میں منزلِ پروانہ/ڈاکٹر اظہر وحید

معروف و مقبول طربیہ نظم “میں نعرہِ مستانہ” کے آخری تین اشعار ہنوز موضوعِ سخن ہیں۔ درمیان میں کچھ تعطل آ گیا۔ آج اس نظم کو مکمل کرتے ہیں اور سامانِ دل و جان مکرر کرتے ہیں۔ گزشتہ سے پیوستہ شعر یوں ہے:

julia rana solicitors

 

 

 

میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ
آگ، آتش، نار۔۔۔۔۔ آب، خاک اور باد کی طرح ایک تکوینی حقیقت ہے۔ حرارت اور تپش زندگی ہے۔ زندگی کا جواز محبت ہے یا نفرت۔۔۔۔ اس کا فیصلہ دل اور شکم کی طرح انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ خوش نصیب محبت کو زندگی کا جواز بناتے ہیں۔۔۔۔ خود بھی زندہ رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی زندگی کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ ہماری ممدوح و مذکور ایسی ہی ایک خوش نصیب ہستی ہے، جس نے عشق و محبت کو زندگی کا جواز بنایا۔ عشق کی لَو زندگی میں روشنی دیتی ہے۔ زندگی میں یہ روشنی نہ ہو تو مادے اور مادیت کی حدت انسان کو ظلم اور ظلمت کے جہنم کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ عشق کے باب میں ایک عربی مقولہ ہے” اَلعشق نار یحرق ماسوی اللہ” یعنی عشق وہ آگ ہے جو اللہ کے سوا سب کچھ جلا دیتی ہے۔
برتن کو پاک کرنے کا ایک مروجہ طریق صاف پانی ہے۔ پانی آسمان سے نازل ہونے والے علم کی علامت ہے۔ دوسرا طریقہ آگ میں انتہائی حد تک گرم کرنا ہے، آگ عشق کی علامت ہے۔ یہ آگ اپنے سوا کسی غیر کو برداشت نہیں کرتی۔ اس خاکی ظرف کو پاک کرنے کیلیے بھی عشق کی آگ درکار ہوتی ہے۔ ہابیل اور قابیل کے قصے نے بتایا کہ یہ آگ بھی آسمان سے نازل ہوتی ہے اور یہ دل و جان کی قربانی قبول ہونے کی سند فراہم کرتی ہے۔ آتشِ عشق ایسا تزکیہ کرتی ہے کہ دوئی کا وہم دور ہو جاتا ہے اور حضرتِ عشق خود غیر کی جگہ لے لیتے ہیں۔ غیر کا وجود مفقود اور غیر کا خیال کافور ہو جاتا ہے۔ عشق کی آتشِ لرزاں ہی وہ شمعِ فروزاں ہے جس کی روشنی چار سو ہے۔یہ روشنی جہاں بھی ہوگی طالبینِ حضرتِ عشق وہاں دیوانہ واراور پروانہ وار پہنچیں گے۔
“سوزشِ ہجراں ” ایک بلیغ اصطلاح ہے۔ ہجر طالب کے دل میں سوز پیدا کرتا ہے۔ قلب میں سوز ایک حد سے بڑھ جائے تو پورا وجود ایک طلب اور تڑپ کی صورت دھار لیتا ہے۔ ہجر کا عرفان وصل کی نوید لے کر آتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ فراق کا عرفان وصال پر منتج ہوتا ہے۔ ہجر اور وصل کی دوئی ختم ہو جاتی ہے۔ جلوہِ محبوب کے شہ رگ کے قریب ہونے کا انکشاف قرب کو اقرب میں بدل دیتا ہے۔ یہ مقام راہروانِ منزل کے لیے خود ایک مقامِ منزل بن جاتا ہے۔ اب یہ راہرو روشنی اور ہدایت کی شمع فروزاں بن کر ایک نشانِ منزل ہو جاتا ہے۔ یہ شمع فروزاں منزلِ پروانہ ہے۔ پروانہ حضرتِ عشق کے سچے متلاشی کی والہانہ طلب کی علامت ہے۔ پروانہ سچا طالب ہے۔ راہِ طلب میں اپنی جان وار دیتا ہے۔ اس کے سفر کی بنیاد خبر نہیں، نظر ہے۔ یہ طالب جہاں عشق کی شمع فروزاں دیکھتا ہے، پروانہ وار اس کی طرف لپکتا ہے، اور اپنا تن من دھن اس پر وار دیتا ہے۔
“میں حسنِ مجسم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پھول ہوں، شبنم ہوں، میں جلوہِ جانانہ”
حسنِ مطلق اپنی ذات میں واحد و یکتا ہے۔ نقش و نگارِ کثرت اس کی جلوہ گاہ ہیں۔ وہ کہیں مجسم ہے اور کہیں مجرد! ایک طالبِ صادق جب تجسیم میں تجرید کا مشاہدہ کرتا ہے تو محرمِ راز ہو جاتا ہے۔ اس لیے عاشقانِ صادق کے لیے حرم اور دیر میں تفریق کرنا ایک کارِ دشوار ہوتا ہے۔ عشق سکر کی کیفیت وارد کرتا ہے اور حالتِ سکر میں سمتوں کی تفریق و تعین ختم سا ہونے لگتا ہے۔ بہر طور وہ ہر جا حسن ہی دیکھتا ہے۔ اگر حسنِ مجسم کو ذات کہہ دیا جائے تو گیسوئے برہم اس کی صفت ہے۔۔۔۔اسے ہم صفتِ بے نیازی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اقبالؒ بھی یہاں اقبالِ جرمِ محبت کرتے نظر آتے ہیں:
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر
اس مقام پر حضرتِ واصفؒ بھی اعترافِ محبت بھی یوں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
تیرگی گیسوئے خمدار سے آگے نہ بڑھی
روشنی تابشِ رخسار سے آگے نہ بڑھی
بس سو بات کی اک بات کہ وہ بے نیاز ہیں اور ہم نیاز مند!!
یہ عالمِ کثرت جلوہ گاہِ صفات ہے۔ یہ سارا عالم ایک ہی ذات کی گوں ناگوں صفات کا مظہر ہے۔ جلوہِ ذات کہیں پھول اور کہیں شبنم کی صورت میں ہے۔ ایک ہی جلوے کا مدھر نغمہ ہے جو کہیں زاغ اور کہیں طاؤس کی صورت میں رقص کناں ہے۔ پھول اور شبنم کا تعلق یہاں بہت معنی خیز ہے۔ پھول حسن کا جلوہ ہے تو شبنم فراق کے آنسو!
“جلوہِ جانانہ”جلوہِ ذات کا طالب خود جلوہ کیسے بنتا ہے، اس کا اظہار بابا بلّھے شاہؒ یوں کرتے ہیں:
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
یہ شدتِ طلب ہے جو طالب کو مطلوب کا رنگ لگاتی ہے اور طالب کا انگ انگ اس رنگ میں ڈھلتا ہوا، مطلوب ہی کی شہادت دینے لگتا ہے۔ کلمہ شہادت کا یہ ایک باطنی رخ ہے۔ عارف لوگ کہتے ہیں کہ کلمہ اس طرح پڑھو کہ کلمہ ہو جاؤ۔
“میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ”
عاشقِ صادق اور طالبِ کامل صورتِ بسمل ہوتا ہے۔ وہ تڑپ کر تڑپا دینے کا ہنر جانتا ہے۔ اس کا باطن ایک طوفان خیز سمندر کی طرح ہوتا ہے لیکن اس کا ظاہر ایک پُرسکون ساحل کی مانند ہوتا ہے، جہاں لوگ آتے جاتے ہیں، ساحل پر رونقیں بپا کرتے ہیں، دور سے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کا دور سے مشاہدہ کرتے ہیں اور سمندر کے حال احوال دور سے جاننے اور جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ٹوٹا ہوا دل ایک بلیغ استعارہ ہے۔ اس کی تشریح اقبالؒ کے اس شعر میں تلاش کریں:
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مئے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
یہ نازک آبگینہ بالآخر ٹوٹ جاتا ہے…… لیکن۔
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
آئینے کی طرح دل کے ٹوٹ کر بکھر جانے سے معجزے رونما ہوتے ہیں۔ شکستہ دل کی قیمت وہی جانتا جس کے کارن یہ ٹوٹتا ہے۔ مخلوق کو نہیں معلوم کہ اس شکستگی کاحاصل پختگی اور ہمیشگی ہے۔ کوزہ گر کو شکستہ ظروف بہت پسند ہیں۔ ٹوٹے ہوئے پیمانوں کو وہ اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔ وہ جسے اپنے لیے کارآمد بنا لیتا ہے، اسے دنیا کے لیے ناکارہ کر دیتا ہے۔
شہر کثرت کی علامت ہے اور ویرانہ “ھو” کا عالم ہے۔ طالبِ ذات کثرت میں وحدت کا امین ہوتا ہے۔ “ھو” کا ذکر ھو کے عالم میں لے جاتا ہے۔ “ھو” توحید مطلق و مجرد کی طرف اشارہ ہے۔ قلندر لوگ “تذکرہِ غوثیہ” میں اسے “اجڑا ہوا گاؤں ” بھی کہتے ہیں۔ اس طرف کا رخ کرنا فقط قلندر مزاج لوگوں کا حوصلہ ہوتا ہے۔ قلندرِ وقت واصف علی واصفؒ کہتے ہیں:
جِتّھے تخت خزانے ہوون اوتھے اساں نہ جانا،
جِتّھے عشق دے تنبو لگّن او ساڈی جاگیر

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply