خراسان میں گزرے چالیس دن/سراجی تھلوی(3)

گلہاے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن۔

 

 

 

 

اس ورکشاپ کی خوبصورتی اور انفرادیت اس جہت سے بھی تھی کہ ایک ہی وقت میں تقریباً پندرہ سے بیس ممالک سے مختلف بودو باش، مختلف افکار و عقائد ،متفرق تہذیب و ثقافت کے حامل طلباء شریک تھے۔جن سے وقتاً فوقتاًمختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرنے کا سنہرا موقع ملتا تھا۔ اور ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت،انداز بود و باش کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔
گزشتہ تحریر میں سلسلہِ کلام باقاعدہ کلاسس کے آغاز پر پہنچ کر رک گیا تھا۔تین جولائی 2023سے کلاسس کا آغاز ہوا ۔چالیس دنوں کےلیے ہمارے قیام و طعام کا انتظام مشھد کے شہر کے وسط میں “حرم ملکوتی سلطان اولیاء حضرت امام رضا ع “سے 15منٹ کے فاصلے پر “خیابان مدرس “پہ ایک وسیع و عریض 14طبقوں پر مشتمل سربفلک انتہائی خوبصورت عمارت میں تھا ۔یہ عمارت پہلے “ہوٹل فردوسی “کے نام سے مشہور تھی۔بعد میں یہ بلثڈنگ المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی نے کرائے پر لی۔اب یہاں “miu المصطفی یونیورسٹی مشھد کیمپس کے ادارتی امور،اور کلاسیں  ہوتی  ہیں۔ساتویں اور آٹھویں منزل “طرح ولایت”میں شریک “المصطفی کے طلباء کے ساتھ مختص تھیں۔اس ورکشاپ میں 6کتابوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ثلث اول ،ثلث دوم ،ثلث سوم ہر ثلث میں دو کتابوں کو ختم کرکے امتحان دینا ہوتا تھا۔اور دن میں ہر کتاب کی دو ٹائم کلاس ہوتی تھی ۔ہر کلاس ڈیڑھ گھنٹے  پر محیط ہوتی تھی۔اس ورکشاپ کی خوبصورتی میں مباحثے کا نظام انتہائی دلنشین تھا۔ہر دو دن بعد ظہر کے بعد کلاس کے اوقات میں   مباحثے ہوتے تھے ۔ہر کلاس کے طلباء آپس میں گروپ بنا کر ایک مناظراتی ماحول میں علمی و فکری مباحثے کرتے تھے ۔جہاں ہر طالب علم اپنی فہم کے مطابق استدلال کرتے تھے ۔ بالخصوص “ملازمہ عقل و شرع “مسئلے میں باقاعدہ جدل کا ماحول پیدا ہوتا ۔ اس مسئلے میں عالم اسلام کے متکلمین “معتزلہ ،اشاعرہ،عدلیہ “کے درمیان صدیوں سے   اختلاف ہے۔ہمارے گروپ میں “ہندوستان سے عقیل اختر صاحب ،افغانستان سے اشکیب فائق زادہ صاحب ،ایران کے شہر بوشہر سے ہمارے دوست سید جواد سجادی صاحب ،اور پاکستان سے جناب نور محمد نوری صاحب اور خاکسار تھے ۔ہمارے گروپ نے واقعتاً خالی الذہن ہو کر “ملازمہ عقل و شرع “کے مسئلے میں نقد و تحقیق اور استدلال کیا ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ۔غالباً  مدارس میں پہلے سے ہی یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہم اشعری ہیں،یا ہم عدلیہ ہیں ،ہم معتزلیہ ہیں ،اور ذہن میں پہلے سے ہی کچھ حدود و قیود قائم کرتے ہیں اور ہر مسئلے کو اسی سانچے میں پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگر اس سانچے اور معیار کے مطابق نہ ہو تو دوسرے فریق کو یکسر غلط ،باطل قرار دیا جاتا ہے۔اس ورکشاپ میں ،عقل و نقل کی بحث میں جہاں تک میں نے سمجھا دونوں فریق افراط و تفریط کے شکار ہیں۔

انشااللہ آنے والی قسطوں میں اس موضوع پر مفصل بحث اور دونوں فریق کے دلائل و براہین اور ان پر کی جانے والی تنقید کے بارے میں غیر جانبدارانہ انداز میں قلم فرسائی کرنے کی سعی کریں گے۔
اس ورکشاپ کا ایک اور خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ہر ہفتے میں دو سے تین بار اسی موضوع سے متعلق ماہرین فن کو دعوت دی جاتی تھی ۔اور “جلسہ پُرسش  و پاسخ”سوال و جواب سیشن منعقد کیا  جاتا تھا۔جہاں طلباء کلاس اور مباحثے میں لاینحل مسائل کو وہاں “مطرح”واضح کرتے تھے اور ماہرین فن دقیق و متقن جوابات سے طلباء کے قلوب و اذہان کو منور فرماتے تھے۔ہر ہفتے میں جمعہ کے دن ڈھائی ،تین گھنٹے نماز جمعہ اور دیگر ذاتی مصروفیات خریداری وغیرہ کےلیے ہوتے تھے۔پہلا ہفتہ گزرنے کے بعد دوسرے ہفتے جمعہ کے دن کلاس کے بعد ہم ساتویں منزل کی کھڑکی سے سڑک پہ چلتی گاڑیوں کے نظارے کر رہے تھے۔سڑک کنارے سجی بک سٹال پر نظر پڑی ۔اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں ۔دیر کس بات کی ہم بھی فوراً لفٹ سے نیچے پہنچے اور “خیابان مدرس” کے کنارے سجی بک سٹال میں کتابیں دیکھنے پہنچ گئے۔ تا حد نگاہ پرانی کتابوں کے  سٹال لگے تھے۔ہم نے وہاں موجود کسی کتاب فروش سے پوچھا کہ صاحب جی یہ بک سٹال کیا ہر روز لگتے ہیں “صاحب نے بلا توقف ایرانیوں کے مخصوص انداز میں سر ہلاتے فارسی میں جواب دیا “نہ”نہیں بلکہ صرف جمعہ کے  روز صبح دس سے دوپہر دو تین بجے تک ۔یہاں کتابوں کے اسٹالوں پر گھومتے ہوئے انتہائی حیرت بھی ہو رہی تھی اور  خوشی بھی ۔یہاں جتنا رش کتابیں خریدنے کےلیے نظر آیا اتنا رش میں نے پاکستان کے مصروف و معروف “مالز “میں نہیں دیکھا۔ بالخصوص خواتین کی قابل قدر تعداد میرے دماغ میں یہی ایک جملہ گھما رہی تھی کہ “تعلیم یافتہ مائیں ہی ترقی یافتہ قوموں کی ضمانت ہوا کرتی ہیں۔” عجیب تو یہ ہے کہ یہ خواتین سٹائل کے لئے ایک دو کتابیں خریدنے کے بجائے اٹیچی بھر بھر کر کتابیں خرید رہی تھیں۔ جہاں تک معلومات ہے اسلامک ممالک میں ایران کتابیں پڑھنے اور خریدنے کے حوالے سے صف اول میں ہے ۔یہ پہلو دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی کہ علم و دانش کے ساتھ اس قوم کی محبت قابل دید تھی ۔ قابل حیرت اور مسرت کی بات یہ ہے کہ یہاں آپ کو ہر قوم و  نسل ،ملک ،مذہب ،مختلف سوچ و افکار کے حامل انقلابی ،سوشلسٹ،مارکسز ،ملحد،کی سوانح حیات، انکی کتابیں فارسی زبان میں ترجمہ ہو کر دستیاب تھیں ۔ اور ہم نے یہاں آیت اللہ مطہری کے” آثار” نظام حقوق زن در اسلام” ڈاکٹر تیجانی سماوی کی کچھ کتابیں،ایران کے معروف مورخ ،تاریخ دان ڈاکٹر رسول جعفریان کی کتاب”آثار اسلامی مکہ و مدینہ”مرزا جواد ملکی کی “رسالہ لقاء اللہ”محمد حسن ربانی کی “علوم حدیث”سمیت متعدد کتابوں کا حصول یہاں سے ہوا اور اپنی ذاتی مختصر کتب خانے کی زینت بنانے میں کامیاب ہوا۔

julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply