اگرچہ پاکستان کلچرل ایسوسی ایشن کا اجلاس مختصر نوٹس پر نہایت عجلت میں بلایا گیا تھا مگر یہ میٹنگ نہایت ضروری تھی۔ ہم سب لوگوں کو مل کر یہ اہم فیصلہ کرنا تھا کہ اس بار پاکستان کے یوم آزادی کو نہایت پُرشکوہ عظیم الشان طریقے سے منانے کے لیے وطن عزیز سے امریکہ تشریف لائے کون سے میوزک گروپ کو اپنے شہر میں بلایا جائے؟
ہر سال پاکستان کے یوم آزادی پر پاکستان سے شاعر، ادیب، اداکاروں کے جھرمٹ، کامیڈین کی ٹولیاں، قوالوں کے گروپ اور ناچنے گانے والے طائفے و دیگر خواتین و حضرات مزید شہرت اور ڈالرز کمانے امریکہ آ جاتے ہیں۔
یوں تو ہم پاکستانی لوگ ماشاءاللہ گروپ بندی اور گپ بازی میں بھی خیر سے خود کفیل ہیں۔ ایک ایک اینٹ کی اپنی علیحدہ مسجد بنانا تو کوئی ہم سے سیکھے، مگر اس مرتبہ ہماری ٹیم تمام اختلافات اورگروہ بندیوں کو طاق پر رکھ کر نہایت سنجیدگی سے غور کرنے بیٹھی تھی۔ دراصل ہمارا مقابلہ مقامی انڈین تنظیم کی “شام رنگین” سے تھا۔ اس تقریب کے لیے انڈیا سے آئے بہت حد نامور و مقبول فلمی ستاروں اور فنکاروں کے ناچ گانوں کی دهوم پورے امریکہ میں مچ چکی تھی۔
“یار سمیرہ پنا کو ضرور بلائیں” ڈاکٹر منظور صاحب نے ارشاد کیا۔
“سمیرہ پنا کون؟”
ڈاکٹر ملک نے پوچھا۔ ڈاکٹر ملک 25 سال سے امریکہ میں مسلسل مقیم رہنے کے باعث اب پکے امریکن بن چکے تھے۔
“وہی یار، جس نے گایا ہے:
“مینوں پانڈے قلعی کرا دے تے میں مانجاں ساری رات”
“نہیں یار وہ تو قمیضوں لعل صاحبہ نے گایا ہے”
لالٹین والی لال کہ گودڑی کے لعل والی؟”
کسی نے لال پیلے ہوتے ہوئے پوچھا۔
“نہیں یار۔
لال کُرتی والی لال” جواب ملا۔
“ہاں جی، خدا جسے چاہے، گدڑی میں لعل عطا کر دے”
” رب العالمین گڈوی والی کسی بی بی کو بھی راتوں رات ریشماں یا نئی نور جہاں بنا دینے پر قادر ہیں”
“مگر یہ سمیرہ پنا ہے کون بھئ ؟”
پہلے والے حضرت نے ایک بار پھر بہ اصرار پوچھا۔
“وہی!
کیا نام کہ۔۔۔
چٹی چٹی سی، وہی جس کے گال پر تل ہے ”
“فیر ٹھیک اے” چوہدری صاحب نے کہا “فیر میرے کولوں بے شک ہزار ڈالر شامی دوکان تے آ کے لے جانڑاں۔
پر ہے شرطیہ، جے تل ناں نہ ہویا تے فیر پیخے واپس”
ہمارے دوست نے چھپ کر ہمیں آنکھ ماری اور آہستہ سے کہا ” ٹھیک اے سائیں۔
فوراً منظور کر لیئو”
“جے تل نہ وی ہویا تے بادشاہو!
کیڑی دیر لگدی اے بناوندے ہوئے؟”
“سمیرہ پنا کو کہیں گے “ہائے میں صدقے جاواں!
ایڈی سوہنی!”
“اور کدرے نظر نہ لگ جاوے ” کہتے ہوئے اس کے گال پر کاجل سے نظر بٹو کا تل بنا دیں گے۔
کمیونٹی کے سبھی سر کردہ اور آسودہ حال لوگوں سے اسی طرح ڈالر بٹورے جا رہے تھے۔
پروگرام کا تخمینہ دس سے پندرہ ہزار ڈالر تک لگایا گیا تھا۔
پانچ پانچ سو والی اور ہزار ہزار ڈالر دینے والی موٹی تگڑی آسامیوں کی لسٹیں علیحدہ سے بن رہی تھیں۔
راجہ صاحب سے کہا گیا
“آپ نے بھی اس بار کم از کم ہزار ڈالر ضرور دینے ہیں”
“کس چیز کے بھئ؟ ”
“بس ایویں ہی دے دیں، بیبے بچے زیادہ باتیں نہیں پوچھا کرتے۔ ہاں ”
“مگر پھر بھی آخر کیوں؟
کس چیز کے لیے؟
اور ہم اتنے بیبے بھی نہیں ہیں۔ بچے تو ہرگز نہیں ہیں۔ یہ دیکھو ہمارے بال!
اور یہ دھوپ میں سفید نہیں کیے”
“کس چیز سے کیا مطلب؟”
“اور بھائی جان!
یہ پاکستان کی عزت و آزادی کا سوال ہے”
“ہاں جی!
ہماری اپنی عزت کا سوال بھی ہے سرکار۔انڈیا کی شام رنگین سے سخت مقابلہ آن پڑا ہے جناب عالی ”
“سمیرا پنا کو نچوانا اور گوانا ہے جی، کوئی مذاق تھوڑی ہے؟” “جس طرح سمیرہ پنا نہ ناچی تو خدانخواستہ پاکستان کی آزادی چھن تھوڑی جانی ہے؟”
“یہ آزادی ہی ہے اسے نچوانے کی، جس کی ہم سب نے مل کر حفاظت کرنی ہے”
” نا بابا نا!
یہ کنجر خانے ہمیں تو ہرگزمنظور نہیں ہیں۔سیدهے سبھاؤ صرف گانے والے مردوں کا کوئی گروپ شروپ ہی بلا لو”
ایک اور محترم نے رائے دی”
“خاک ڈالو جی ”
“صرف چھابڑی قوال برادران کو بلوا لیں۔
کیا غضب کی قوالی گاتے ہیں، ایمان سے چھتیں اڑا کر رکھ دیتے ہیں”
“چھت اڑانے کا نام مت لو برادر۔ ابھی ابھی ہیرکین سیزن شروع ہوا ہے۔ خدانخواستہ کوئی بد شگونی نہ ہو جائے”
“نہیں جی۔
چھابڑی برادان قوال کو بھی ہرگز مت بلوائیے گا۔ اسلام میں محفل سماع سخت حرام ہے، یہ تو نری بدعت ہے اور جو کافرانہ اور مشرکانہ کلام وہ گاتے ہیں۔
اللہ توبہ، اللہ توبہ!”
“اسلام میں موسیقی تو سخت ممنوع اور پکا پکا کفر ہے”
“دیکھنے سننے والے بھی سارے کے سارے کافر، مشرک اور ملحد۔۔۔
ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے”
کسی صاحب ایمان نے مزید ڈرایا”
“محفل میلاد نہ کرا لیں۔ خرچہ بھی بہت کم ہوگا۔
“مگر محفل میلاد میں آئے گا کون؟
صرف آپ اور ہم۔۔۔
بس دو جنے!”
“نہیں جی،
کسی تبلیغی جماعت والوں کو بلوا کر محفل وعظ رکھ لیتے ہیں، نیکی کی نیکی اور ثواب کا ثواب۔ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آئے”
“نیک کام ہے۔
انشاءاللہ عاقبت الگ سدهرے گی”
“خرچہ بھی نہایت معمولی۔ نہ ہونے کے برابر۔
آنے والے مہمانوں کو مسجد میں ٹھہرا لیں گے”
“آنے جانے کا کرایہ بھی تھوڑا سا۔ بس پہ ہی آ جائیں گے”
“مگر بلائیں کسے؟”
“مولانا اظہر نیازی نقش بندی!
ان کے آگے کس کا چراغ جل سکتا ہے؟”
“نہیں مولانا الحاج باقر رضوی دریا آبادی”
“وہ سب کی بولتی بند کر دیتے ہیں”
“نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔
حافظ کوثر جلال دیو بندی۔
بہت بڑے ولی اللہ ہیں”
“شیعہ ہیں گے؟”
“نہیں، وہابی”
“تب تو نہیں چلیں گے”
“حضور!
مولوی غلام رسول دہلوی کو بلا لیں۔
اپنے دلی کے ہیں۔مہاجر۔۔۔
بہت پائے کے عالم”
اب اتنی ہاہاکار مچی کہ کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔
گویا جوتیوں میں دال بٹنے کا محاورہ زندہ ہو گیا۔

اس سے پہلے کہ سر پھٹول شروع ہو، جناب صاحب صدر نے اپنا پارلیمانی حق اختیار کرتے ہوئے اپنا آخری فیصلہ سنا دیا کہ سمیرہ پنا ہی کو بلایا جائے گا۔
پھر انھوں نے نہایت سمجھداری سے کام لیا۔اس سے قبل کہ مولوی گروپ بائیکاٹ کرتے ہوئے فوراً اٹھ جائے، انھوں نے کھڑے ہو کر عجلت سے محفل برخواست کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں