2023ء کا سال میرے لیے بہت اہم ہے، اور جی نہیں چاہتا کہ یہ ختم ہو، مگر آٹھواں مہینہ آ چکا ہے۔ اسی سال کے شروع میں ول ڈیورانٹ پروجیکٹ کا آغاز کیا، پھر کتاب کہانی کے دو ایڈیشن شائع ہوئے، اور تہذیب کی کہانی کی پہلی جلد ہی شائع ہوئی ہے۔ ا
بھی حیرتیں اور مسرتیں مل کر تبصروں کی صورت میں آتی رہتی ہیں، اور مجھے کتاب کہانی کو دوبارہ جانچنے اور پرکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔
میں مانتا ہوں کہ جاوید صاحب نے کتاب کہانی کے بالکل درست رنگ کو پکڑا ہے۔ یہ ایک سیاسی اور نظریاتی آپ بیتی ہے۔ اِس میں جو ’’غصہ‘‘ یا ’’زہر‘‘ یا ’’تلخی‘‘ ہے وہ اپنے عہد اور اِس کے ادھورے ننگے پن پر ہے۔ ترجمہ ایک سیاسی عمل ہے۔ جب آپ ایک کتاب کو ترجمہ کرنے کے لیے منتخب کرتے ہیں، تو یہ فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ دو تہذیبوں کا مکالمہ یا معانقہ کس سطح پر کروانا ہے۔ میرے لیے لکھنا ہمیشہ ایک سیاسی عمل رہا ہے۔ غیر سیاسی تحریر کوئی نہیں ہوتی۔
نظریاتی یا کسی بھی طرح کا سپورٹ سسٹم کا نہ ہونا رہنا 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں جوان ہونے والوں کا سب سے بڑا دکھ تھا۔ سارا معاشرہ تلپٹ ہو رہا تھا۔ اور اب تو تلپٹ ہونے کا مطلب یا احساس تک مٹ گیا ہے۔ غصہ یہ تھا کہ اتنے بڑے گندے نالے کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی چھوٹی سی شفاف دھارا کہاں گئی؟
کتاب کہانی یہ انتقام سے زیادہ تبصرہ ہے، ریکارڈ ہے، یاد داشت ہے، اور ظاہر ہے کہ ایک تلخ، گرتے ہوئے، بوسیدہ اور سڑاند زدہ معاشرے کی یادداشت خوشگوار کیسے ہو سکتی ہے؟ جن کرداروں کو میں نے بیان کرنے کے لیے چنایا وہ خود بخود سامنے آن کھڑے ہوئے، وہ زندگی کے سِکے کے دو رخ ہیں، کامیڈی اور ٹریجڈی۔ مارکس نے کہا تھا کہ عظیم لوگ دو بار جنم لیتے ہیں: پہلے بطور ٹریجڈی اور دوبارہ بطور کامیڈی۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہم ہر عشرے میں جنم لیتے رہے، اور ہمیشہ کامیڈی بن کر۔

جاوید ملک صاحب پاکستانی لیفٹ کے بہت سے اندر سے لوگوں کو جانتے ہیں، اس لیے کتاب کہانی کو بہت اچھی طرح جانچ پائے۔ مگر لکھنے والے کی تلخی کم نہیں ہونی چاہیے۔ اِسے بڑھاتے رہنا چاہیے۔ میٹھی باتیں کرنے والے کم ہیں کیا؟ مگر اگلا کام جب بھی آئے گا، اور رنگ میں ہو گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں