راحتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران جب ان سے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے سوال کیا گیا تو نواز شریف کا کہنا تھا، ‘سعودی عرب پاکستان کا محبت کرنے والا دوست ملک ہے، اس کے ساتھ ہمارے تعلقات تقسیم کے وقت سے ہیں اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں، سعودیہ اور پاکستان کے خاص تعلقات ہیں’۔
سابق وزیراعظم نے کہا، ‘میرا سعودیہ عرب جانا کوئی عجوبہ نہیں، لیکن اس حوالے سے یہاں بے پر کی اڑائی گئیں، جو لوگ ایسا کر رہے ہیں اور جنہوں نے ایسا کیا، انہوں نے مجھ پر نہیں بکہ سعودی عرب پر ظلم کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے بھی یہ کیا، انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے’۔
اپنی نااہلی اور نیب ریفرنس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘یہ کیسی دھاندلی ہے جو آج تک نہیں ملی، پچھلے کتنے عرصے سے میرے خلاف دھاندلی ڈھونڈنے کی کوشش کی جارہی ہے، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم روز یہاں نیب ریفرنس کے حوالے سے آتے ہیں، مجھے بتائیں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟’
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ‘مجھے تو اقامے کی بات کرکے فارغ کیا گیا، اس کے مقابلے میں عمران خان نے ایمنسٹی اسکیم (عام معافی) کا استعمال کیا اور اپنی آمدنی، جو انہوں نے پتہ نہیں کہاں سے حاصل کی تھی، کی معافی مانگی’۔
نواز شریف نے کہا، ‘عمران خان نے لاکھوں پاؤنڈز جو کروڑوں روپے بنتے ہیں،کی ٹرانزیکشن کا اعتراف کیا ہے، نیازی سروسز جو کچھ کرتی رہی، اس کا اعتراف کیا ہے لیکن عدالت نے کہا کہ عمران صاحب ہم آپ کو بے گناہ سمجھتے ہیں’۔

سابق وزیراعظم نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو مخاطب کرکے کہا، ‘عمران خان صاحب آپ اقبال جرم کر بیٹھے ہیں، یہ ریکارڈ کی بات ہے، ایک تاریخ رقم ہوچکی ہے۔ آپ نے اقبال جرم کیا اور پھر عام معافی مانگی، آپ نے کہا کہ مجھ سے جرم ہوگیا ہے، لہذا مجھے معاف کردیں، اگر آپ نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، کوئی غلط کام نہیں کیا تھا، کوئی چوری نہیں کی تھی تو آپ نے معافی کیوں مانگی؟ ایمنسٹی کے لیے کیوں اپلائی کیا؟ اور اس پر ہمارا بینچ انہیں صادق اور امین ڈکلیئر کر رہا ہے’۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں