے لیے کرتے رہیں۔ پاکستان کے نام کو اجاگر اور روشن کرتے رہیں تاکہ ہم مل جل کر پاکستان کو ایک آئیڈیل اسٹیٹ بنا سکیں جس میں مسیحیوں کی عزت ہو، وقار ہو اور انہیں دل سے تسلیم کیا جائے۔ جو کچھ ہم نے کرنا ہے خود ہی کرنا ہے جب تک ہم پاکستانی نہیں سمجھیں گے کہ ہم میں بھی خرابیاں ہیں جب تک ہم نہیں سمجھیں گے کہ ہمارے حقوق کیا ہیں ہم کیا کام کر سکتے ہیں اس وقت تک کوئی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دے گا۔ تو محنت کرو اور پھل پاؤ۔ بچوں کو بھی تعلیم دو اور تعلیم آگے منتقل کرو۔ اس شخص نے جو تحقیق آپ کے لیے کی ہے اس کو استعمال کرو اور اس کی قدر کرو۔ یہ قیمتی اثاثہ ہے۔ اپنے خاندان اور قوم کی رہنمائی ان معلومات سے کر سکتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد۔ اعظم معراج زندہ باد۔
خدا اس سپوت کو ہمیشہ تندرستی اور سلامتی بخشے۔ آمین۔

جیمز شیرا
سابقہ مئیر رگبی برطانیہ ،ایم بی ای،ستارہ پاکستان ،ہلال قائد اعظم ،

نغمہ شناخت
اس دھرتی کے بچے ہو تم
صدیوں سے اس کے واسی بھی
آزادی کے سپاہی ہو تم
قائد کے ہمراہی بھی
وطن کے ہو سپاہی تم
قوم کے معمار بھی
قابل فخر قابل دید
محافظ، غازی اور شہید
شہداء کے وارث ہو تم
ساتھی حیدران کے بھی
ھلال جرات کے استعارے
ہو جرات کے ستارے بھی
نشان بسالت کے ہو تم
ہو شان سبز و سفید کی
اے پاکستان کے مسیحیو
جانو اور پہچانو تم
دھرتی سے نسبت کو بھی
اپنے اس ورثے کو تم
اپنی اس شان کو بھی
اپنی اس پہچان کو تم
اپنی اس شناخت کو بھی

Advertisements
julia rana solicitors london

اعظم معراج
29-08-2017
نغمہ شناخت
اس دھرتی کے بچے ہو تم
صدیوں سے اس کے واسی بھی
آزادی کے سپاہی ہو تم
قائد کے ہمراہی بھی
وطن کے ہو سپاہی تم
قوم کے معمار بھی
قابل فخر قابل دید
محافظ، غازی اور شہید
شہداء کے وارث ہو تم
ساتھی حیدران کے بھی
ھلال جرات کے استعارے
ہو جرات کے ستارے بھی
نشان بسالت کے ہو تم
ہو شان سبز و سفید کی
اے پاکستان کے مسیحیو
جانو اور پہچانو تم
دھرتی سے نسبت کو بھی
اپنے اس ورثے کو تم
اپنی اس شان کو بھی
اپنی اس پہچان کو تم
اپنی اس شناخت کو بھی !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply