(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
قسط نمبر 13
دوناشناسا نوجوان والدصاحب سے ملنے ہمارے گھر آئے ہوئے ہیں۔ امی جان نے سُرخ اینٹوں والے صحن میں دھرے چولہے پر چائے تیار کی ہے۔ صحن سے ملحقہ ننھی سی کیاری میں ایستادہ امرود کے بوڑھے پیڑ پر چڑیاں بدستور چہک رہی ہیں۔ پپتے کا درخت البتہ اداس سا نظر آتا ہے۔وہ دوسری منزل کے کُھلے برآمدے کی ٹین کی دیوار کی طرف جھکا جارہا ہے۔ عمر رسیدگی کی وجہ سے یا نقاہت کے سبب؟ مجھے معلوم نہیں۔ وہ پپیتے کا پہلا درخت تھا جو میں نے زندگی میں دیکھا تھا۔ لیکن میں دیکھتا تھا کہ وہ روزبروز سوکھتا جارہا ہے۔ امی جان کہتی ہیں کہ پپیتے کے درخت اکیلے نہیں پھولتے پھلتے۔ یہ اپنے ساتھی کے ساتھ خوش رہتے ہیں۔ اس کا ساتھی گر چکا ہے۔ اس لیے اب یہ تنہا اور کم زور ہے۔
’’کیا ہم اس کے ساتھ دوسرا درخت اگا سکتے ہیں؟‘‘ میں استفسار کرتا ہوں۔
’’نہیں، ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ یہ مکان ہماری ملکیت نہیں اور مالک مکان ایسا کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔‘‘ امی جان کہتی ہیں اور آج ہی مین بازار سے خریدے تین نئے نکور رنگ دار مگوں میں بھاپ اڑاتی چائے انڈیل کر مجھے تھما دیتی ہیں۔
’’جاؤ، اندر دے آوَ۔ دھیان سے لے جاؤ۔‘‘ وہ کہتی ہیں۔
میں کمرے کے دروازے پر پڑا سوتی پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوتا ہوں۔ سلام کرتا ہوں اور چائے کے مگ احتیاط سے میز پر رکھ دیتا ہوں۔ والد صاحب پاوں لٹکائے ہمارے پڑوسی علم دین کے بنائے کالی لکڑی کے پلنگ پر بیٹھے ہیں۔ ان کی دائیں ٹانگ بائیں کے اوپر رکھی ہے اور آہستہ آہستہ مسلسل حرکت میں ہے۔ ہلکی نیلی شلوار قمیض میں وہ بہت باقار دکھائی دے رہے ہیں۔ دائیں ہاتھ کی دوانگلیوں میں فلٹر والا سگریٹ تھامے وہ مہمانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہونٹوں پر وہی دھیمی دھیمی مسکان دمک رہی ہے۔
’’ تو آپ کو کس نے بتایا میرا۔۔۔؟‘‘ وہ مہمانوں کی طرف دیکھتے ہو ئےپوچھتے ہیں۔
’’ جی، میرے والد صاحب نے کہا تھا کہ آپ سے ملوں۔ وہ آپ کو بہت مدت سے جانتے ہیں۔ اور پھر میں نے بھی آپ کے کچھ افسانے پڑھے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ نے کئی فلموں کی کہانیاں لکھی ہیں ۔‘‘ ایک مہمان جواباً کہتا ہے۔ پھر وہ اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اُس کے وہ دوست بیرونِ ملک سے آئے ہیں اورایک اچھی سماجی فلم بنانا چاہتے ہیں۔
والدصاحب ان سے پوچھتے ہیں کہ فلم کے ہدایت کار کون ہوں گے تو وہ بتاتے ہیں کہ حتمی فیصلہ تونہیں ہوا مگر ایس۔ سلیمان سے بات چیت کررہے ہیں۔اس پر والد صاحب انھیں بتاتے ہیں کہ اکثر دوسرے ہدایت کاروں کی طرح ایس۔ سلیمان صاحب کی بھی اپنی ٹیم ہے اور یہ کہ وہ بشیر نیازسے کہانی لکھوانا چاہیں گے۔
’’ہم جانتے ہیں مگر ہم اوریجنل کہانی پر فلم بنانا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ کے پاس آئے ہیں۔‘‘ دوسرے نوجوان کہتے ہیں۔
’’ٹھیک ہے ۔ آپ ڈائریکٹر فائنل کرلیں۔ پھر مجھے بتا دیجئے گا۔ والدصاحب کہتے ہیں۔
مہمان رخصت ہوجاتے ہیں اور واپس نہیں آتے۔
٭٭٭
ہم والدصاحب کے ساتھ لارنس گارڈن (باغِ جناح) کی سیر کر رہے ہیں۔ باغ کے گوشہ ’’گلستانِ فاطمہ‘‘ میں فلم کی شوٹنگ ہورہی ہے۔ کوئی نغمہ فلمایا جارہا ہے۔ ہم شوٹنگ دیکھنے کے لیے رُک گئے ہیں۔ والدصاحب بھی ہماری وجہ سےٹھہر گئے ہیں۔ وہ کسی سوچ میں یا شاید یادوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اتنے میں فلم کے ڈائریکٹر کی آواز آتی ہے: ’’کٹ‘‘۔ اور سارا عملہ وہاں سے ہٹنے لگتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ فلم کا کیمرا مین ٹرالی سے اتر کر ہماری طرف آرہا ہے۔
شاید ہمیں یہاں نہیں ٹھہرنا چاہیے تھا۔ میں سوچتا ہوں۔ لیکن وہ سیدھا والد صاحب کے پاس جا کھڑا ہوتا ہے اور مؤدب انداز میں سلام کہتا ہے۔ والدصاحب بھی شائستگی سے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے:
’’یزدانی صاحب، آپ نے یقیناً مجھے نہیں پہچانا۔‘‘
’’جی، آپ درست کہہ رہے ہیں۔ میں نے واقعی آپ کو نہیں پہچانا۔ کیا ہم پہلے مل چکے ہیں؟‘‘ والد صاحب متذبذب انداز میں پوچھتے ہیں۔
’’ جی، مل چکے ہیں مگر کئی برس پہلے۔۔۔جب میں سٹوڈیو میں سٹاف کو چائے پلانے پر مامور تھا۔ مجھے فلمی دنیا بہت اچھی لگتی تھی۔ اسی دنیا کا حصہ بننے کا خواب لے کر میں اِدھر آنکلا تھا مگر مجھے کوئی ڈھنگ کا کام نہ ملا۔ مجھے یاد ہے آپ کی ایک فلم کے سیٹ پر میں نے سب کو چائے پیش کی تو آپ اس وقت کیمرے کو اگلے سین کے لیے تیار کررہے تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے آپ سے پوچھا تھا کہ کیا میں اس کیمرے میں سے دیکھ سکتا ہوں۔ صرف ایک بار۔ اور آپ نے مسکراتے ہوئے مجھے اجازت دے دی تھی۔ ’’ضرور دیکھو۔ اس کے لینز سے دنیا اور طرح کی دکھائی دیتی ہے۔‘‘ آپ نے کہا تھا۔ یوں میں نے پہلی بار کیمرے کی آنکھ سے دنیا کو دیکھا تھا۔مجھے تو کوئی آلات کے آس پاس بھی نہ آنے دیتا تھا۔ بس تبھی میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ کیمرا مین بنوں گا اور دیکھ لیجیے، میں بن گیا۔ کئی فلموں میں معاونت کرنے کے بعد اب مجھے پہلی فلم ملی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ اس کی شوٹنگ کے روز مجھے ملے۔ یہ بہت مبارک بات ہے میرے لیے۔ کیونکہ کیمرے کے پیچھے کھڑا میں آپ کی مہربان نگاہ کو یاد کررہا تھا۔‘‘یہ کہہ کر وہ اپنا ہاتھ مصافحہ کے لیے آگے بڑھادیتے ہیں۔ والد صاحب نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیتے ہیں اوراور کہتے ہیں:
’’ یہ آپ کا ارادہ، لگن اور محنت ہے جو آپ کو یہاں تک لے آئی۔ پوری دیانت داری سے کام کرتے رہیے اور آگے بڑھتے رہیے۔ مجھے بھی آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘
اتنے میں ڈائریکٹر کی طرف سے اگلے سِین کا اعلان ہوتا ہے ۔ وہ صاحب اجازت لے کردیگر عملے کی جانب چلے جاتے ہیں ہیں اور ہم بابا تُرت مراد صاحب کےمزار کے پاس سے گزرتے ہوئے بیرونی گیٹ کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
٭٭٭
بھائی ساجد یزدانی بتاتے ہیں کہ فلم سٹوڈیوز میں والد صاحب کو ہرکوئی جانتا تھا۔ حالاں کہ وہ مدت سے انڈسٹری کو خیر باد کہہ چکے تھے۔شباب کیرانوی،باقر رضوی، آغا حسن امتثال،حسن طارق، قتیل شفائی،طفیل ہوشیارپوری، کلیم عثمانی، سیف الدین سیف، علاالدین اور طالش تو ان کے دیرینہ دوست ہیں۔ ساجد بھائی خاص کر تدوین کار رشید حبیب اور ہدایت کار رزاق خان کے نام لیتے ہیں کہ وہ دونوں ان کی عزت اپنے والد کے طور پر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یزدانی صاحب ہماری رہنمائی اور حوصلہ افزائی نہ کرتے تو ہم کسی دفتر میں معمولی خدمت گار ہی ہوتے۔ مجھے یاد ہے چچا رشید حبیب جب بھی اپنی بیگم کے ساتھ ہمارے ہاں آتے ہمیشہ سر جھکا کر امی جان سے پیار لیتے اور اپنی بیگم سے بھی ایسا ہی کرنے کے لیے کہتے۔ساجد بھائی بتاتے ہیں کہ بھارت سے ہدایت کار راکھن (آر اے خان) پاکستان اگئے ہیں اور وہ بھی والد صاحب سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔ ریاض شاہد کو پہلی فلم کی کہانی اور مکالمے لکھنے کا موقع بھی والدصاحب نے دلوایا تھا۔ ریاض شاہد ان دنوں کسی ہفت روزہ سے منسلک تھے اور لکھنے کا شوق رکھتے تھے۔
٭٭٭
ایک فلمی ہفت روزہ میں ایک پنجابی فلم کا اشتہار شائع ہوا ہے۔ نام ہے ’’ کھیتاں دی رانی‘‘ اور اس کے ہدایت کار یزدانی جالندھری ہیں جبکہ نغمہ نگار ہیں طفیل ہوشیارپوری۔میں والد صاحب سے اس بارے میں پوچھتا ہوں تو بتاتے ہیں کہ رائل پارک میں ان کے ایک دوست ہیں جن کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ ایک فلم بنائیں۔ بس یہ انھی کی خواہش و کوشش ہے۔’’یہ فلم کب بننا شروع ہوگی؟‘‘ میں اشتیاق سے پوچھتا ہوں۔
’’ اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ ہمارے پروڈیوسر دوست مطلوبہ سرمایہ کب تک جمع کرلیتے ہیں۔ فلم کے کے لیے بہت سرمایہ درکار ہوتا ہے۔‘‘ والد صاحب اطمینان سے جواب دیتے ہیں۔فلم ساز مطلوبہ سرمایہ فراہم نہ کرسکے اور فلم کا منصوبہ افتتاح کے بعد ہی تعطل کا شکار ہوگیا اور پھر تکمیل ناآشنا ہی رہ گیا۔
٭٭٭
بھائی خالد یزدانی نے ’’سازش‘‘ کے نام سے جو فلم بنانے کا اعلان کیا تھا۔ پہلے تو اس فلم کا نام بدل کر ’’شکست‘‘ کردیا گیا ہے اور اب وہی سرمایہ کی فراہمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ والد صاحب کہانی ، منظرنامہ اور مکالمے قریب قریب مکمل کرچکے ہیں مگر فناسنگ توقع کے مطابق ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ جان کر ہم سبھی اداس ہیں۔ والد صاحب اب بھی پوری طرح پرسکون اور مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔
’’ فکر مت کریں۔ بس جو اللہ کو منظور۔‘‘ وہ خالد بھائی کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
٭٭٭
رات گئے میں اپنے بستر کے پاس پڑے ریڈیو کا بٹن گھمائے جارہاہوں۔ بھارتی فلمی نغموں کا پروگرام بھی ختم ہوچکا۔ اب سُوئی کہیں رُکتی ہے تو فارسی زبان میں نشریات سنائی دیتی ہیں اور پھر شُوں شُوں کے اندر سے کوئی عربی گیت نمودار ہونے ہونے لگتا ہے اورکچھ اور آگے کسی ان جانی آواز کا پروگرام۔ اتنے میں ایک سٹیشن پر اب بھی فلمی گیت چل رہے ہیں۔ پرانی فلموں کے گیت ہیں۔ آواز اورموسیقی سے صاف پتہ چل رہا ہے۔ دوسرا گیت ختم ہوتا ہے اور اناونسر شُستہ اردو میں کہتا سنائی دیتا ہے:
’’ یہ گیت تھا فلم ’بارہ بجے‘ کا ۔۔۔۔ بول لکھے تھے یزدانی جالندھری نے۔ میں چونک کر بستر پر بیٹھ گیا ہوں۔ یہ کون سا سٹیشن ہے بھلا؟ میں سوچتا ہوں۔ اتنے میں اناونسر کی صدا پھر سنائی دیتی ہے:
’’ یہ ریڈیو پاکستان کراچی ہے۔‘‘
میں حیران ہوں کراچی سٹیشن کے اتفاقاً مل جانے پر بھی اور والد صاحب کا گیت سننے پر بھی۔ کیونکہ میں نے لاہور ریڈیو سٹیشن سے یہ گیت کبھی نہیں سنا ۔
اس بات کا ذکر والدصاحب سے کرتا ہوں تو وہ فرماتے ہیں کہ فلم ’بارہ بجے‘ کراچی ہی میں بنی تھی۔ اُن دنوں فلمی صنعت کا مرکز وہی شہر تھا۔ اسی لیے وہاں کی ریڈیو میوزک لائبریری میں اس فلم کے ریکارڈز محفوظ ہوں گے۔
میں پھر سے ریڈیو پاکستان کراچی کی نشریات لاہور میں سننے کی کوشش کرتا ہوں مگر ہمارے ریڈیو کی وہاں تک رسائی پھر ممکن نہیں ہوتی۔
٭٭٭
کراچی ہی کے ایک رسالے میں ایک مضمون چھپا ہے جس میں لکھا ہے:
’’۔۔۔پھر کراچی ہی کی ایک فلم کے لیے لاہور کے شاعر یزدانی جالندھری نے فلم ’شکار‘ کے لیے گیت لکھے اور ان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ فلم شکار میں ان کا لکھا ہوا گیت گلوکار مہدی حسن کا سب سے پہلا فلمی گیت تھا، جسے موسیقار اصغر علی محمد حسین نے سروں سے سنوارا اور مہدی حسن نے اپنی جادو بھری آواز سے نکھارا تھا۔
اس گیت کا مکھڑا تھا:
میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے
فلم شکار تو فلاپ ہوگئی تھی لیکن مہدی حسن کی آواز کا سفر شہرت کی طرف گامزن ہوتا چلا گیا تھا۔‘‘
میں نے یہ پڑھ کر والدصاحب کی طرف دیکھا اور پوچھا: ’’ فلم شکار کیوں فلاپ ہوگئی؟‘‘
’’باکس آفس پر فلم کی کام یابی اور ناکامی کی وجوہات جاننا آسان نہیں۔ ہاں، فلم کے اچھا یا بُرا ہونے پر بات کی جاسکتی ہے۔ ہم نے اپنی طرف سے اچھی فلمیں ہی بنائیں۔ اب وہ نہیں چلیں تو کیا کِیا جاسکتا ہے!
یہ کہتے ہوئے بھی وہ غم زدہ دکھائی نہیں دیتے۔ ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان ہے۔انگلیوں میں کیپسٹن کا ادھ جلا سگریٹ اورعینک کے شیشوں میں سے چمکتی آنکھیں جانے کس منظر کے تعاقب میں رواں ہیں! ضرور ماضی کا کوئی دل چسپ منظر ہوگا۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
—
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں