• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا عاجزی و انکساری اسی کا نام ہے؟/پروفیسر رفعت مظہر

کیا عاجزی و انکساری اسی کا نام ہے؟/پروفیسر رفعت مظہر

عمران خاں اپنے ہر خطاب کا آغاز ”ایاک نعبدو ایاک نستعین“ سے کرتے، امر بالمعروف کی تلقین اور ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے وعدے کرتے رہے۔ یہ وہ ”اسلامی ٹَچ“ تھا جو ہمیں اُن کی ہر تقریر میں نظر آتارہا لیکن اعمال کا دارومدار تو نیتوں پر ہوتاہے جبکہ مجھے ہمیشہ خان کی نیت میں فتور ہی نظر آیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

 

 

دینِ مبیں کا درسِ اول ہی اخلاق اور عاجزی وانکساری ہے۔ سورة الاعراف آیت 55 میں ارشاد ہوا ”اپنے پروردگار کو عاجزی سے اور چپکے سے پکاراکرو۔ بے شک وہ حدسے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا“۔ سورة النجم آیت 32 میں ارشاد ہوا ”بس تم اپنے آپ کو بڑا پاک وصاف مت بتایاکرو، وہ خوب جانتا ہے کہ پرہیزگار کون ہے“۔ اِسی حوالے سے حضورِاکرم ﷺ کا ارشاد ہے ”کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس نے عاجزی اختیار کی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اُسے سرفرازی سے نہ نوازاہو“۔ سائفر، ممنوعہ فنڈنگ، 190 ملین پاؤنڈ کیس، توشہ خانہ کیس اور دیگر کیسز سے قطع نظر دیکھنا یہ ہوگا کہ خارزارِ سیاست میں قدم رکھنے سے لے کر اب تک عمران خاںنے دینِ مبیں کے قائم کردہ معیارات کے مطابق عمل کیا یانہیں۔
اگر تعصب کی عینک اُتارکر دیکھا جائے تو عیاں ہوتاہے کہ عاجزی وانکساری خاں کو چھوکر بھی نہیں گزری۔ نرگسیت کے شکارعمران خاں کے اندر تکبر اور رعونت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اُنہوں نے کہا ”میراپہلا ٹارگٹ جو بڑی مدت سے میری بندوق کی نوک پر ہے وہ آصف زرداری ہے جسے نہیں چھوڑوںگا“۔ 2020ءمیں واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی کمیونٹی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا ”نوازشریف کہتاہے کہ جیل کا کھانا اچھا نہیں ہوتا، میں گھر کا کھانا کھاؤں گا۔ وہ ایئرکنڈیشنڈ کی سہولت بھی مانگتا ہے۔ پھر یہ بھی کہتا ہے کہ ٹی وی اور اخبارات بھی چاہییں۔ اگر قیدیوں کو یہ سب سہولتیں دے دی جائیں تو پھر وہ جیل تو نہ ہوئی ناں۔ میں واپس جاکر جیل سے ایئرکنڈیشنڈ اور ٹی وی نکالوںگا۔ نوازشریف سے ہرسہولت واپس لے لی جائے گی جس پر مریم نواز بہت شور مچائے گی“۔ تقریباََ یہی کچھ عمران خاںنے آصف زرداری کے بارے میں بھی کہا۔ عرض ہے کہ میاں نوازشریف 3 بارکے منتخب وزیرِاعظم جن کی 2 مرتبہ ہارٹ سرجری بھی ہوچکی تھی اور ایئرکنڈیشن کی سہولت اُنہیں ڈاکٹرزکی ایڈوائس پر
دی گئی۔ دوسری طرف فوج کا چہیتا، سیاسی حرکیات سے بے بہرہ مگرسازش کرنے میں یَدِطولیٰ رکھنے والا سلیکٹڈ عمران خاں۔ اُس نے 1992ءکے ورلڈکپ کی جیت کا سارا کریڈٹ اپنی جھولی میں ڈال لیاحالانکہ اِس ورلڈکپ کے 8 میچز میں اُس کے حصے میں کُل 165 رنز اور 7 وکٹیں آئیں۔ اِسی ورلڈ کپ کی جیت کاسہارا لے کر اُنہوں نے شوکت خانم کینسرہسپتال بنایا جس کی کل لاگت 70 کروڑ روپے تھی، ہسپتال کی 185 کنال زمین اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف نے الاٹ کی اور 70 کروڑ میں سے 50 کروڑ میاں محمدشریف مرحوم نے عطاکیے۔ باقی رقم عطیات کی صورت میں اکٹھی کی گئی۔
انتہائی متکبرعمران خاںنے میاں شہبازشریف کو مخاطب کرکے کہا ”شہبازشریف! تمہیں بڑاپریشر برداشت کرنا پڑے گا۔میں جو کرنے جا رہاہوں، اِس کے بعد تمہاری نیندیں اُڑ جائیں گی“۔ راناثناءاللہ کو کہا ”او ثناءاللہ سُن لو! میں تمہیں مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوںگا۔ دیکھنا تمہارا کیا حشر کرتا ہوں“۔ اپنے دَورِحکومت میں عمران خاںنے یہ سب کہا ہی نہیں، کرکے بھی دکھایا۔ اُس کی ہدایت پر جیل میں راناثناءاللہ کے سیل میں چینی پھینکی جاتی۔ شدید گرمی میں بھی راناصاحب جرابیںاپنی شلوار کے اندر پھنساتے اور کانوں میں روئی ڈالتے تاکہ چیونٹیوں سے بچا جاسکے۔ کمردرد کے دیرینہ مریض میاں شہبازشریف کو نماز کی ادائیگی کے لیے کُرسی تک مہیا کرنے سے انکار کیا گیا۔ ہمارے معاشرے میں ماو¿ں، بہنوں اور بیٹیوں کا بہت احترام کیا جاتاہے لیکن نخوت کا اسیر عمران خاں جانتا ہی نہیںتھا کہ احترام کس چڑیا کا نام ہے۔ ملتان کے ایک جلسے میں اُس نے محترمہ مریم نواز کے بارے میں جو الفاظ کہے اُن سے اُس کے ذہن کی عکاسی ہوتی ہے۔ اُس نے کہا ”کل مریم نواز تقریر کر رہی تھی۔ جس میں اُس نے اتنی دفعہ اِس جذبے اور جنون سے میرا نام لیا کہ میں اُس کو کہنا چاہتا ہوں، مریم دیکھو! تھوڑا دھیان کرو، جس طرح تم بار بار میرا نام لیتی ہو تمہارا خاوند ہی ناراض نہ ہوجائے“۔ یہ جملے کوئی مادرپدر آزاد شخص ہی کہہ سکتاہے، شرفا کا یہ وتیرہ ہرگز نہیں۔ اِسی ذہن کی جھلک عمران خاںکے جلسوں میں بھی نظر آتی رہی جہاں موسیقی کی دُھن پر لڑکیاں اور لڑکے والہانہ رقص کرتے رہتے۔ تب بھی ہماری سوچوں کا محور یہی تھا کہ کیا یہ شخص ریاستِ مدینہ تشکیل دے سکتاہے؟۔ قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتی مریم نواز تو آج بھی ڈٹ کر کھڑی ہے لیکن اٹک جیل کا قیدی صرف دو دن میں ہی ہمت ہارکر منتوںترلوں پر اُتر آیا ہے۔
عمران خاںکی اہلیہ بشریٰ بیگم نے پنجاب کی وزارتِ داخلہ کو خط لکھا ہے کہ اٹک جیل میں اُس کے خاوند کو وہ سہولیات میسر نہیں جو اُس کا حق ہے۔ بشریٰ بیگم نے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خاںکو گھر کا کھانا دیاجائے، اٹک جیل سے اڈیالہ جیل میں منتقل کیاجائے، جیل میں بی کلاس دی جائے اور سابق وزیرِاعظم کی سہولیات دی جائیں۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ جیل میں اُس کی جان کو خطرہ ہے کہ کہیں اُس کو زہر نہ دے دیاجائے۔ بشریٰ بیگم کے مطالبات جائز ہیںالبتہ اڈیالہ جیل میں منتقلی کا فیصلہ وزارتِ داخلہ نے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کرناہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ بشریٰ بیگم اُس وقت کہاں تھی جب مریم نواز کو جیل میں سی کلاس دینے کے لیے راتوںرات ملائکہ بخاری کا ڈرافٹ کردہ آرڈیننس منظور کروایاگیا جس کے مظابق تمام قیدیوں کے لیے بلاتفریق صرف سی کلاس ہی مقرر کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ مریم نوازکے سیل اور باتھ روم تک میں بھی سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے۔ سیل کے باتھ روم کا دروازہ تک نہیں تھا۔ یہ سب کچھ عمران خاںکے حکم پر ہو رہاتھا۔ اُس کے انتقام کی انتہا یہ کہ جب جیل میںمیاں نوازشریف اور حنیف عباسی کی ملاقات کرائی گئی تو پتہ چلنے پر اُس نے جیل کا سارا عملہ معطل کروادیاجس میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل فرخ رشید بھی شامل تھا۔ آج وہی فرخ رشید اٹک جیل میں سپرنٹنڈنٹ ہے۔ اُس نے اپنے شوہر کو اُس وقت کیوں نہیں سمجھایا جب فریال تالپور کو ہسپتال کے بستر سے اُٹھا کر جیل میں ڈالاگیا۔ اٹک جیل میں عمران خاں کو جیل مینوئل کے مطابق بی کلاس کے قیدیوں کی تمام سہولیات میسر ہیں۔ اُسے 2 مشقتی اور خشک راشن مل رہا ہے اور کھانا تیار ہونے پر باقاعدہ چیک کیا جاتاہے تاکہ زہر کا احتمال نہ رہے۔ یہی مکافاتِ عمل ہے جس کا آج عمران خاں شکارہے۔ بھلے جمائما گولڈسمتھ کی ایماءپر یہودی اور یورپین لابی عمران خاںکی رہائی کے لیے دباو¿ ڈالتی رہیں مگر اُن کا متھا جس شخص سے لگاہے اُس نے سوائے رَبِ لم یزل کے کسی کے آگے جھکنا سیکھا ہی نہیں، نام اُس کا جنرل عاصم منیرہے۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply