خوش نصیب ہے وہ جو اُمّتِ محمدیہ میں پیدا ہوا۔ خوش نصیب ہے وہ جسے کلمہ توحید، لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ نصیب، ہوا…… اور کمال خوش نصیب ہے وہ ذی روح جسے عشقِ مصطفیؐ عطا ہوا۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ عشق کی تعریف یوں کرتے ہیں: ”عشق آرزوئے قربِ حسن ہے“۔ جتنی زور آور آرزوئے قرب ہو گی، اتنا ہی قد آور عشق ہو گا۔
یہ مادی پیکرِ وجود، جو بشری مزاج اور مکدر صفات کا مجموعہ ہے، اسے اگر کوئی چیز بدل سکتی ہے تو وہ عشق ہے۔ کہتے ہیں۔ فطرت نہیں بدلتی، درست، ہزار بار درست …… لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ عشق کی واردات مزاج اور فطرت کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ جزیرۃ العرب کے مکینوں کی سخت گیر طبیعت اور تعصب و کبر سے بھری ہوئی فطرت کو مرقع حسنِ دو عالمؐ نے چند عشروں میں یوں بدل کر رکھ دیا کہ دنیا ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ”رحماء بینھم“ کی تفسیر بن گئے۔ حسن کے خورشید عالم تاب کے پردہ ہستی کے دوسری جانب ہجرت کرنے کی دیر تھی کہ جنگ و جدل اور تعصب کی فطرت ملوکیت کا روپ دھارے چند نسلوں اور عشروں کے بعد پھر سے عود آئی۔ سچ ہے، عشق اپنے قیام کے لیے حسن سے دیدار کی خیرات مانگتا ہے۔ دیدار بقدرِ طلب ہے۔ بے طلب کے سامنے دریا بھی کاریز ہے۔ جسے طلب کی پیاس لاحق ہو، اسے زیرِ زمین پانی بھی غنیمت نظر آتا ہے۔ دیدار بقدرِ یاد ہے، یا پھر بقدرِ فریاد!! ذکر یاد کا اظہار ہے…… اور یاد روح کا سفر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عشق ازلی نصیب ہے۔ عشق نعمتِ خداوند ہے…… اور عشق میسر آنے کے بعد عشق کے اظہار کی قدرت ایک نعمتِ دو چند ہے۔ عالم لوگ بھی جان چکے ہیں کہ تزکیہ نفس کے مراحل طے کیے بغیر دین کا مدعا پانا ممکن نہیں۔ اہلِ تزکیہ اعتراف کر چکے ہیں کہ تزکیہ نفس کے لیے علم کافی نہیں، کتاب کافی نہیں۔ تزکیہ نفس کا یہ کارِ دشوار صاحبِ کتاب سے نسبت بقدرِ الفت ہی سے ممکن ہے۔ مدعائے کلام یہ کہ تزکیہ نفس کے لیے، بشریت کے مزاج کو منقلب کرنے کے لیے، عشقِ مصطفیؐ سے بہتر کوئی نسخہ تجویز نہیں کیا جا سکا۔ ایک امتی منکرات سے اس لیے بچ جاتا ہے کہ یہ بات رسولِ کریمؐ کو ناپسند ہے، وہ سوچتا ہے کہ اس بے کار مشغلے میں مشغولیت کے ساتھ وہ میانِ برزخ اور بروزِ محشر اپنے کریم نبیؐ کو کیا منہ دکھائے گا۔ وہ معروف کی طرف اس لیے لپکتا ہے کہ وہ کسی طور اپنے رسولؐ کے اچھے امتیوں میں شمار ہو جائے، اُنؐ کی گڈبکس میں آ جائے۔ جب بھی دین اور دنیا کے درمیان کوئی دوراہا آتا ہے، وہ دین دینے والی ذاتؐ کی رضا جوئی کے عالائقِ دنیا کو ترک کر دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے ”جس نے رسولؐ کی اطاعت کی، پس اسی نے اللہ کی اطاعت کی“۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ محبت کے دعوے کو اپنے محبوبؐ کے اتباع کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کریم اپنے حبیبؐ کی زبانی مخلوق کو حکم دے رہا ہے ”آپؐ انہیں کہہ دیں! اگر تم اللہ سے محبت سے کرنا چاہتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ خود تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے سارے گناہ معاف کر دے گا“ گویا اللہ کے محبوبؐ نے اللہ کی نظر میں محبوب ہونے کا ایک راستہ بتا دیا۔ اطاعت حکم کی ہوتی ہے، اتباع کردار کی۔ اتباع ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت اطاعت ہے۔ اطاعت کا محرک جزا و سزا بھی ہو سکتا ہے۔ کردار کا اتباع فقط محبت سے ممکن ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کی معروف نعت کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:
توؐ مصوری کا کمال ہے
توؐ خدا کا حسنِ خیال ہے
جنہیں تیرا جلوہ عطا ہوا
وہ تیرےؐ جمال میں ڈھل گئے
قرآن میں ارشاد ہوتا ہے، ”اللہ کا رنگ اختیار کرو، اللہ سے بہتر کس کا رنگ ہے“ اب اللہ نظر آتا ہے، نہ اللہ کا رنگ۔ مخلوق کے سامنے اللہ کے حبیبؐ ہیں اور ان کا اسوہ و کردار ہے۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہے: بے شک تمہارے لیے رسول اللہ کی صورت میں بہترین اسوہ (کردار کا نمونہ) ہے۔ سیرت علم ہے، صورت مشاہدہ! مشاہدے کی ایک صورت علم کی کئی کتابوں پر بھاری ہوتی ہے۔
مبارک ہیں وہ امتی جنہیں سرمایہئ عشق و وفا وافر نصیب ہوا اور وہ بصورت کلام اس سرمائے کو تقسیم کرنے پر قدرت بھی رکھتے ہیں۔ ایسے ہی ایک قادر الکلام نعت گو شاعر میرے برادر ڈاکٹر مسعود اقبال ساجد ہیں۔ ان کا ایک نعتیہ مجموعہ ”ذوقِ حضوری“ کچھ عرصہ قبل ذوقِ نعت کا رزق تقسیم کر چکا ہے۔ قبل ازیں اسمائے الٰہی پر ان کا ایک حمدیہ مجموعہ بھی مقبولیت و قبولیت حاصل کر چکا ہے۔ اسمائے حسنیٰ پر خامہ فرسائی کے بعد اب ایک معرکۃ الآرا مجموعہ کلام ”اسمائے محسنی ٰؐ“ کے عنوان سے منصہ شہود پر آیا چاہتا ہے۔ منظوم اسمائے مصطفیؐ کا مسودہ جب مجھے موصول ہوا تو سرورق دیکھتے ہی بے اختیار ریاض حسین چودھری کی نعت کا مطلع میری نظروں کے سامنے ابھر آیا:
اسمِ نبیؐ ہے لوحِ ثنا پر لکھا ہوا
کاغذ پہ ہے گلاب ازل سے کھلا ہوا
مجھ سے ورق کتاب کے الٹے نہ جا سکے
تھا سرورق پہ نام نبیؐ کا سجا ہوا
چودہ سو برس کے شعر و ادب کی تاریخ گواہ ہے کہ حمدیہ کلام اتنا نہیں لکھا گیا جتنا نعتیہ کلام تحریر ہوا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ سرکارِ دو عالمؐ کے عالمِ شہود پر ظہور سے پہلے اس کائناتِ ہست و بود نے آپؐ کا انتظار کیا ہے اور ظہور کے بعد سے اب تک آپؐ کی یاد میں مشغول ہے۔ ذکر دونوں صورتوں میں آپؐ ہی کا ہوا ہے……پہلے بصورتِ انتظار اور اب بصورتِ یاد!! یاد اور انتظارکی باطنی صورت ایک ہے۔ جسے یاد کیا جاتا ہے، اسی کا انتظار بھی کیا جاتا ہے۔ پہلی امتوں نے آپؐ کا انتظار برائے نبوت و رسالت کیا …… اب انتظار برائے زیارت و شفاعت ہے۔ مبنی بر یاد کلام اپنی اصل جہت میں ایک باطنی واردات ہے، اور یہ روشن باطن والوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔
کچھ تعجب نہیں کہ اسمائے رسولِ کریمؐ تعداد میں اسمائے حسنیٰ سے کہیں زیادہ ہیں۔ میرا ایمان ہیں کہ اب تک جتنے اسما ہماری فہم و ادراک میں آ چکے ہیں، اس سے کہیں زیادہ ابھی پردہِ لامعلوم میں، لیکن عالمِ امکان میں ہیں۔ یہ اسما دراصل کلمات اللہ ہیں، اور کلمات اللہ کے متعلق ارشاد ہے کہ اگر تمام درخت اقلام بن جائیں اور سب سمندر مل کر روشنائی کی صورت میں مدد بہم پہنچانے لگیں، تب بھی تم اللہ کے کلمات کو گن نہیں سکو گے۔ایک نعت گو شاعر نے اس طرف یوں توجہ دلائی:
جب ثنائے مصطفی میں کچھ رقم ہونے لگا
لائقِ پرواز یہ بے بال و پر ہونے لگا
سب سمندر مل گئے ہیں، روشنائی کے لیے
اور لکھنے کو قلم بھی ہر شجر ہونے لگا
مسجدِ نبویؐ میں قبلہ کی جانب دیوار پر 185 اسمائے نبیؐ نقش ہیں۔ امام قسطلانیؒ 337 نام گنواتے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطیؐ نے 340 نام اپنی کتاب میں درج کیے ہیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب ”مدارج النبوۃ“ میں چار سو اسما تحریر کیے ہیں۔ امام صالحیؒ نے 754 اور ابنِ فارسؒ نے بارہ سو اسماء قلم بند کیے ہیں۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے جامع الترمذی کی شرح میں نقل کیا ہے آپؐ کے اسما کی تعداد ایک ہزار ہے۔ مولانا امداداللہ نوریؒ نے اپنی کتاب ”اسماء النّبی الکریمؐ“ میں ایک ہزار ناموں کی تشریح کی ہے۔ حضرت ابوانیس صوفی برکت علی لدھیانویؒ نے ”اسمائے نبی کریمؐ“ کی چھ جلدوں میں بارہ سو دو 1202 اسماء کی تشریح کی ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ جل جلالہ اور رسولِ کریمؐ کے تیس اسما مشترک ہیں۔
اسمائے رسولِ کریمؐ کی وسعت انسانی عقل کے احاطہ ادراک سے باہر ہے، بس یہ ایک اپنی سی کوشش ہے اس قلزمِ بے پایاں میں غواصی کی۔ ہمارے ممدوح ڈاکٹر مسعود اقبال ساجد نے 145 اسمائے نبی کریمؐ کی منظوم تشریح کرنے کی سعادت اپنے نام کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جن منفرد اسمائے نبی کریمؐ کو موضوعِ سخن بنایا ہے، ان میں حنیفؐ، صادعؐ، برھانؐ، خازنؐ، معلّمؐ، قُسمؐ اور خطیب الانبیاءؐ ایسے اسما خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
نورِ محمدیؐ کی وسعتِ بیکنار سے کون ہے جو ہمکنار ہو سکے۔ اس جہانِ نور میں سیر بس اپنے اپنے ظرفِ تسلیم اور وسعتِ باطن کے مطابق ہے۔ درحقیقت کائنات اسمِ محمدؐ کی تشریح ہے اور موجودات محوِ نعت!!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں