انسان اور کوّے/محمد وقاص رشید

ایک ہی دن میں دو واقعات پیش آئے اور انکے درمیان ذہن نے جو ربط قائم کیا اس پر طالبعلم حیران رہ گیا۔
گھر پر ٹی وی چلایا تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ آیا۔پاکستان میں تجارت کے لیے بچے پیدا کرنے والی ایک عورت نامی مشین نے اپنی تیرہ سال کی بیٹی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 136 ویں نمبر پر آنے والے نظامِ انصاف کے ایک منصف کے ہاتھ دس ہزار ماہانہ کرایے پر دے دی۔

 

 

 

جس کے گھر میں ایک ڈائن رہتی تھی جس نے اس بچی پر بہیمانہ تشدد کیا اور صد حیف اس ڈائن کے ساتھ ان ماں باپ پر بھی کہ جن کو پتہ تب چلا جب بچی کی موت اور اسکے زخموں کے کیڑوں کی حیات یکجا ہونے لگی۔

میں ایک تحریر میں پہلے لکھ چکا کہ ایسی کسی خبر پر فوراً نگاہ اپنے بچوں پر پڑتی ہے ۔ سوچتا ہوں ان بچوں اور اُن بچوں کے درمیان کیا فرق ہے۔ انہی جیسے پھولوں سے بچے ہیں جنہیں اس سرزمین پر پھیلی بے حسی کی قیمت اپنے بچپن سے چکانی پڑتی ہے۔

بہت دکھے ہوئے دل کے ساتھ میں پلانٹ پر پہنچا تو اونچائی پر لگی  ہوئی ایک مشین میں مسئلہ آگیا۔ میں نے اپنے اوزار اٹھائے اور اوپر جانے کے لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا۔ ابھی میں نے سیڑھیوں پر پہلے چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ ایک کوّا میری گردن پر پنجوں سے وار کرتے ہوئے بالکل سامنے آبیٹھا۔ ایک دم میں سیڑھیوں پر غیر متوازن ہوا اور ڈر گیا۔ سائیڈ ریلنگ کو پکڑے ہونے کی وجہ سے گرنے سے بچ گیا۔
اتنے میں اسکا ساتھ دینے کے لیے شاید کوّی بھی آ گئی۔ دونوں زور زور  سے چیخ رہے تھے اور بار بار اُڑ کر قریب آ بیٹھتے تھے۔ انکی گردن کے بال غصے سے کھڑے ہوئے تھے اور چونچوں سے تھوک باہر گر رہا تھا۔ مسلسل کائیں کائیں کی قریب سے آتی اونچی آواز ایک ہیبت ناک اور کریہہ سا منظر پیش کر رہی تھی۔

مشین پر جلد از جلد پہنچنا ضروری تھا۔ میں نے ٹول کٹ میں سے ایک رینچ نکالا اور اس سے کوّؤں کو ڈراتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ یہ ایک جگہ سے اڑتے اور دوسری جگہ بیٹھ جاتے۔ مگر انہوں نے آخر تک اپنی پوری کوشش کی کہ میں اوپر نہ پہنچ پاؤں۔

بہرحال میں مشین پر پہنچا اور کام کرنے لگا ،ایک خاص بات جو میں نے نوٹ کی کہ اگر آپ ان کی طرف متوجہ ہوں تو یہ صرف بول کر ڈراتے ہیں اور جونہی آپ انکی جانب کمر کریں اور اپنے کام میں مصروف ہوں یہ حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ جوڑا واپس آنے تک بھی ساتھ رہتا ہے۔

میں نیچے پہنچا تو ایک سویپر نے مجھے بتایا کہ ساون بھادوں کے موسم میں انڈوں سے انکے بچے نکلتے ہیں اس لیے یہ انکی حفاظت کے لیے ایسا کرتے ہیں ۔

میں حیران ہوا کہ وہ کوّے جو عام طور پر ڈرتے اور دور بھاگتے ہیں وہ ماں باپ کے عہدے پر فائض ہو کر باقاعدہ حملہ آور ہونے لگتے ہیں۔ اور احساسِ ذمہ داری کا عالم دیکھیے کہ سیمنٹ ملوں کے اوپر ٹاپ پر ایک کرین ہے جسکے گارڈرز میں کہیں انکے گھونسلے ہیں جہاں تک ہماری پہنچ ہی نہیں۔ لیکن یہ احساس ہی کافی ہے کہ ہمارے بچے ابھی اپنی حفاظت خود کرنے کے اہل نہیں اور انکے بال و پر آنے تک ہم انکے محافظ ہیں۔

اک ذرا توقف ! آپ اندازہ کیجیے کوّے ماں باپ بن کر سوچتے ہیں تو شاہین بن جاتے ہیں ۔ اور ہم انسان کیسے اشرف المخلوقات ہیں کہ اپنے ننھے بچوں کو ظالم زمانے کے پاس رہن رکھوا کر اپنے پیٹ کے وہ کیڑے پالتے ہیں جو ان بچوں کے زخموں سے پہلے ہمارے پیٹوں میں اور ظالم ڈائنوں کے ذہنوں میں پڑتے ہیں۔ یہ کیڑے ہمارا احساس کھا جاتے ہیں اور احساس کے بنا انسان کوّ وں سے بدتر ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply