بھائی یہ دیوار پر کیسا سائن لگا ہوا ہے ؟
ایک آواز نے عباس کو جیسے اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ تیز رفتاری سے خیالوں کے جنگل سے میلوں بھاگتا ہوااُس کمرے میں واپس آپہنچا۔ چونکتے ہوئے عباس نے جواب دیا کونسا سائن؟
جس طرف بھی نظر دوڑائیے ممانعت کے بورڈ چسپاں نظر آتے ہیں۔ جیسے سرکاری دفاتر میں سفائی کو برقرار رکھنے کے لیے
” یہاں تھوکنا منع ہے” بسوں میں ” بغیر ٹکٹ سفر کرنا یا سیٹ پر پاؤں رکھنا منع ہے”۔ اسکولوں کے پاس ” ہارن بجانا منع ہے” اورایسی بہت سی ناکام کوششیں جسے ہمارے شہری بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ لیکن عباس کے بھائی کو ہسپتال میں یہ جملہ غیرمناسب سا لگا۔ جب ہسپتال کا کام ہی زندگی دینا یا زندگی کی اُمید دلانا ہو وہاں
” یہاں جینا منع ہے ” غیر معمولی الفاظ تھے۔ بچہ تھا کیا معلوم اکثر سوال کرنا یا آواز اُٹھانا بھی منع کیا جاتا ہے لیکن پھر بھیبھائی سے پوچھ ہی بیٹھا۔ عباس نے مفہوم پر نظر ثانی کی تو بہت سی باتوں کا اندازہ ہوا۔
عباس کینسر کا مریض تھا ۔ پچھلے ایک برس سے اپنی بد قسمتی اور زندگی کے بیچ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کونسی زیادہمنحوس ہے۔۳۱ سالہ عباس فیملی کا اکلوتا سپوُت جہاں بیٹے کی پیدائش کی خبر ہی ماں باپ کا سینا چوڑا کر دے اور خاندان کا وارثدے کر جیسے ایک ماں اس معاشرے میں سُر خرو ہو جائے وہاں کبھی کبھی وہ اُسی سپوت کی قسمت میں خوش قسمتی لکھنا بھولجاتے ہیں ۔ والدین اولاد کو دینے سے زیادہ لینے پر بھروسہ کرتے ہیں کہ ایک دن ہمارا یک لخت سورج چاند کی طرح چمکے گا اور ہماُس کی ٹھنڈی دھوپ میں عمر تمام کریں گے ،اُس امید پر زندگی کی گاڑی کو دھکہ لگانے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ مگر کیا معلوموہ بیٹا تو زندگی جیتا ہی نہیں جسے زمیداریوں اور پریشانیوں نے آن لیا ہو ۔ زندگی کی کشمکش اور ماں باپ کی امیدوں کے بوجھسے نکلے تو خود کی کفالت کرے۔ جہاں گل احمد برانڈ کا ایک مناسب جوڑا ۷۰۰۰ ہزار روپے کا آتا ہے وہاں مہینہ بھر ۳۰۰۰۰ روپےکمانے والا عباس کیونکر اپنے موذی مرض کا علاج کرواتا ۔ بس کھڑا ہو گیا اُس قطار میں جہاں مفت کی بھیک ملتی ہے۔ جہاں علاجثواب کمانے سے زیادہ معیار کو چلانے کے لیےکیا جاتا ہے۔ ایک ادارہ جو حلف لیتا ہے کہ وہ حتی الامکان سفید پوش لوگوں کا علاجممکن بنائے گا پھر کیسے ایک مریض کی بے بسی اور بے کسی پہ کان نہیں دھرتا؟ زندگی کا انعام زندگی کی بھیک کیوں بن جاتاہے۔ مانا اللہ رب العزت ہی کار ساز ہے زندگی اور موت کا مالک پھر وقت سے پہلے لوگ کیوں رویوں کی موت مار دیے جاتے ہیں ۔ دوااور دعا ہر تکلیف اور بیماری کا علاج نہیں ہے۔ ہم انسان سوشل اینیملز ہیں ہماری بقا محبت ، خلوص اور رحم دلی پر منحصر ہے۔جیسے ایک پودا بھی جب اپنی آخری سانسیں گن رہا ہو تو تھوڑا سا پانی ، کھاد اور ُگرمی سردی سے بچا کے اُس کو پھر زندہ کیاجا سکتا ہے پھر ایک انسان کو ہم کیوں زندہ درگور کرنے پہ تُل جاتے ہیں ۔ امیری غریبی کی اس لمبی تفریق نے انسانوں سے ایکجیسے بنیادی حقوق بھی چھین لیے ہیں ۔ضرورتیں بینک بیلنس دیکھ کے پوری کی جاتی ہیں ۔ ایثار درجیح دینے کا دوسرا نام ہے لیکنترجیح اور قُربانی کہاں ہے۔
خدارا ! ایسے ہسپتال اور ادارے جب کسی مقصد سے بیڑا اُٹھاتے ہیں تو مت بھولیں وہ اپنے مریضوں کو جینے کی امید دے رہے ہیں ناکہ
” یہاں جینا منع ہے” کے اصول پہ گامزن ہوں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں