راجہ گدھ

اوئل جوانی تھی، ‘راجہ گدھ’ کا بہت شہرہ سن رکھا تھا، ایک دن ہمت کر کے ناول اٹھایا اورپڑھنا شروع کر دیا۔ اس کے علامتی ابواب بڑے تاثر سے پڑھنے شروع کیے کہ پتا نہیں علم و حکمت کے کیا کیا معارف بیان ہو رہے ہیں۔ مگر خاک پلے نہ پڑے۔ تین چار علامتی ابواب پڑھنے کے بعد مزید ہمت نہ رہی۔ ان کو چھوڑ کر باقی ناول پڑھ ڈالا۔
حرام و حلال سے جینز میں آنی والی ‘ سانٹفک تھیوری’ کو بھی سمجھنے کی کوشش کی۔ مجھے تو لگا کہ یہ تو وہی بات ہے کہ جو ہمارے بڑے بوڑھے کہتے رہتے ہیں کہ حرام کا لقمہ کھانے اور کھلانے سے حرام کی تاثیر اولاد میں بھی اتر آتی ہے، جیسےہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب شرارتی لڑکوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ کچھ طلبہ کا نطفہ تو حلال کا ہوتا ہے لیکن ان کو کھلایا جانا والا لقمہ حرام کا ہوتا ہے۔ کیا یہ عام نظریہ، محض ‘ جینز’ کا لفظ ڈالنے سے ‘سائنٹفک تھیوری’ بنا جاتی ہے؟
ناول میں لڑکی کی اپنے استاد سے پاک محبت اور اپنے ہم جماعت سے ناپاک محبت کا کھیل بھی کافی دلچسپ لگا۔ لیکن اس میں بھی مجھے کوئی نئی بات محسوس نہیں ہوئی جس کی بنا پر اس کو عوام میں کلاسک کا درجہ دیا جاتا ہے۔ لڑکی اوراس کے ہم جماعت کی ناپاک محبت البتہ ایسی ‘سیرباطن’ ضرور کرا تی محسوس ہوتی ہے۔ ادھر نازک کلائیوں سے آستین لپیٹی جاتی ہے اور ادھر باطن کی پرتیں اپنے آپ کھلتی چلی جاتی ہیں۔
ناول میں تحیر کاعنصر ڈالنے کے لیے ایک عجیب سا بچہ بیچ میں ڈال دیا جاتا ہے، جو اس ناول کو صوفیانہ ناول کی صف میں ڈالنے کے لیے کافی سمجھاگیا ہے۔
‘راجہ گدھ’ کے بارے میں بننے والی اپنی اس رائے کو میں اپنی کم فہمی سمجھ کر میں کافی مدت خاموش رہا تاحد کہ ایک بڑے ناقد، جن کا نام فراموش ہو گیا ہے، کا ‘راجہ گدھ’ پر نقد پڑھا۔ ان صاحب نے بھی تقریبًاانہیں خیالات کا اظہار فرمایا تھا۔ آج بھی ان کی چند باتیں یاد ہیں: ایک یہ کہ ‘راجہ گدھ’ کے علامتی ابواب آج تک کسی نے مکمل نہیں پڑھے۔ اور نہ ہی کسی کو آج تک سمجھ آیا کہ ان میں کیا کہا گیا ہے۔ ہمارے ہاں، جو چیز سمجھ نہ آئے، اسے عظیم مان لیا جاتا ہے، ‘راجہ گدھ’ کی کلاسیکی درجہ دینے والے اسی لیے دیتے ہیں کہ وہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آیا۔ درحقیقت اس میں سمجھنے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔
محض تحیر کا عنصر ڈالنے سے ایک ایک عام سا ناول، ما بعد الطبیعاتی عناصر کا حامل نہیں بنا جاتا۔ شایدممتاز مفتی کے زیر اثر، اردو ادب میں یہ تحیر آمیز جدیدصوفیانہ آمیزش شروع ہوئی ، جس کی وجہ سے نیم پڑھے لکھے عوام کے ایک جم غفیر کو ان کے کتابوں میں دلچسپی کا عنصر ملا رہا۔ مالی،ذہنی اور جذباتی طور پر ناآسودہ قوم میں یہ چیزیں بہت بِکتی ہیں، اسی یے یہ ناول نگار بھی بکے اور خوب بکے۔ ادب کے بڑے ناقدین جانتے ہیں کہ ان ناولوں میں کتنا ادب ہے،البتہ عوام میں یہ سودا ابھی کافی دیر بکے گا۔
رہا سوال حرام و حلال کی ‘تھیوری’ کا۔ تو بتائیے کہ کیا وجہ ہے کہ وہ معاشرے جو بنیادی انسانی اخلاقیات کے لحاظ ہم سے بہت آگے کھڑے ہیں، ان کی تو ساری معیشیت ہی سود پر کھڑی ہے جو اشد الحرام ، اس کے برعکس، ہمارے ہاں عمومی طور پر حلال روزی کمانے کا خیال رکھا جاتا ہے، ٹیکس چوری کو چھوڑ کر ہمارے عام لوگوں میں حلال روزی کا تناسب حرام سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ہمارے سماجی رویہ اس تھوےری کے مطابق، حلال کے اثرات سے عاری کیوں ہیں؟
‘راجہ گدھ’ ایک ادبی کاوش ہے، لیکن اس کا درجہ بس اتنا ہی ہے کہ ایک اوسط درجے کا ادبی ناول ہے، اس کو اس درجے پر رکھیں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply