نام”عبداللہ”/تحریر-علی عبداللہ

میں اپنا سکول دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔وہی سکول جہاں سے میں نے دسویں پاس کی تھی!

وہ دور افق کی جانب دیکھتے ہوئے بولا-

لیکن اب اتنے سالوں بعد تم وہاں کیوں جانا چاہتے ہو، ایسا کیا ہے وہاں پر؟ میں نے حیرت سے پوچھا-

کچھ نہیں۔۔۔بس ایک درخت ہے وہاں، جس پر میں نے ایک نام لکھا تھا- اسے تلاش کرنا چاہتا ہوں- اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا-

میں نے بے ساختہ پوچھا، ” کس کا نام؟”

“اپنا نام اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
خاموش کیوں ہو گئے، بتاؤ کس کا نام؟ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا-

اس نے سپاٹ لہجے میں کہا،
“اپنا نام اور میری اس اولین محبت کا نام۔۔۔۔ جسے میں کوئی نام نہ دے پایا- اس ادھوری محبت کا نام جس نے پہلی مرتبہ میری آنکھوں میں جھانکا اور پھر اس نظر کا اثر آج تک کوئی تعویز نہیں اتار سکا- میں اس یک طرفہ محبت کا نام دیکھنا چاہتا ہوں جسے میں نے پہلی مرتبہ رات کے کسی پہر چاند دیکھتے ہوئے پکارا تھا۔۔۔۔ہاں وہی محبت جسے سوچتے سوچتے میں زندگی میں پہلی مرتبہ رات بھر جاگتا رہا تھا- وہ نام جسے میرا چہرہ تو یاد رہا، مگر میرا نام یاد نہ رہ پایا- وہ نظر جسے میں نظر تو آتا رہا۔۔۔۔ مگر کبھی اس میں سما نہ سکا یا شاید اسے پہچاننے سے ڈرتا رہا”

تو اب وہاں جانے کا کیا فائدہ؟ سب بدل چکا ہو گا وہاں پر۔۔۔میں نے تاسف سے اسے بتایا-

“میں اس محبت کو کھوجنا چاہتا ہوں جو کبھی اقرار کی دہلیز پار نہ کر سکی مگر چپکے چپکے اسے پکارتی رہی- اک ایسی محبت کی کھوج جس کی بیڑیوں میں آج تک میں قید ہوں- وہی محبت جس کے لیے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا-
اور پھر سرگوشی کے انداز میں بولا، “بس وہی محبت جسے میں آج بائیس سال گزر جانے کے بعد بھی بھول نہیں پایا-”

فرض کیا تم وہاں پہنچ بھی جاؤ تو کیا وہ درخت تمہیں پہچان لے گا؟ کیا وہ نام وہاں موجود ہوں گے؟ مجھے لگتا ہے کہ وقت کی دھول اس درخت کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہو گی یا پھر کوئی اسے کاٹ کر لے گیا ہو گا- میں نے اسے خبردار کرتے ہوئے بتایا-

یہ بھی تو ہو سکتا ہے اس پر کسی اور نے کئی نام لکھ دیے ہوں۔۔۔۔۔ یا پھر وہ درخت ہی محبت کا بھرم نہ رکھ پانے کے خوف سے خود ہی گر گیا ہو- یہ کہہ کر اس نے شریں کے درخت سے سہارا لیا اور اچانک ایک نوکیلی لکڑی سے شریں کے تنے پر ایک نام کندہ کر دیا۔۔۔۔

میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو تنے پر لفظ “محبت” ثبت ہو چکا تھا-

Advertisements
julia rana solicitors london

سورج ڈھلنے کے قریب تھا- اچانک اس نے آواز لگائی،
“وچھڑ گیاں دی کی اے نشانی
جیویں دیگر رنگ شرینہاں”
اور پھر چپ چاپ “لہندے” کی جانب چل پڑا-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply