بیرون ملک پاکستانیوں کو ایک طعنہ ہمیشہ سے سننا پڑتا ہے کہ تم لوگ باہر جا کے ملکی سیاست اور معیشت پر بولنا شروع کرتے ہو اور اپنے ملک کی خرابیاں گننے لگتے ہو، جس ملک نے پال پوس کے بڑا کیا اس پر لعن طعن کرتے ہو۔۔چلیں میں آپ کو آپ بیتی سناتا ہوں۔
ہمارا کوئی بھی رشتہ دار دوست خلیجی ممالک سے پاکستان آتا تو وہ ہمیں بتاتا تھا کہ وہاں کے حکمرانوں کے لئے جمعہ کی نماز کے خطبے میں نام لے کر دعائیں کی جاتی ہیں اور سب دل سے آمین بولتے ہیں۔ میں یہ سوچتا تھا کہ یہ کونسے خلیفے ہیں اور سلطنت اسلام کے خیر خواہ ہیں جو ان کا باقاعدہ نام دعاؤں میں لیا جائے اور خاص طور پر جمعہ کے خطبے میں۔ ہمارے نزدیک تو حکمرانوں کا جو چہرہ تھا وہ وہی تھا جو ہم نے اپنے ملک میں دیکھا تھا۔ ایک آتا ہے تو دوسرے کے پرچے کھول کے چور ثابت کرتا ہے اور دوسرا آکے تیسرے کا، اور آمریت غالب آتی تو سب کے پرچے کھول دیے جاتے تھے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے کسی کو اپنی عوام کی خوشحالی کا احساس کرتے ہوئے دیکھا نہیں تھا اور ساتھ ہی ان حکمرانوں کی عیاشیوں اور دن دگنی رات چوگنی بڑھتی دولت اور ترقیوں پر حیران تھے۔
میں جب دبئی آیا تو سب سے پہلی چیز جو میں نے یہاں دیکھی وہ نظم و ضبط تھا۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ وہ اپنی حد کو کراس کرے۔ جو لوگ پاکستان میں آئین توڑ کے دندناتے پھرتے تھے، یہاں اشارہ توڑنے کی جرات نہیں کر سکتے ۔ اس کے بعد جو دوسری چیز ہے وہ اس معاشرے کی بردباری تھی۔ برداشت اور قبولیت اس قدر ہے کہ دنیا کے قریب تمام ممالک کے لوگ یہاں پائے جائیں گے لیکن مجال ہے کوئی کسی کو نسل پرستی، مذہب ذات و رنگ کا طعنہ بھی مارے۔
تیسری اور سب سے اہم چیز جو ہے وہ میرٹ کی بالادستی ہے۔ اگر آپ میں ٹیلنٹ ہے، تعلیم ہے اور قابلیت ہے تو آپ کو ترقی کرنے کے لئے کسی سفارش رشوت یا دیگر ذرائع کی ضرورت نہیں ،بھلے آپ کہیں سے بھی ہوں اور کسی بھی مذہب، رنگ و نسل سے ہوں۔
یہ سب تو ہو گئی جنرل باتیں۔ اب آتے ہیں لوکل اماراتی باشندوں کی زندگی کی طرف۔ کہا جاتا ہے کہ اماراتی پاسپورٹ پر جو سہولیات ہیں وہ شاید یورپ و امریکہ کے باشندوں کو بھی حاصل نہ ہوں۔ اماراتی لوگوں کو سرکار کی طرف سے تعلیم، صحت، ہاؤسنگ، شادی بیاہ حتیٰ کہ گروسری وغیرہ میں بھی سبسڈی حاصل ہے۔ دنیا سے بہترین اساتذہ کو بلا کے اپنے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں، صحت کے لئے بہترین ڈاکٹر موجود، روزگار کے مواقع اس قدر ہیں کہ شاید ہی کوئی اماراتی باشندہ بے روزگار ہو یا اس کا کوئی ذریعہ آمدن نہ ہو۔ باہر سے آئی کمپنیوں کو لوکل لوگ سپانسر کرتے ہیں اور گھر بیٹھے پیسے کماتے ہیں۔ بڑی کمپنیوں پر پابندی ہے کہ مخصوص تعداد سے اوپر ملازم ہوں تو اس میں لوکل بندے کو لازمی ملازمت دیں گے۔
دنیا کی بہترین چیزیں اس صحرا میں دستیاب ہیں۔ ہمارے اپنے علاقے گلگت بلتستان کا چلغوزہ جو ہم وہاں کے باشندے خرید کے کھا نہیں سکتے، یہاں کا ایک مقامی میرے ذریعے وہاں سے منگوا کے کھا رہا ہے۔ روس کی بہترین گندم، انڈیا کے بہترین چاول اور پاکستان کے بہترین آم یہاں پر دستیاب ہے اور لوکل باشندوں کی فی کس آمدنی اتنی ہے کہ وہ پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں۔
اور یہ سب سہولیات یہاں کے ان حکمرانوں کے وژن اور مشن کا حصہ ہے جو یہ اپنی عوام کے لئے کر رہے ہیں۔ جب یہ ساری سہولیات دیکھتے ہیں تو مقامی تو دور باہر کا مزدور طبقہ بھی ان کو دعائیں دیتا ہے اور لوکل باشندوں کو تو چاہئے تہجد کی نمازوں میں گڑگڑا کے د عائیں دیں۔
اب اگر کوئی بندہ ان ممالک میں آکے یہ سب دیکھتا ہے تو وہ بھی اس خوشحالی کے سپنے دیکھتا ہے۔ وہ بھی سوچتا ہے کہ اپنے ملک میں اتنا کچھ دستیاب ہونے کے باوجود ہم کیوں ایسا کچھ نہیں کر سکے۔ ہم کیوں گھر سے دور روزی روٹی اور اچھے مستقبل کے لئے خوار ہو رہے ہیں۔ کیوں ہم بھی ایسے ترقی کی منازل طے نہیں کر پارہے۔ یہ سب سوالات اس کے ذہن میں تب آتے ہیں جب وہ دونوں معاشروں کا آنکھوں دیکھا شاہد ہوتا ہے۔ اس لئے وہ کڑھتا ہے فرسٹریٹ ہوتا ہے اور اپنے حکمرانوں کو اور اپنے ملک میں پائی جانے والی خرابیوں کو کوستا ہے۔
ہماری نسلوں نے کسمپرسی دیکھی ہے اس سب کا ذمہ دار ہماری نظروں میں ہر ایک وہ حکمران ہے جس نے بلواسطہ یا بلاواسطہ اس ملک پر حکمرانی کی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر گیا اور ہم زرعی ملک ہو کے گندم برآمد کر رہے ہیں اور ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم سے مٹھی بھر دہشت گرد ختم نہیں ہو رہے۔
یہ سب سوالات ہر اس محب وطن پاکستانی کے ہیں جس کے Remittance پاکستان کے سب سے بڑے ذرائع آمدن میں سے ایک ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں