• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ’’ ایڈور ڈسعید : تاریخی آغاز ، الوہی ماخذ اور شرق شناسی‘‘/ناصر عباس نیّر

’’ ایڈور ڈسعید : تاریخی آغاز ، الوہی ماخذ اور شرق شناسی‘‘/ناصر عباس نیّر

گزشتہ اتوار ڈاکٹر شیر علی نے الحمد یونیورسٹی میں ’‘ایڈورڈ سعید کی شر ق شناسی ‘‘ پر ایک سیمینار منعقد کیا۔ مجھے کلیدی گفتگو کی دعوت دی گئی تھی۔ فتح محمد ملک صاحب کی صدارت تھی۔میں دونوں کا ممنون ہوں۔ملک صاحب کو چلنے میں دقت تھی ،وہ پھر بھی تشریف لائے ۔ انھوں نے سعید ، شرق شناسی اور خود میری گفتگو کے بارے میں جو کچھ کہا وہ شیر علی کی وال پر بہ صورت ویڈیو موجود ہے۔ وہ ان بزرگوں میں سے ہیں ، جو مختلف نقطہ نظر کے ادیبوں کی تحسین میں اپنی انااور اپنے نظریے کو آڑے نہیں آنے دیتے۔
یہاں دو ایک باتیں ذرا منضبط انداز میں شئیر کررہا ہوں جو گفتگو میں اشاروں میں کہی گئی تھیں۔
——————————–
’’سعید اس نظریے کا موجد نہیں تھا کہ علم ،طاقت سے ملوث ہوتا ہے ۔مگر ہمارے عہد میں سعید سے زیادہ کسی نے واضح نہیں کیا کہ کیسے علم میں طاقت شامل ہوتی ہے، اور کیسے طا قت ،علم کو اپنے مقصد کے لیے بروے کار لاتی ہے۔
وہ بڑا نظریہ ساز نہیں تھا۔ اس کا تعقل نظری مسائل کے سلسلے میں دریدا اور میثل فوکو کی ہمسری نہیں کرتا۔مگر کسی نظریے کو اس کے اپنے سیاق میں سمجھ کر، اس کی تعبیر نو کرکے ،اسے اپنے مقصد کے لیے کام میں لانے کی وہ غیر معمولی فکری استعداد رکھتا تھا۔
سعید اصولی طور پر ا س کا قائل تھا کہ کوئی نظریہ محض اپنے موجد،تک محدود نہیں رہ سکتا۔ نظریہ ہو یا کوئی بھی انسانی تخلیق، وہ منظر عام پر آنے کے بعد عازم سفر ہوجاتی ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک شخص سے دوسرے شخص ،ایک عہد سے دوسرے عہد ،ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف۔ نظریے یا کسی بھی انسانی تخلیق کا سفر کسی سوال کا جواب دینے، کسی الجھن کو دور کرنے، کسی تاریکی کو دور کرنے، یا محض انسانی تجسس کو تسکین کی خاطر ہوتا ہے۔
چوں کہ یہ سفر انسانی اذہان میں ہوتا ہے، اس لیے اس بات کی بے حد اہمیت ہوتی ہے کہ کسی نظریے کو کون ، کس طور،کس زمانے ،کس سیاق و سباق میں پڑھ رہا ہے۔ وہ شخصی سطح پر انسانی علم کے سلسلے میں کیا رکھتا ہے؟ انسانی علوم اور فنون دونوں کی نوعیت کے بارے میں کس قسم کافہم رکھتا ہے۔ ان کے دنیا میں کردا ر کی بابت کیا رائے رکھتا ہے؟ کسی بھی نظریے کی تفہیم اور اس کے اطلاق پر یہ سب باتیں اثرانداز ہوتی ہیں۔
عین جوانی کے آغاز میں سعید نے وطن چھوڑا۔ وجہ اسرائیلی ریاست کا قیام تھا، جس میں مغرب ،(مغربی )یہودیوں کے ساتھ تھا ۔ سعید کو امریکا میں بھی بار بار احساس دلایا جاتا رہا کہ’’یہاں یہ اتقاق پایا جاتا ہے کہ سیاسی طور پر عرب فلسطینی کہیں وجود نہیں رکھتا ۔اجازت دی جاتی ہے تو وہ وجود رکھتا ہے۔‘‘ یہاں اسے اپنے جلاوطن ہونے کا احساس شدید ہوا۔ اسی احساس نے اسے بغیر اجازات ، اپنے وجود کا اظہار کرنے کی تحریک دی۔ اس نے خالص نجی وجوہ سے شرق شناسی پرلکھنے کا آغاز کیا مگر نجی وجہ کو تنگ نظری نہیں بننے دیا، تاریخ میں ایک طویل سفر کا محرک بنایا۔
اس نے اپنے اس بحران کو سمجھنے ہی کی خاطر جوزف کونارڈ کو منتخب کیا۔ اسے لگا کہ جیسے جلاوطنی کے اسی تجربے نے اب اسے منتخب کیا ہے،جو اس سے پہلے کونارڈ کی تقدیر بنا تھا۔ اس نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کونارڈ نے کیسے اپنے شخصی تجربے کو اپنے فکشن میں جگہ دی۔ سعید نے کونارڈ کے خود نوشت پر مبنی فکشن کو اپنی پی ایچ ۔ڈی کی تحقیق کا موضوع بنایا۔ حالاں کہ امریکا میں وہ زمانہ ہیئتی تنقید کے عروج کا تھا،اور خود سعید انگریزی ادبیات کی مغربی روایت میں پلا بڑھا تھا۔اس نے مغربی روایت سے بہت کچھ اخذ کیا، مگر بہت کچھ رد بھی کیا۔ ایک شخصی تنقیدی نگاہ ،ا س کی راہنما رہی۔
اپنی دوسری کتاب( Beginnings: Methods and Intention)میں اس نے ایک بنیادی سوال کو سمجھنے کی کوشش کی کہ کسی شے کاآغاز کیا چیز ہے؟ کسی بحران کا آغاز، شناخت کے سوال کا آغاز، ادب کا آغاز، علم کا آغاز،علم اور طاقت کے رشتے کا آغاز، ناول کا آغاز۔
سعید ، آغاز کے بارے میں تین بنیادی باتیں کہتا ہے۔ ایک یہ کہ ’’ آغاز ایک ایسی سرگرمی ہے،جس میں لازمی طور پر واپسی اور تکرار ہے، بجائے سادہ حصول ِ کمال(simple linear accomplishments) کے ‘‘۔ سعید صرف یہ نہیں کہہ رہا کہ اشیا اپنی اصل کی طرف بار بار پلٹتی ہیں؛ بے وطن گھروں کو یاد کرتے اوران کی جانب واپسی کو اپنی حیات کا مقصد بنالیتے ہیں؛ ہم ایک لذت بھرے یا زخم آلود تجربے کو بار بار یادکرتے اور اپنی مسرت یا اذیت کو بار بار جینے کی سعی کرتے ہیں، بلکہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ کسی چیز کےآغاز کا مطلب ، لازمی طور پر آگے کی جانب ،ترقی و ارتقا کی طرف بڑھنا نہیں ہے۔
سعید آغاز اور ماخذ (origin) میں فرق کرتا ہے۔یہی سعید کا دوسرا نکتہ ہے۔ وہ آغاز کو تاریخی ،جب کہ ماخذ کو الوہی کہتا ہے۔ یہ کافی باریک فرق ہے۔ یہ دنیا کو سمجھنے کے دو جد اطریقے ہیں۔ یہ کہ دنیا میں ہونےو الے واقعات کو ان کے تاریخی آغاز سے سمجھا جائے ،یا ان واقعات کو الوہی منشا قرار دیا جائے۔ سیاست ، استعمار، ادب ،علوم ، اخلاقیات سب کو ان کے ’’تاریخی آغاز ‘‘ سے سمجھا جائے یا یہ خیال کیا جائے کہ یہ سب ایک قوت مطلقہ کی منشا سے واقع ہورہا ہے،جس پر انسانی مقاصد کی روسے نہ تو نظر ڈالی جاسکتی ہے،نہ اسے جوابدہ تصور کیا جاسکتا ہے۔
سعید اس بنیادی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے زیادہ وقت صرف نہیں کرتا۔ وہ دنیا ، سیاست اور ادب کی تفہیم کے لیے ’’الوہی ماخذ‘‘ کے بجائے، ’’تاریخی آغاز ‘‘ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’آغاز‘‘ نئی چیزوں کی بنیاد رکھتا ہے، اس کا ایک طریق کار ہے، اور اس کے پیچھے منشا موجود ہے۔ یہی سعید کا تیسرا نکتہ ہے۔خود سعید کی فکر میں بے حد بنیادی۔
اگر وہ ’’الوہی ماخذ‘‘ کا ساتھ دیتا تو شرق شناسی پر تنقید نہ لکھ سکتا۔ وہ شرق شناسی کو مغربی امپریل قوتوں کی منشا قرار دیتا ہے۔ انسانی منشا نہ صرف انسانی فہم میں آسکتی ہے ،بلکہ اسے جواب دہ بنایا جاسکتا ، اورذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے،اور ایک متبادل دنیا کا تصور بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔
وہ شرق شناسی کو مغرب کی تاریخ میں ایک نیا ’’آغاز‘‘ ہی سمجھتا ہے۔ شرق شناسی کی تاریخ کا آغاز ۱۳۱۲ء میں ہوا ،جب کونسل آف چرچ ویانا نے پیرس، اوکسفرڈ ، بولوگنا(اٹلی)،ایوگنون(فرانس) اور سلماناکا (سپین) میں عربی، یونانی اور عبرانی کی چئیرز قائم کیں۔ سنجیدہ ، اکیڈمک انداز میں مشرق کو سمجھنا تھا ۔ ایک خاص منشا کے تحت۔ یہ مطالعات خالص علمی ،بے غرض نہیں تھے۔صاف لفظوں میں مشرق کو سمجھنے کا مطلب، مشرق پر اجارہ تھا۔علمی،علمیاتی ، منہاجیاتی ، دانشورانہ، اخلاقی،سیاسی اجارہ۔ شرق شناسی کی روایت ،خود اپنے آغاز کی جانب بار بار پلٹتی رہی ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی شرق شناسی میں اپنے آغاز کی جانب باربار پلٹنے کا عمل تیز ہوگیا تھا۔
یہ بات بعض لوگوں کے لیے صدمہ انگیزہوسکتی ہے کہ سعید کی شرق شناسی پر تنقید ، خود مغرب کی جمہوری ،انسان دوست روایت کے تحت ہے۔وہ مغرب کے سامنے اسلام کا استغاثہ پیش کرتا ہے، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی ہمدردیا ں سمیٹتا اور مسلمانوں کے مخالفین کے طنز سہتا ہے(خود ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے) مگر عجب تناقض یہ ہے کہ وہ یہ سب جمہوری طرز فکر کے تحت کرتا ہے،کسی مذہبی بنیاد پر نہیں۔ وہ اسلام کی حمایت میں عقیدے کے سبب نہیں، مغرب کے علمی استعمار کا نشانہ بننے کے باعث لکھتا ہے۔ وہ ایک دانشور کے طور پر اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ علمی اور دانشورانہ جبر کا نشانہ بننے والے کے ساتھ کھڑا ہو،ا س کا مذہب، مسلک ، قومیت، نسل ، فرقہ دیکھے بغیر۔اس نے اپنی کتاب’’دنیا ، متن اور نقاد‘‘ میں اپنی تنقید کو صاف لفظوں میں مذہبی کے بجائے سیکولر کہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply