گزشتہ قسط کا لنک
چوتھی،آخری قسط
اوشو تھنگ اور تیان شورو ؛
آج کا ڈنر ہمارا اوشو تھنگ میں تھا جو یہاں کا سب سے مشہور اور زبردست ہوٹل ہے۔ اسکی یوں تو کئی خصوصیات ہیں جن میں سرفہرست اس کے منگولیائی خیمے، جناب مستنصر حسین تارڑ اور کئی غیر ملکی سیاحوں کی اس جگہ سے وابستگی ہے۔ یہاں تارڑ صاحب کے نام سے ایک بلاک ہے جہاں کمروں کے نام ان کی کتب پہ رکھے گئے ہیں۔یہ ہوٹل کئی دنوں سے پیک تھا جہاں یورپی سیاح بھی نظر آ رہے تھے۔ اس کے مرکزی ہال میں تارڑ صاحب کی مختلف تصاویر، علاقائی ہتھیار اور نوادرات سیاحوں کی توجہ کھینچ رہے تھے۔ ایک جانب گوشئہ کتب تھا جہاں مجھے کئی جاننے والے مصنفین کی کتابیں بھی نظر آئیں۔
اسرار بھائی سے مل کے اپنا تعارف کروایا اور لان کی ہلکی روشنی میں فوارے کے پاس ایک میز پہ ہم بیٹھ گئے۔ عثمان آیا تو ان سے پتہ چلا سلمان کسی ضروری کام سے اسلام آباد کے لیے نکل چکا ہے سو وہ ہمیں جوائن نہیں کر سکے گا۔
ڈنر میں ہم نے ”غوڑکن” کا آرڈر دیا جس کی سلمان نے بہت تعریف کی تھی۔ غوڑکن، ایک قدیم پتھر کے برتن میں پکایا جانے والا بکرے کا سالن ہے جسے یہاں کے روایتی پکوانوں میں عظیم مقام حاصل ہے۔ نگر کے باسی کئی صدیوں سے ایک خاص قسم کے پتھر سے بنے برتنوں
میں کھانا پکاتے آ رہے ہیں اور اسی روایت کو اسرار بھائی نے اوشو تھنگ میں زندہ رکھا تھا۔ گرم گرم شوربے سے آنے والی آواز ”غڑ غڑ غڑ” کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔
میں نے نوٹ کیا کہ اوشو تھنگ کے عملے کو فنِ طباخی کی خاص تربیت دی گئی ہے، جو اکثر بڑے ہوٹلوں میں بھی مفقود نظر آتی ہے۔ ہوٹلنگ ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے جس کا سیاحت سے گہرا تعلق ہے۔ اس قسم کی تربیت مہمانوں پہ بہت اچھا اثر ڈالتی ہے۔ کھانے سے پہلے یہاں کے ویٹر نے نہایت سلیقہ مندی سے ہم سب کے آگے سفید ٹیبل میٹ بچھایا اور ان پہ برتن رکھ دیئے۔ علیحدہ سے ہری مرچیں اور سرکہ بھی میز پہ سجایا گیا۔
کھانا لگنے کے بعد اسرار بھائی بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور گپ شپ کرنے لگے۔ اس دوران میں نے ان کو اپنی دونوں کتب ”شاہنامہ” اور ”حیرت سرائے پاکستان” دکھائیں جن میں گلگت بلتستان کی موسیقی، کھانوں، قلعوں اور عجائب گھروں سے متعلق مضامین کو انہوں نے تنقیدی نگاہ سے پرکھا اور میرا حوصلہ بڑھایا۔
”یہ کتابیں کل آپ مجھے سائن کر کے دینا”۔۔۔۔۔وہ بولے اور میں نے میں ہاں سر ہلا دیا۔
یوں تو غوڑکن منفرد سا تھا لیکن میں نے یہاں آلو کو بہت مس کیا۔ آپ جانتے ہیں نا آلو کھانے کے بعد بندہ آلو سا لگنے لگتا ہے۔ عشائیے کے بعد ہمیں یہاں کی قہوہ ما راز ٹی اعزازی طور پہ پیش کی گئی جس کے بعد ہم نے واپس ہوٹل کی راہ لی۔ اوشو تھنگ جانے سے پہلے میں یہاں کی تمام نوادرات کی دکانیں چھان چکا تھا اور اس وقت اشکین، خشک خوبانی، اخروٹ کا تیل، نگر کا قہوہ، لکڑی کے چمچ اور چھوٹی کے لیے ایک خوبصورت دستکاری والا سوٹ میرے بیگ میں تھا۔
کل کا دن میری روانگی (اور امتحان) کا دن تھا اور وجیہہ نے آگے ہنزہ چلے جانا تھا۔
صبح ہمارا استقبال پھر سے بارش نے کیا۔ یہ بارش دیران سے میرے تعاقب میں تھی۔ میں نے ساڑھے آٹھ تک اوشو تھنگ پہنچنا تھا لیکن ہوٹل سمیت سارا مناپن خالی لگ رہا تھا۔ ایک تو شدید بارش اوپر سے آج یہاں عید غدیر تھی، بڑی کوشش کے بعد ایک ٹیکسی ہاتھ آئی جس نے مجھے ہوٹل سے کچھ نیچے اوشو تھنگ چھوڑا۔
یہاں آ کہ سیدھا کچن کا رخ کیا، اسرار بھائی سے ملا اور ناشتے کا آرڈر دے کہ ہال میں ایک ٹیبل پہ آ بیٹھا۔
اتنے میں اسرار بھائی بھی آ گئے اور میرے بارے میں مزید دریافت کرنے لگے۔ یوں تو ہمارے کئی مشترکہ دوست اور شوق تھے لیکن ایک بڑا حوالہ لاہور کے ”تکیہ تارڑ” کا تھا جس سے ہم دونوں جڑے ہوئے ہیں۔ اپنی اصلی نفاست کے ساتھ ویٹر نے ناشتہ سرو کرنا شروع کیا۔مقامی طور پہ تیار کیا گیا خوبانی کا جیم، پراٹھا اور ایک ڈش میں سجا ”تیان شورو”۔
اگر میں یہ کہوں کہ اس برستی بارش میں، میں خصوصاً اس ڈش کے لیئے اوشو تھنگ آیا تھا تو غلط نہ ہو گا۔ تیان شورو یہاں کا روایتی کھابا ہے جو انڈوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ انڈے کی موٹی تہہ کو رول کر کے بیچ میں ٹماٹر کی کھٹی چٹنی بھری جاتی ہے اور اوپر دھنیا گارنش کر کے سلاد کے پتوں پہ پیش کیا جاتا ہے۔ سواد ایسا کہ دل خوش ہو جائے اور خوشبو ایسی کہ جی اور للچائے۔ اسے میں نے دونوں طریقوں سے کھایا یعنی پراٹھے کے ساتھ بھی اور روکھا بھی۔
تیان شورو سے دو دو ہاتھ کرنے کے بعد چائےسرو کی گئی اور میں نے تب تک اپنی کتب پہ اسرار بھائی کے لیئے دل کی باتیں لکھنا شروع کر دیں۔
مناپن کا شہزادہ ؛
اوشو تھنگ کے اسرار کے لیئے یہ الفاظ شاید سب سے زیادہ موزوں ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کی والدہ نگر کے شاہی گھرانے (میر خاندان) سے تعلق رکھتی تھیں سو آپ ایک شاہی ہستی ٹھہرے، دوسرا آپ اس علاقے کی پہچان بھی ہیں۔ ٹریک کے دوران سلمان نے اسرار بھائی کے بارے میں کافی کچھ بتا دیا تھا لیکن میں کسی سے ملے بغیر اس شخص کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرتا۔
پہلی ملاقات میں انہیں ذہین، ہنس مکھ، خوش مزاج اور عقل مند کاروباری انسان پایا تو دوسری ملاقات میں ان کی شگفتگی، اپنائیت، سادہ پن اور ذہنی وسعت سامنے آئی لیکن میں اب بھی اس شخص پہ تفصیلی نہیں لکھ سکتا کیونکہ مجھے لگتا ہے میں ان سے ابھی بہت کچھ کشید کر سکتا ہوں۔ کیا پتہ اگلی بار انہیں اور جاننے کی تڑپ ہی مجھے مناپن کا مہمان کر دے۔
ہم نے جب نگر کی تاریخ، پاکستان کے حالات، گلگت بلتستان میں فرقہ واریت، تکیہ تارڑ، سیاحت اور دیگر موضوعات پہ بات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے خیالات کافی ملتے ہیں۔
انہوں نے مجھے اوشو تھنگ میں ٹھہر کے کتابیں لکھنے والے مغربی مصنفین کے قصے سنائے۔ جناب مستنصر حسین تارڑ صاحب سےدوستی اور ملاقاتوں کا احوال بھی بتایا، مناپن کی معاشرتی و روایتی زندگی سمیت اوشو تھنگ کی ترقی اور مناپن کا سیاحت میں کردار بھی ڈسکس ہوا یعنی کہ مجھے اگلے انٹرویو کے لیئے بہت سا مواد مل گیا۔
آخر میں اپنی کتابیں کیمرے کے سامنے ان کے حوالے کیں اور جانے سے پہلے اس شخص کو زور کی جپھی ڈالی جس نے نگر کی سیاحت اور ہوٹلنگ انڈسٹری کا نقشہ ہی بدل ڈالا تھا۔ اسرار بھائی کی محبت کہ میرے کہنے کے باوجود انہوں نے مجھ سے ناشتے کا ایک دھیلا بھی وصول نہ کیا۔ اگلی ملاقات اور ایک لمبی نشست کی چاہت کی پوٹلی اوشو تھنگ کے ہال میں کہیں باندھ کہ میں بہت سی یادیں لیئے وہاں سے راکاپوشی ویو پوائنٹ کے لیئے ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔
دل واپس نہیں جانا چاہتا تھا لیکن
میں مسافر تھا اور مجھے واپس جانا ہی تھا۔۔۔۔۔
گلگت بلاتا ہے ؛
ٹیکسی تیزی سے پسان کے پہاڑ اور پل کراس کرتی جا رہی تھی۔ چاروں طرف بادل اور بارش اور ایک عجیب سی اداسی جو پہاڑوں کو الوداع کہنے والے ہر سیاح کے دل میں ہوتی ہے۔ بچھڑنے کا دکھ حسین یادوں کو بھی دل پہ لگا گھاؤ بنا دیتا ہے جو واپس پہاڑوں میں جا کر ہی مندمل ہوتا ہے۔
ٹیکسی نے مجھے راکاپوشی ویو پوائنٹ سے کچھ آگے ایک بیکری پہ اتارا جہاں سے مجھے 12 بجے اسلام آباد کے لیئے فیصل موورز کی ٹکٹ لینی تھی۔ ابھی دس بجے تھے۔ بارش کے باعث سڑکیں سنسان اور مارکیٹ بند تھی سو ٹکٹ لے کے میں نزدیکی بینک الحبیب کے منیجر سے گپ شپ لگانے چل دیا۔ اندر گیا تو سامنے ایاز بھائی کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ یہ دی کاسل ہوٹل کے مالک تھے جہاں میرا قیام تھا۔ بینک منیجر سے تعارف ہوا تو وہ اسرار بھائی کے رشتے دار نکلے، چلو جی یہ تو سارا بینک ہی اپنا ہے۔ ہم بھی چوڑے ہو کے بیٹھ گئے۔ قہوہ پیا اور خوب گپیں لگائیں۔ بلکہ دو گھنٹے تک ان کے سر پہ سوار رہا۔ گیارہ بجے موبائل چارجنگ پہ لگایا اور ساڑھے گیارہ کے قریب آن کر بس ٹرمینل پہ رابطہ کیا۔ آگے ان کا جواب سن کے میرے طوطے اڑ گئے۔
میری بس ملک بھر میں ہونے والی بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث کینسل ہو چکی تھی اور کل تک ہنزہ و گلگت سے کوئی بس اسلام آباد نہیں جانی تھی۔
بھاگم بھاگ ٹکٹ واپس کروائی اور گلگت کے دوستوں کو کال ملائی۔ انصار کا فون آف، ٹیپو بھائی غذر ٹرپ لے کے گئے تھے اور اسامہ سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ خود کو تسلی دی اور بینک کے چوکیدار کو راہ چلتی کسی بھی کار، ٹرک یا مزدہ کو روکنے کا کہا۔ شومئی قسمت چالیس منٹ انتظار کے بعد ایک لوکل ہاتھ آ گئی۔ ویگن جگہ جگہ رکنی تھی سو میں پیچھے بیٹھ گیا۔
گلگت کی طرف رواں تھا لیکن گلگت کے کسی دوست سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ شاید اللہ کو یہی منظور تھا۔ گلگت سے پہلے روڈ بلاک کی وجہ سے ویگن نے دو ڈھائی گھنٹے بعد دینیور اتارا اور وہاں سے آگے ویگن کے ہی ایک ہم سفر کے ساتھ ہم دینیور سے جٹیال اور وہاں سے گلگت کے بس اڈے پہنچے۔ وہ مجھے الوداع کہہ کے چل دیئے اور میں نیٹکو بس ٹرمینل پہ مارا مارا پھرنے لگا۔
وقت کافی تھا سو نیٹکو سمیت مشہ بروم، مارکوپولو اور دوسری بس کمپنیوں سے بس کا پتہ کیا لیکن آگے قراقرم ہائی وے تین جگہوں سے بلاک تھی سو آج کوئی بس میسر نہ تھی۔ اتنے میں اسامہ سے رابطہ ہو گیا۔ موصوف کام کے سلسلے میں استور تھے اور واپسی دو گھنٹے میں تھی۔ اسامہ نے مجھے وہیں انتظار کرنے کا کہا اور میں فیصل موور کے آفس بیٹھ گیا۔ تب تک میں تین چار ٹیکسی والوں کو یہ باور کروا چکا تھا کہ روڈ کھلنے کے بعد جو پہلی ٹیکسی نکلے اس میں میرا جانا کتنا ضروری ہے۔
لگ بھگ دو گھنٹے بعد ڈاکٹر اسامہ ملک اپنے ڈبلیو ایچ او کی جیپ میں تشریف لائے۔ ہاسٹل کے دو دوست بڑے عرصے بعد بغل گیر ہوئے۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ چھ سال ہاسٹل میں ساتھ رہے اور اسامہ کے بلانے پر میں ایک بار بھی گلگت نہ جا سکا اور آج ان حالات میں ہم مل رہے تھے۔
دوست بھی اللہ کی کیسی نعمت ہوتے ہیں۔ اسامہ سے مل کے میری تھکان، پریشانی سب ختم ہو گئی۔ اس کے گھر پہنچ کے فریش ہوا اور چائے کے بعد خود کو چارج کیا۔ میرے جیسے شخص کی چارجنگ دوستوں اور بے گانوں سے مختلف موضوعات پہ طویل گفتگو کرنا ہے۔
ابھی چائے پی کے اٹھے ہی تھے کہ کچھ دیر بعد ٹیکسی اونر کی کال آ گئی۔
رات نو بجے ایک گاڑی اسلام آباد کے لیئے نکل رہی ہے آپ نے جانا ہے۔۔۔؟؟؟
میں آپ کو مشورہ کر کے بتاتا ہوں کہہ کے میں نے اسامہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”تجھے کیا جلدی ہے، رک جا ایک دن۔ کل راستے کھل جائیں گے تو چلے جانا”
مشورہ تو مناسب تھا لیکن ان پاؤں میں سرکاری ملازمت کی جو بیڑیاں تھیں ان کو توڑنا آسان کہاں تھا۔ میں نے اسلام آباد سے بھی آگے پنجاب کے آخری سِرے تک جانا تھا سو دل پہ پتھر رکھ کے ٹیکسی والے کو ہاں کہہ دی۔ اسامہ جانتا تھا میری سیلانی طبیعت کو سو فوراً جیپ نکالی اور گلگت شہر کا کونہ کونہ گھما دیا۔
اندھے کو اور کیا چاہیے ، دو آنکھیں۔
گلگت جب بھی آیا گرمی اور دھوپ نے میرا استقبال کیا تھا لیکن آج تو اس شہر کا موسم ہی بدلا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش سے موسم خوش گوار ہو چکا تھا اور اب عصر و مغرب کے بیچ یہ دھلا دھلا سا شہر (جسے عموماً سیاح پسند نہیں کرتے) مجھے بہت بھا رہا تھا۔ مختلف چوکوں سے گزر کر ہم دریائے گلگت پہ آ ٹھہرے اور اسامہ نے جیپ روک دی۔
چل باہر چلتے ہیں۔ اس نے تو اپنی سگریٹ کا کش لگا لیا جبکہ میں پل سے نیچے دریا کی لہروں کو غور سے دیکھنے لگا۔ دریا کے اس پار نیچے ایک ریستوران کی روشنیاں جگ مگ کر رہی تھیں اور میں یہ سوچ کہ خوش تھا کہ میرا امتحان اب ختم ہونے کو ہے۔ راکاپوشی کا خراج میں ادا کر چکا ہوں۔۔۔۔
لیکن، ابھی سود باقی تھا۔
یہاں سے نکل کہ ہم قراقرم یونیورسٹی دیکھ کے گھر آ گئے۔
اسامہ نے جلدی سے رات کا کھانا تیار کروایا اور چھ دن بعد مجھے ”ماں” کے ہاتھ کا پکا گھر جیسا کھانا نصیب ہوا۔ اتنے میں کار اونر کی کال آ گئی۔ اسامہ نے ہی اپنے ایک کزن کے ہمراہ مجھے وہیں پہنچایا جہاں آج دن میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہو گا۔ سفر کی تھکان کے پیشِ نظر میں نے فرنٹ سیٹ بک کروائی تھی کہ آگے سکون رہے۔ اُسامہ سے بغل گیر ہو کے میں کار میں سوار ہوا اور کچھ دیر میں کار قراقرم ہائی وے پہ فراٹے بھر رہی تھی۔
بونجی کے پاس پھر بارش شروع ہو گئی تو میں نے ورد کرنا شروع کر دیا۔ بارش تو تھم گئی لیکن ایک لینڈ سلائیڈ آگے مل گئی۔ چالیس منٹ یہاں رکنے کے بعد گاڑیاں چلنا شروع ہوئیں۔ آگے لینڈ سلائیڈ کے لیے بدنامِ زمانہ ”تتہ پانی” میں گاڑیوں کی ایک لمبی قطار دکھائی دی۔ لمبے پھنسے، یہ سوچ کے میں نے نیند پوری کرنے کے لیے سر سیٹ پہ ٹکا لیا۔ لیکن ایسے نیند کہاں آنی تھی۔ اللہ اللہ کر کے سوا گھنٹے بعد گاڑی چلی تو دیکھا کہ بارشوں سے پہاڑ کا کافی حصہ سڑک پہ آ چکا تھا جس میں سے ایک گاڑی ایک وقت میں گزر سکتی تھی۔ اللہ اکبر پڑھ کے سفر شروع ہوا اور لگا کہ اب جان چھوٹی مگر۔۔۔
کیڈٹ کالج چلاس کے پاس کتنی دیر رُکے، مجھے یاد نہیں ۔۔یاد ہے تو اتنا کہ ڈرائیور نے چلاس سے پہلے نماز فجر کے لیے ایک چھوٹی سی پہاڑی مسجد کے قریب گاڑی روکی جہاں شدید ٹھنڈے پانی سے وضو کیا تو ہوش آیا۔ اس کے بعد بابوسر پہنچے تو اسے کھلنے میں ابھی وقت تھا۔ یہ وقت بھی گزر گیا اور ہم بابوسر جا پہنچے۔
اس جگہ کے حالات کافی بدل چکے تھے۔ بہت پہلے بابوسر ٹاپ ایک صاف ستھرا سیاحتی مقام تھا جہاں ایک چوکی اور اکّا دکّا لوگوں کے سِوا کچھ نہ تھا۔ لیکن اب۔ ۔اللہ کی پناہ! سوچیں کہ بلندی پہ واقع اس جگہ کا کیا حال ہو گا جہاں اب پیزا سمیت کئی دیگر چیزوں کی دوکانیں کھل چکی ہیں۔ یہاں سے آگے بیسل کے قریب ہم نے ناشتہ کیا اور رش بھرے ناران سے ہو کے سفر جاری رکھا۔ یہاں دریائے کنہار پہ ”سُکی کناری پاور پروجیکٹ” کا کام چل رہا تھا جس کی وجہ سے سڑک کو ایک خم دے کے موڑا گیا تھا۔ ناران سے بالاکوٹ کا راستہ جسم کی چولیں ہلا دیتا ہے۔ میں جو داسو اور بشام کو بائی پاس کرنے پہ خوش تھا اس شدید خراب سڑک سے گزر کہ پچھتا رہا تھا۔ خیر اسی کا نام تو سفر ہے۔
لگ بھگ دوپہر کو ہم کڑی تپسیا کے بعد اسلام آباد پہنچ گئے۔ پہلے سے سن برن اوپر سے چِلچلاتی دھوپ اور شدید پیاس۔ کچھ دیر آرام کیا اور رات کی بس میں یہ سوچ کے سوار ہوا کہ اب آرام سے کھلا ڈلا سوتا ہوا گھر جاؤں گا لیکن۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ والی سیٹ پہ شعبہ میڈیسن شیخ زاید ہسپتال کے ایک سینئر پروفیسر براجمان تھے جو پنڈی میں امیدواروں کا ایف سی پی ایس کا امتحان لے کے واپس جا رہے تھے۔ جان پہچان بھی نکل آئی۔ اپنی فیلڈ کے اتنے سینئر بندے کے سامنے میں ”کھلا ڈلا” ہو کے کیسے سو سکتا تھا (آپ سمجھ رہے ہیں نا) سو آدھا راستہ ان سے باتوں میں گزرا اور باقی آدھا یہ سوچ کر کہ اب اگلی بار کہاں کا سفر کروں۔۔
راکاپوشی کے امتحان یہاں ختم ہو چکے تھے لیکن زندگی کے تو باقی ہیں نا۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں