سنہ 1994ء میں پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو حکومت نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لئے پرائیویٹ سرمایہ کاروں کے 15 عدد انڈی پینڈنٹ پاور کمپنیز (آئی پی پی) کو بجلی بنانے کے لئے واپڈا کے متوازی کے طور پر متعارف کروایا- ان پاور کمپنیز کے ساتھ جو معاہدہ ہوا وہ یہ تھا کہ یہ لوگ بجلی پیدا کرنے کے لئے پاور پلانٹس اپنی خود کی یا غیر ملکی سرمایہ کاری کر کے لگائیں گے اور حکومت پاکستان پابند ہو گی کہ ان کی پیداواری گنجائیش (کیپیسٹی پیمنٹس) کے تحت ان سے تمام بجلی خریدے گی جس کے عوض ان کو تمام ادائیگیاں پاکستانی کرنسی کی بجائے ڈالرز میں کی جائیں گی- یعنی کہ اگر کسی آئی پی پی پی کی پیداواری گنجائیش 1500 میگا واٹ ہے لیکن حکومت پاکستان صرف 700 میگا واٹ بجلی ہی ان سے خریدے تو بھی ادائیگیاں 1500 میگا واٹ کی ہی ہوں گی- اس وقت حکومت نے بجلی خریدنے کا جو ریٹ ان آئی پی پیز سے طے کیا تھا وہ کچھ کمپنیوں کے ساتھ 14 ڈالرز سینٹ فی یونٹ سے اور کچھ کے ساتھ 15 ڈالرز سینٹ فی یونٹ کے حساب سے طے ہوا تھا-
سنہ 1994ء کے بعد جنرل مشرف کے دور میں سنہ 2002ء میں دوبارہ پرائیویٹ سرمایہ کاروں کو بجلی بنانے کے کارخانہ لگانے کی اجازت دی گئی اور اس میں مزید 15 نئے آئی پی پیز متعارف کروائے گئے- یہ معاہدے بھی اسی طرح کئے گئے جیسا کہ سنہ 1994ء میں پیپلز پارٹی حکومت نے کئے تھے کہ ان تمام آئی پی پیز کو پیداواری گنجائش کے مطابق ادائیگیاں ڈالرز میں کی جائیں گی چاہے حکومت ان سے بجلی خریدے یا نہ خریدے یا پوری خریدنے کی بجائے کم خریدے- اس طرح سنہ 2002ء تک ملک بھر میں کل 30 آئی پی پیز بجلی بنانے بلکہ ڈالرز چھاپنے کے انتہائی نفع بخش دھندے میں ملوث تھے-
اس کے بعد سنہ 2006ء میں جنرل مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز نے ایک دفعہ پھر سے 38 مزید آئی پی پیز کو بجلی بنانے بلکہ عوام کا خون چوس کر ڈالرز چھاپنے کے لائیسنس بانٹے اور یوں ملک بھر میں بجلی بنانے والے آئی پی پیز کی کل تعداد 68 تک جا پہنچی- بات یہاں تک ہی ختم نہ ہوئی اور سنہ 2015ء میں نواز شریف کی مسلم لیگ نون حکومت نے بھی پرائیویٹ سرمایہ کاری کے تحت بجلی بنانے کے لئے 7 مزید سرمایہ کاروں کو آئی پی پیز کے لائیسنس جاری کئے اور یوں ملک بھر میں ان آئی پی پیز کی کل تعداد 75 ہو چکی ہے اور ان سب کے ساتھ انہی خطوط پر ایک ہی معاہدہ ہے کہ حکومت پاکستان ان کو پیدواری گنجائش کے تحت ڈالرز میں ادائیگیاں کر کے بجلی خریدے گی چاہے عوام اور واپڈا کو ان سے اتنی بجلی کی ضرورت ہو یا نہ ہو-
آج سنہ 2023ء میں صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ملک بھر میں ان آئی پی پیز کے علاوہ واپڈا کے اپنے پن بجلی و نیو کلئیر ذرائع کے تحت بجلی بنانے کی گنجائیش 38 ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکی ہے لیکن پاکستان کی اس وقت کل ضرورت 23/24 ہزار میگا واٹ سے زیادہ نہیں ہے- واپڈا کو پانی سے بجلی بنانے میں جو لاگت آج بھی آتی ہے وہ صرف 3 روپے 25 پیسے فی یونٹ کی ہے لیکن ان آئی پی پیز کے ذریعہ جو بجلی واپڈا کی تقسیم کار کمپنیوں کو وصول ہوتی ہے اس کی قیمت 80 روپے فی یونٹ یا اس سے بھی زیادہ ہے- سنہ 2013ء سے سنہ 2023ء تک کے 10 سالوں میں اب تک پاکستانی عوام ان آئی پی پیز کو 18 ہزار ارب روپے کی ادائیگیاں کر چکے ہیں جن میں سے خرید جانے والے بجلی کی مالیت تقریباً 9 ہزار 650 ارب روپے کی ہے جبکہ پیداواری گنجائیش کی مد میں ان آئی پی پیز کو تقریباً 8 ہزار 350 ارب روپے کی ادائیگیاں کی جا چکی ہیں- پھر سے عرض کرتا چلوں کہ یہ تمام ادائیگیاں ڈالرز میں کی گئی ہیں لیکن قارئین کی سہولت کے لئے اس رقم کو پاکستانی روپوں میں بیان کیا ہے-
عموماً نجی سرمایہ کاری کے ذریعہ اس طرح کے جو بھی معاہدے حکومتیں کیا کرتی ہیں وہ “اپنا پیسہ لگا کر بناؤ، کچھ سالوں کے لئے چلاؤ اور پھر ہمیں ٹرانسفر کرو” کے اصول پر ہوا کرتے ہیں یعنی build, پھر operate اور اس کے بعد transfer کرو (bot – بی او ٹی)- عمومآ کوئی بھی سرمایہ کار جب اس طرح کی انویسٹمنٹ کرتا ہے تو وہ 10 سال تک کے لئے ایسے پراجیکٹ چلاتا ہے اور پھر متعلقہ حکومت کو اس کی مالیت منتقل کر کے اپنے گھر واپس چلا جاتا ہے- بعض اوقات جب اس طرح کے پراجیکٹس ہوں کہ انہیں چلانے (operate) کے لئے بھی سرمایہ کاری درکار ہو تو ان معاہدوں کی ٹرانسفر کی مدت 10 سال کی بجائے 20 سال تک بڑھا دی جاتی ہے- عامۃ الناس کا حق ہے کہ حکومت انہیں یہ بتائے کہ ان آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی اختتامی مدت کیا ہے لیکن بی او ٹی پراجیکٹس کے عمومی رائج اصولوں کے مطابق تو سنہ 1994ء اور سنہ 2002ء میں کئے جانے والے معاہدوں کی مدت تو مکمل ہو چکی ہے یعنی 30 آئی پی پیز اس وقت پیداواری گنجائیش کے مطابق ادائیگیاں ڈالرز وصول کرنے کے چکر سے باہر نکل چکی ہیں (سنہ 2014ء میں 15 آئی پی پیز اور سنہ 2022ء میں 15 آئی پی پیز) جبکہ 38 عدد مزید آئی پی پیز سنہ 2026ء میں ڈالرز چھاپنے والے اس طلسم کدہ سے باہر نکل جائیں گی- البتہ 7 آئی پی پیز پھر بھی ایسی باقی رہیں گی جن کو سنہ 2035ء تک اسی طرح کی ڈالروں میں ادائیگیاں جاری رہیں گی- یہ بھی صرف احتمال ہی ہے کہ ہماری نالائق بیوروکریسی نے شاید یہ معاہدے بی او ٹی بنیادوں پر ہی کئے ہوں اور خدانخواستہ کہیں یہ معاہدے عمر بھر کے لئے طے نہ ہوئے ہوں یعنی جب تک یہ آئی پی پیز بجلی بنانے کی پوزیشن میں باقی رہیں تب تک انہیں ڈالرز چھاپنے کی کھلی چھٹی حاصل رہے-
اس تحریر کا حاصل کلام یہ ہے کہ ہم اپنے کئے گئے معاہدوں کے تحت تقریباً 20 ہزار میگا واٹ بجلی کی ادائیگی 15 امریکی ڈالرز سینٹ فی یونٹ کے حساب سے کر رہے ہیں (یا شاید اس سے کم کر رہے ہوں گے اگر یہ معاہدے بی او ٹی بنیادوں پر تھے اور ان میں سے 30 آئی پی پیز کو مدت مکمل ہونے پر ادائیگیاں بند ہو چکی ہوں)- یہ ادائیگیاں ڈالرز میں ہونے کی وجہ سے جیسے ہی ڈالرز کی قیمت بڑھے گی تو 15 امریکی سینٹ ڈالرز بھی روپوں میں بڑھتے جائیں گے جو آج کے حساب سے تقریباً 45 روپے فی یونٹ بغیر ٹیکس کے ہیں- اس میں ٹیکس وغیرہ شامل کر لیں تو واپڈا کی تقسیم کار کمپنیوں کو فی یونٹ بجلی کی قیمت کم از کم 60 روپے سے 65 روپے تک پڑتی ہو گی- پرانی ٹرانسمشن لائنوں کی وجہ سے ہونے والے 35٪ لائن لاسز، بڑے لوگوں کو ملنے والی مفت بجلی اور بجلی چوری کی لاگت کو اس میں شامل کر دیں تو یہ قیمت 85 روپے فی یونٹ تک پہنچ جاتی ہے-
آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی روشنی میں حکومت پاکستان پابند ہے کہ وہ بجلی کی لاگت میں عوام کو دی جانے والی سبسڈی بتدریج ختم کرے گی اور جو بجلی کا ہوںٹ فی الحال 50 روپے تک کا عوام کو مل رہا ہے بالاآخر اسے 85 روپے فی یونٹ تک لے جایا جائے گا- اب عوام چوں کرے یا چراں کرے، حکومت نے بجلی کی قیمت کو مزید اوپر لے جانا ہی ہے- دوسری صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے اور جس جس کا جو بھی قرضہ دینا ہے، انہیں بتا دے کہ ہمارے پاس دینے کو اور کچھ نہیں ہے- البتہ یاد رہے کہ پاکستان کا ڈیفالٹ سری لنکا یا یونان کی طرح کا ہرامن نہیں ہو گا بلکہ یہاں انتہائی پرتشدد اور ہلاکت انگیز خونی واقعات اس ڈیفالٹ کا منطقی انجام ہوں گے-
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں