احباب فیس بک/عمران علی کھرل

ہمیں فیس بک پر آئے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور اس کے بارے میں ہم اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ فیس بک کے احباب بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایں طفل یک شنبہ۔
ہمیں تو فیس بک کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا ہماری ایک اہل علم دوست نے بتایا کہ فیس بک علم و آگہی کا ایک ایسا بحر بے کنار ہے کہ اگر ہم اس میں غوطہ زن ہوئے بغیر مر گئے تو بروز حشر جہلاء کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ ان کی اس بات پر پہلا خیال تو برقی رو کی طرح یہ ذہن میں گزرا کہ ہم بروز حشر کن کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ یہ دیکھنے کے لیے جب اپنے احباب پر نظر ڈالی تو وہاں عجب تماشا تھا۔ کوئی پیر خانقاہ تھا تو کوئی ملحدعقل آگاہ تھا، کوئی صراط مستقیم پر چلنے والا تھا تو کوئی ہر چہرہ پری رو پر پھسلنے والا تھا۔ کوئی علم و ریاضت کا سلطان تھا تو کوئی میناۓ نغمہ زن کا قدر دان تھا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس امید نے ذرا ڈھارس بندھائی کہ ہم محبان اولاد رسول خدا کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔
خیر، ہم اس نیک بخت خاتون کے کہنے پر فیس پر آ گئے لیکن ہماری حالت اس رند پاک باطن کی سی تھی جو جنت میں پہنچ کر اکیلا ہی گھوم رہا تھا۔جب اس حالت کے بارے میں اس خاتون کو آگاہ کیا تو اس نے کہا کہ اس میں کیا مشکل ہے میں اپنی فرینڈ لسٹ آپ کو بھیج رہی ہوں اور اپنے احباب کو بھی بتا دیتی ہوں۔ ان کی اس ہمت افزائی پر ہم نے ان کی فرینڈ لسٹ کو اپنی درخواست شناسائی روانہ کر دی۔ اور حیرت انگیز طور پر اکثر نے شرف قبولیت بھی بخش دیا۔ چند ایک نے جواب نہ دیا تو ان کو ہم نے تہجد کے وقت دوبارہ درخواست بھیجی۔ ان کا ناراضگی سے جواب آیا ،”یہ درخواست بھیجنے کا کون سا وقت ہے “۔جس پر ہم نے عرض گزاری ،”قبولیت کا تو یہی وقت ہے ۔”اس پر انہوں نے ہماری درخواست قبول کر لی۔
آہستہ آہستہ ہم پر یہ راز بھی منکشف ہوا کہ ہمارے احباب میں اکثر خواتین ہیں۔ عقلی طور پر ہمیں اس پر خوش ہونا چاہیے تھا اور ہم ہوئے بھی لیکن جب ان خواتین کی تحریریں پڑھیں اور ان کے پروفائل کو دیکھا تو ہم پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ ان میں سے کوئی قادرالکلام و صاحب دیوان شاعرہ تھی تو کوئی عصمت چغتائی کی ہم پلہ افسانہ نگار۔ کوئی عینی آپا کے پائے کی ناول نگار تھی تو کوئی نوبل انعام یافتہ کتب کی مترجم تھیں، کوئی اس قدر بلند پایہ تنقید نگار تھی کہ ہم نے شکر کیا کہ صاحب کتاب نہیں ہیں ۔لیکن ان خواتین میں ایک بات مشترک ہے ، وہ یہ کہ سب حقوق نسواں کی علمبردار ہیں ، “میرا جسم میری مرضی والی “نہیں لیکن “میرا قلم میری مرضی والی۔ “گویا میرے سامنے آج کل رنگ و نورکا ایک چمستان آباد ہے ہر طرف رنگ برنگے پھول مہک رہے ہیں لیکن میری حالت حضرت آدم کی سی ہے کہ میں ان میں سے کسی بھی پھول کو چھو نہیں سکتا۔

julia rana solicitors london

دل می رود زدستم صاحبدلاں خدارا
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply