گزشتہ اقساط کا لنک
ہم راہی کے سنگ ،پربتوں کے قرب میں:۔
میرے ہم راہی صدام حسین میرے ساتھ تھے وہ رستے سے پوری طرح واقف تھے یُوں پگڈنڈیوں پر موڑمُڑتے طوالت سے بچتے ہم اُوپر چڑھ آئے۔صدام صاحب جو سپاہی ہیں اَور اُن کے تعلق داروں کے گھوڑے بھی یہاں سیاحوں کو اُوپر لے جانے اَور واپس لانے کاکام کرتے ہیں۔انھوں نے مجھے بھی پیش کَش کی کہ ہمارے گھوڑے سیاحوں کی سیواکرتے ہیں ۔آپ ہمارے مہمان ہیں ۔آپ کی سیواکر کے انھیں (گھوڑوں کو) اَور ہمیں خوشی ہوگی۔اس چوپائے (گھوڑے ) سے میراقلبی تعلق تب سے ہے ۔جب سے مَیں نے اِسے اَپنے بچپن میں بکروالوں کے قافلوں میں دیکھاہے ۔میری دُوسری شناسائی اس انسان دوست جانور سے تصویروں سے ہوئی ۔اسکول کی کُتب میں اس اِٹھلاتااَندار اَور گردن پر بالوں کی لکیر مجھے ہمیشہ اس سے پیار کرنے پر مجبور کرتی تھی۔اِس کی ہر اَدا پیاری ہے اَور واقعی یہ پیار کرنے کے لائق ہے۔ہاں مَیں نے صدام حسین صاحب کی پیش کَش پہ معذرت کرلی ۔بھلا ایک پھولوں سے لدے ڈھلانی نخلستان پر قدم بہ قدم بھٹکنے ،رُکنے ،چلنے ،پھولوں کی باس لینے اَور قدرت کے کنوارے ہاتھوں سے سجاتے پربتوں کے قُرب میں جومزہ ہے وہ ایک گھوڑے کی تیزرفتاری کے نذر کیوں کر کیاجاسکتاہے ۔؟کاش اَیسی وادیوں میں وقت رُک جایاکرے،لمحے رفتار بھول جائیں اَور ہم یہاں اِن حسین وادیوں میں ہمیشہ کے لیے بھٹک جائیں ۔
جنت کاتصور اِنسان کے ہاں کب سے ہے ۔؟مجھے اَندازہ نہیں ۔مگر ایک اَیسادیس ،ایسی وادی ہے جس کاحُسن خود خدانے اَپنی الہامی کتابوں میں کھُل کر بیان نہیں کیا۔بس کچھ کچھ اشارے دیے ہیں ۔وہاں وقت منفردہوگا، حُسن اَپنی تمام اَداوں کے ساتھ موجود ہوگااَور حُسن پرست اس سے لطف اَندوز ہوں گے۔پنچھی ،ندیاں ،دُودھ رنگ نہریں جن کااُجلااپانی شہد سے بھی شیریں ہوگا،پھلوں کی بہتات ہوگی ،نغمگی ہوگی ۔سکون آور وادیوں کاجونقشہ اِلہامی کُتب میں موجود ہے اُس کی جتنی بھی تمثیلات بیاں ہوئی ہیں ۔وہ عرب کے ریگستانوں میں ہرگز نہیں اُن کے نین نقشے ،اُن کی بُوباس اس پرستان سے ملتی ہے۔جیسے قدرت نے جنت کی ساری تشبہیں (ریاست کشمیر)یہاں جمع کررکھی ہوں ۔
ٍ ہم چودہ ہزار فٹ کی بلندی سے کچھ فٹ نیچے تھے۔سورج نے پہاڑکے پیچھے کی راہ لے لی تھی۔اَب شام ڈھیرے ڈالنے لگی تھی۔ہنگامہ روز وشب جیسے تھک کر اَب سونے کی تیاری کرنے لگاتھا۔پربتوں نے گرداگرد ڈھیرے ڈالے ہوئے تھے۔یہ یہاں کب سے اقامت گزیں ہیں۔؟اِن کے قیام کی یہ اَدا اِس قدر نرالی ہے کہ قدرت نے انھیں ہمیشہ کے لیے یہی اَدابخش دی۔نشیب میں برپت ،درمیاں میں پربت اَور اَب چودہ ہزار فٹ کی بلندی بھی پربتوں کے حصار میں تھی۔
مغربی سمت ذرادائیں پہاڑوں کے اُوپر کاآسمان سفید بادلوں نے ڈھانپ لیاتھا۔ٹھنڈ کااَحساس ہونے لگاتھا۔چھوٹے چھوٹے پتھروں سے پھولوں کی کیاریاں نکل آئیں تھیں۔پسینہ خشک ہونے لگاہم نے اِن پھول کیاریوں کے درمیان کچھ لمحے خود کو سستایا اَور آگے بڑھے۔گھوڑوں کی گوبر کی بُو اَور پھولوں کی باس اس راہ میں بسی ہوئی تھیں۔
ٹھنڈاماحول ،یخ اَنڈے اَور گرم قہوہ:۔
ٹیکری پر پہنچے تو اک چھوٹاسالالازار تھاجو نشیب کی طرف بچھا ہواتھا۔اس نشیب کے آخر میں جھیل کاساحل تھا۔لوگوں کی چہل پہل تھی۔سب خود میں محو تھے۔جھیل اَور اس کے گرداگرد کی دُنیا سے تقریباًہر کوئی بے نیاز تھا۔چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی ڈنڈیوں پر فون جُڑے تھے اَور خود کو منظرایا جارہاتھا۔اس خو دمنظری کے پس منظر میں جھیل تھی اَور اُس کاماحول تھا۔
مَیں نخلستان پر تھکے قدموں جھیل کی طرف بڑھنے لگا۔اچانک آواز آئی ‘‘قہوہ گرم گرم ،اَنڈے گرم گرم ’’ آواز والاگھوم رہاتھا سیاحوں کے درمیان چکر لگارہاتھا۔میرے بدن میں چڑھائی چڑھتے جو سانسیں پھولیں تھیں جوحدت بدن میں در آئی تھی ،جو پسینہ نکلاتھا۔اَب وہ خشک ہورہاتھا۔اَب جیسے مَیں ایک گرم سڑک پار کرکے یک دم کسی یخ دان میں داخل ہوگیاتھا۔یہاں کاماحول اَور مزاج اپنے اَندر ٹھنڈ بھرے ہوے تھے۔تھکن اس کے علاوہ تھی۔جب قہوہ فروش قدرے نزدیک آیا تو مَیں نے آواز دی متوجہ ہونے پر اپنی طرف آنے کااشارہ کیا۔یہ دو لڑکے تھے اِن کے پاس سرد کار(کولر)جیسی حرقائم بوتل (تھرماس )تھی۔ایک کے پاس گرم قہوہ تھا اَور دوسرے کے پاس اَنڈے تھے۔
یہ منصور اَور دانیال عارف تھے۔مَیں نے دو اَنڈے اَور ایک کپ قہوہ لیا۔اُبلے ہوئے اَنڈے گرم نہیں تھے اَلبتہ قہوہ مزے دار تھا۔اِس میں لونگ،الائچی اَور کالی مرچ کے اَجزاشامل تھے۔اَنڈے کھاچکاتو قہوہ گھونٹ گھونٹ پینے لگا۔صدام حسین اپنے گھوڑوں کے ساتھ کہیں اَور نکل گئے۔جسم میں قدرے توانائی آئی تو مَیں دانیال عارف اَور منصور کی طرف متوجہ ہوا۔دانیال عارف شاعر تھا۔دونوں جماعت نہم کے طالب علم تھے۔آج اَتوار تھا اَور وہ چھٹی کے دن یہاں قہوہ اَور اَنڈے فروخت کرتے ہیں۔دَونوں میرے پاس بیٹھے تھے اَور اپنے اسکول ،گاوں اَور گاوں کی زندگی کے بارے میں بتارہے تھے۔ہمارے درمیان جو سیاح تھے اَن کی شوریدگی اَب کم ہونے لگی ۔کم ہوتے ہوتے ہم تینوں تھے اَور جھیل تھی اَور اس کے اِردگرد کاماحول تھا۔اُونچے اُونچے پربت یہاں بھی اُونچے تھے۔سفید یخ ٹھنڈے گلیشر اِن پربتوں کے قدموں میں پڑے ہوے تھے۔ڈھلانیں تھیں اَور لالازار تھے۔ان کے درمیان نیلانیلاپانی تھا۔مَیں نے منصور سے پوچھا یہاں کب سے آنے لگے ہو۔؟بولااِسی سال سے ۔
اِک کہانی بڑی پُرانی :۔
منصور اَور دانیال کے پا س جھیل کے متعلق ایک کہانی تھی۔اسی لمحے ہر چار سو کی زندگی نے زمانے کی شورشوں کو کہیں دُور دھکیل دیاتھااَور یہاں خامشی کولے آئی تھی۔سُورج مغربی پہاڑ پر سُرخ لالی چھوڑ کر آگے جارہاتھا۔جھیل کے کنارے حصار باندھے پربت بھی سُرخ قبائیں اُڑھ چکے تھے۔کہانی شروع ہوئی۔
ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ یہاں دیو اَور پریاں رہتے تھے۔بھلاکون منکر ہوسکتاہے کہ یہاں پریاں نہانے کونہ اُترتی ہوں گی۔؟
اُن کی شہزادی یہاں سنورکر اَور سج کرنہ آتی ہوگی۔اُس کی سکھیاں اُس کے ساتھ اَٹھکیلیاں نہ کرتی ہوں گی۔قہقہے نہ گُونجتے ہوں
گے،مُسکانیں نہ بکھرتی ہوں ۔۔۔۔؟زمانوں پہلے ہزار ہاجنموں پہلے جب یہاں کائنات کی عظیم تنہائی بستی تھی تو شفاف اَور
نیل بدن آکاش تلے نیل بدن جل پری تھی۔اس کے گِرداگرد اُونچے اُونچے یہ پربت تھے۔یہ سبزہ زار تھا اَور یہ بہت سارے
لالازار تھے۔تب کی بات ہے کہ یہاں پریاں اُترتی تھیں۔اُن کی شہزادی اُترتی تھی۔اُس کی سکھیاں اُترتی تھیں اَوراُس
کی خادمائیں بھی اُس کے ساتھ اُترتی تھیں۔غول در غول۔۔۔۔غول در غول ۔۔۔پریو ں کے غو ل۔۔۔یہاں اُترتے رہتے تھے۔
پریاں اَپنے پنکھ اُتارتی تھیں اَور جھیل میں اُتر کر نہاتی تھیں۔اُن کی خادمائیں کناروں پر بیٹھی اُن کے پنکھ سنبھالتیں تھیں،
اُن کی کنگھیاں اَور سنگہاراَپنے پاس رکھتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔دانیال رُکا ۔۔۔۔تو ۔۔۔سکوت نے جنم لیا۔۔۔۔دانیال پھر گویا ہوا
۔۔۔اَور ۔۔سکوت چھناکے سے ٹوٹ پڑا۔۔۔
ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ یہاں بہت بڑاجبّہ ہوتاتھا۔جبّہ ہماری زبان میں گھنی اَور سخت گھاس کوکہتے ہیں۔جس کے نیچے ہلکا ہلکاپانی ہو۔
۔۔۔اُس کے اُوپر کی گھاس گیلی ہواَور پانی نچڑتاہو۔سخت گھاس کاتنا پانی میں ہمیشہ گیلاہورہاہو۔جبّہ اَور اُس کے اِردگرد کاعلاقہ عظیم
ویرانی تھی۔خاموش تنہائی تھی۔چُپ سادھے اِک ویران اَور تنہادُنیا تھی۔کِسی آدم زاد کایہاں دخل نہ تھا۔نہ کوئی ٹھہراو تھانہ ہی پڑاو تھا۔
ہاں اِک رستا تھا جو گاہے گاہے استعمال ہوجایاکرتاتھا۔یہ رستااس جبہّ پرسے ہوکر گزرتاتھا۔ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک دن ایک بارات
جھیل کی شمالی سمت سے اُتر کر اِس جبہّ پر سے گُذر رہی تھی کہ اچانک جبہّ (گھاس )نیچے دھنسنے لگی ۔زمین نیچے بیٹھتی گئی ۔اس کے اُوپر
کے لوگ ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ یہ کیاہورہاہے کہ آناًفاناًوہ ساری کی ساری بارات ،وہ سب لوگ زمین میں چلے گئے ۔پھر دیکھتے
دیکھتے پانی اُوپر آنے لگا۔پھر وہی پانی اَب یہ جھیل ہے۔جبہّ،جبہّ پر سے گُزرنے والی بارات اَور رستاسب گُم ہوگئے۔ہمارے بزرگ
بتاتے ہیں کہ وہ سب لوگ اَب بھی یہاں تہہ میں ہوں گے۔ہمیں تو نہیں پتہ ہر جمعرات کو پُرانے لوگوں نے یہاں ڈھول بجتے سُنے ہیں۔
کہانی کی حلاوت اَور خاموش سُر اچانک ختم ہوگئے۔میرے اِردگرد اِنسانی آوازیں کچھ کچھ آرہی تھیں ۔کہانی ختم ہوچکی تھی۔
خاموشیوں نے پردے اُٹھاے توشمالی سمت آج بھی اک رستا پہاڑ کی طرف جاتاہے اَوراُترتابھی ہے۔اس رستے میں سے ایک رستاشمال مشرقی سمت ایک پگڈنڈی کی شکل میں نکلتاہے۔مگر یہ آج بھی ایک دُشوار رستاہے۔یہاں چرواہوں کے ریوڑ قطار میں کبھی کبھی چلتے ہیں۔یہ پگڈنڈی عام نہیں ہے ۔جھیل کی شمالی مغربی سمت دیوار کی طرح کھڑے پہاڑ پر شمال سے مشرق کی طرف جاتاہے۔اَگر کوئی دوپایہ یاچوپایہ یہاں سے لُرھک جاے تو سیدھا جھیل میں آن گرے گا۔اس رستے کے اِردگرد جبہّ نہیں ہے۔پھُول دار اَور خُوش بُو دار گھاس ہے۔
مشرقی سمت گلیشر ہے۔مغرب کی طرف پار پہاڑ ہے۔اس کے دامن میں ایک کچی سڑک آتی ہے جیسے اِس طرف نیچے جھیل تک آتی ہے۔اس دامن میں بکروالوں کی عارضی خیمہ بستیاں ہیں۔سیاح مغربی سمت سے جھیل تک آتے ہیں۔مغربی سمت اُوپر پہاڑ سے تین چشمے دھار کی شکل میں پھُوٹتے ہیں اَور جھیل میں آن گِرتے ہیں ۔شمالی سمت میں جھیل کی ایک کونے پر نکاسی ہے۔ساتھ ایک رستااُوپر اُٹھتاہے۔جوسُرخ پھُولوں سے لدے پہاڑ کے عقب میں جاکر گُم ہوجاتاہے۔یہی رستا‘جبہّ’پر سے گذرنے والے رستے کاحصہ خیال کیاجاتاہے۔آج جبہّ گُم ہے ،رستاگُم ہے ،اس رستے پر چلنے والی بارات گُم ہے اَور وہ سارے کاسارازمانہ گُم ہے۔
پاس ،درّہ،گلہ اَور گلی :۔
دُشوار اَور سُنسان پہاڑوں کے درمیان سے گُزرنے والے رستوں کے ہر زبان میں اَپنے اَپنے نام ہیں۔اَنگریزوں نے انھیں پاس (pass)کہا۔اُردُو میں درّے کہلاتے ہیں جب کہ پہاڑی ،ہندکو اَور گوجری میں یہ ‘گلہ ’کہلاتے ہیں۔ممکن ہے لفظ درّہ اُردو کامستعار لیاہواہواَیسے ہی پہاڑی زبان نے کہیں سنسکرت سے یادُور دراز کے زمانے کی کسی بھاشاسے لفظ ‘گلہ ’ اُچک لیاہو۔؟تہذیبیں ،زبانیں اَور الفاظ بھی بے شک کھپ جاتے ہوں گے ۔مگر یہ کُلی طور پہ فنا نہیں ہوتے ۔اَپنے بیج اَگلی زبانوں اَور زمانوں کو دھان کردیتے ہیں۔اَگر درّہ قدرے چھوٹا،تنگ اَور زیادہ تجارتی نہ ہوتو یہ ‘گلی ’ کہلاتاہے۔
رتاسَر اَور رتی گلی :۔
شمال مغربی سمت ،شمالی پہاڑ پر سُرخ پھولوں کی چادر ہر بہار سے ستمبر تک پڑی رہتی ہے۔میسلو ن سے ڈھکے اِس پربت کو اِسی نسبت سے ‘رَتا’ یعنی سرخ پہاڑ کہتے ہیں۔ماضی میں اس پہاڑ کے قدموں میں گذرگاہ تھی۔لوگ ناران ،کاغان اَور اَفغانستان تک جانے کے لیے اِسی رستے سے گزرتے تھے۔جب کہ ماضی قریب میں ناران کاغان سے دواریاں اَور اِن سے ملحقہ گاوں کے لوگ سامان لاتے تھے۔رَتاپہاڑ کے دامن میں ،ماضی کی اِس دُشوار ،سنسان اَوربیاباں گذرگاہ کو سُرخ پھُولوں کی نسبت سے ‘رتی گلی ’ کہتے ہیں۔سُرخ پھولوں کاوسیع لالازار اس کے اِردگرد پھیلاہواہے۔یہ چادر دُور سے دیکھنے پر یُوں تاثر دیتی ہے ۔جیسے قدرت صرف گُل بوٹے کاڑھنے بس یہی بیٹھی رہتی ہے۔ یہاں ماضی بعید میں گھوڑے ،خچر اَور گدھے سامان اَور اِنسانوں کے لاؤ لشکر کے ساتھ گُزرتے رہے ۔مگر اِس بعید ترین دَور کی تاریخ اَور شوائد کِسی کے پاس نہیں ۔بس آثار ہیں ۔آج بھی ناران کاغان کے لیے یہی رستاجاتاہے۔
رستے ویسے ہی نہیں بنتے صدیوں اَور زمانوں کی ریاضت اَور کھوج کاثمر ہوتے ہیں۔اَور جب کہیں یہ رستے جن پر کبھی تن تنہا مسافر اَور قافلوں کے قافلے چلے ہوں ،زمانے کی گَرد میں گُم ہوجائیں تو انھیں کھوجنے اَور تلاشنے کے لیے کیاکِیا جائے۔؟
مغربی سمت پار پہاڑ پر بادلوں نے سُورج کو چھپالیاتھا۔اَب کچھ دیر بعد وہ ہٹے تو مشرقی چوٹی پر دُھوپ آگئی ۔اس کاعکس میرے سامنے پانیوں میں اُتر آیا۔فطرت کاپاسباں نیلے پانی میں سُرخ لالی گھول رہاتھا۔یہ رنگ آمیزی دعوت دے رہی تھی کہ نگاہیں اِسی میں ڈُوب جائیں ۔فطرت کی کتاب پڑھنے والوں کو کسی واعط کی ضرورت نہیں رہتی ۔اس کتاب کی اِملاپڑھ لینے کے بعد یہ سامانیاں صرف فساد لگنے لگتاہے۔جس جگہ مَیں بیٹھا تھا یہاں سے کُچھ فاصلے پر سیاح سُروں کی بے سُری مشق کررہے تھے۔جیسے کِسی درس گاہ میں گھومنے والااَور اُس کے کمروں میں بیٹھنے والاہر طالب علم ،طالب علم نہیں ہوتا۔اَیسے ہی خوش منظر وادیوں میں آدھمکنے والاہر فرد سیاح نہیں ہوتا۔
کھن چوہاپھر بولا۔اسے اس وادی میں تب سُنا تھاجب مَیں جھیل کے پیچھے والی ٹیکری کے عقب میں چڑھائی چڑھ رہاتھا۔کھن چوہے (مارموٹ ) کی سیٹیاں شمالی جانب سے سُنائی اُبھر رہی تھیں۔شمالی سمت سُرخ پھولوں والی پہاڑی پر بکروالوں کاریوڑ چر رہاتھا۔جب کہ ذرابلندی پر چوٹی کے عین نیچے اُن کاخیمہ نصب تھا۔یہاں سے وہ دُور تک چرتے اَپنے ریوڑ پر گہری نظر رکھ سکتے تھے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں