ایران میں ہفتہِ رفتہ ابراہیم گلستان کے نام رہا ـ تہران، اصفہان، شیراز ، تبریز و دیگر شہروں میں ان کی یاد میں تقریبات منعقد کی گئیں ـ ان کے کام کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ـ
ابراہیم گلستان 23 اگست 2023 کو لندن میں فوت ہوگئے تھے

ـ انہیں ایرانی روشن فکر تحریک کے بانیان میں شمار کیا جاتا ہے ـ روشن فکری کی یہ تحریک ساٹھ کی دہائی میں شروع ہوئی تھی جس نے ایرانی سیاست، ادب اور سینما کی کایا پلٹ دی تھی ـ ہمارا موضوع سینما ہے اس لئے ہم اسی تک محدود رہیں گے ـ
پہلوی شہنشاہیت ایران کو یورپ بالخصوص فرانس جیسا بنانے کا خواہش مند تھا ـ اس حوالے سے شہنشاہیت نے متعدد سطحی اقدام اٹھائے ـ جیسے خواتین کے پردے پر پابندی، مغربی لباس کی حوصلہ افزائی، شراب خانوں، نائٹ کلبوں اور طوائفوں سے مخصوص محلوں کا قیام وغیرہ ـ پہلوی خاندان کے دوسرے بادشاہ محمد رضا شاہ نے اپنے دور میں طلبا کو یورپ بجھوانے کی پالیسی اپنائی ـ شاہ چاہتے تھے طلبا یورپی طرزِ معاشرت کا مشاہدہ کرکے واپس آکر ایران کو جدید بنانے میں مدد کریں ـ
پہلوی بادشاہوں کے تمام اقدامات بڑے بڑے شہروں تک محدود تھے جو بمشکل ایران کی بیس فیصد آبادی پر مشتمل تھے ـ 80 فیصد دیہی ایران جاگیردارانہ نظام کے شکنجے میں تھا ـ اس کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں کے حاشیوں میں مقیم اکثریتی محنت کش طبقہ بھی بدترین معاشی دباؤ کا سامنا کر رہا تھا ـ شاہ اور اس کے مصاحبین کی تمام توجہ ایک طاقت ور فوج بنانے اور زیادہ سے زیادہ دولت اکھٹی کرنے پر مرکوز تھی ـ
اس دور میں سینما بھی شاہ کی پالیسیوں کا آئینہ دار تھا ـ سینما میں دولت مند شہری طبقے کی پرتعیش زندگی دکھائی جاتی تھی ـ عریانیت اور فحاشی ہر فلم کا حصہ تھا ـ
شاہ کی پالیسی کے تحت یورپ بھیجے گئے طلبا جب گروہ در گروہ واپس آئے تو ان کا ردعمل شاہ کی توقعات کے برعکس نکلا ـ ان طلبا نے جمہوریت، جاگیرداریت کے خاتمے اور منصفانہ معاشی نظام کے مطالبوں کے گرد تحریک شروع کردی ـ ان طلبا کے ایک حصے نے سینما کو توجہ کا مرکز بنایا ـ انہوں نے ایرانی فلموں کو ایرانی ماننے سے انکار کرکے انہیں “فارسی فلم” کا نام دیا ـ ان کے مطابق یہ فلمیں صرف فارسی زبان میں ہیں وگرنہ ان کا ایرانیوں کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے ـ ان یورپ پلٹ نوجوانوں میں سے ایک ابراہیم گلستان تھے ـ
یورپ میں ابراہیم گلستان کی ملاقات معروف فیمن اسٹ ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد سے ہوئی ـ دونوں ایک رومانی تعلق میں بندھ گئے ـ پچاس کی دہائی کے اواخر میں دونوں ایران آگئے اور ایران کی نوخیز روشن فکر تحریک سے جڑ گئے ـ گلستان البتہ فروغ کے ساتھ اپنے تعلق کو رومانی نہیں سمجھتے ـ ان کے مطابق فروغ سے میرا رشتہ رومانس سے بڑھ کر تھا، میں خود فروغ ہوں، وہ مجھ میں سمائی ہوئی ہے، وہ میری خالق بھی ہے اور مخلوق بھی، بس اتنا سمجھ لیں میرے اور فروغ کے رشتے کی تشریح خدا بھی نہیں کرسکتا ـ
ابراہیم گلستان فرنچ نظریہ “قلم _ کیمرہ” کے حامی تھے ـ انہوں نے ایرانی لوک داستانوں کو جدید زاویہ نگاہ کے تحت فلمی اسکرپٹ میں ڈھالا ـ 1960 کو انہوں نے مختصر دورانیے کی فلم “یک آتش” بنائی ـ اس فلم نے وینس فلم فیسٹول میں مختصر دورانیے کی بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کیا ـ یہ ایران کی وہ پہلی فلم بنی جس نے کسی بین الاقوامی مقابلے میں انعام حاصل کیا ـ اس دوران وہ مضامین، افسانے اور فلمی اسکرپٹ لکھتے رہے ـ ان کی تحریروں نے نوجوان فلم سازوں کی بڑی تعداد کو متاثر کیا ـ
ابراہیم گلستان نے 1964 کو “خشت و آئینہ” (Brick and Mirror) نامی فلم کو ہدایات دیں ـ اس فلم نے جدید ایرانی سینما کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا ـ یہ ایک ایسے ٹیکسی ڈرائیور کی کہانی ہے جس کی ٹیکسی میں ایک نوجوان مسافر خاتون “ناجائز” بچی چھوڑ جاتی ہے ـ فلم کے مرکز میں مگر شاہ ایران کی سیاسی و معاشی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے ـ انہوں نے اس فلم کے ذریعے شاہ ایران کی “روشن فکری” کو جعلی اور ایرانی معروض سے بیگانہ دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے ـ اس فلم کو عالمی سطح پر بھی سراہا گیا ـ آج بھی اسے ایرانی سینما کی تاریخ کی اہم ترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے ـ
ابراہیم نے اس کے بعد متعدد فلمیں بنائیں ـ وہ چوں کہ نظریہ “قلم_ کیمرہ” کے علم بردار تھے اس لئے ان کی فلموں پر افسانوی چھاپ گہری ہے ـ وہ کردار کی شخصیت کو اس کی مکمل جزئیات کے ساتھ پیش کرتے ہیں، اسی طرح ان کی فلموں کے ماحول اور مکالمے بھی ایک فکشن رائٹر کا پتہ دیتے ہیں ـ وہ ایڈیٹنگ کے شعبے میں سوویت فلمی نظریہ دان و ہدایت کار سرگئی آئزنشٹائن کے مقلد تھے مگر ان کے مونتاژ میں ایک فرق بھی نظر آتا ہے ـ اعتراف کرنا چاہوں گا میں مدت تک اس فرق کا پسِ منظر سمجھ نہ پایا ـ میرے ایک ایرانی استاد کے مطابق گلستان کلاسیک ایرانی شاعر شیخ سعدی سے بے انتہا متاثر تھے، ان پر سعدی کا اس حد تک اثر تھا کہ انہوں نے سعدی کے اشعار کی تقطیع کے تحت اپنی فلموں کو مونتاژ سے گزارا ـ سعدی اور آئزنشٹائن کی مشترکہ تقلید کے باعث ان کی فلمیں اپنے دیگر ہم عصروں کی نسبت منفرد نظر آتی ہیں ـ
انہوں نے نہ صرف سینما بلکہ ایران کی فارسی فکشن پر بھی انمٹ نقوش مرتب کئے ـ ان سے متاثر ہدایت کاروں میں ایک اہم نام عالمی شہرت یافتہ ایرانی ہدایت کار عباس کیا رستمی کا بھی ہے ـ
ایرانی سینما اور ادب پر دور رس اثرات مرتب کرنے والے اس نابغہِ روزگار انسان نے سو سال زندگی گزاری ـ چند سال قبل ایک انٹرویو میں نے انہوں نے اپنی زندگی پر اطمینان کا اظہار کیا ـ ان کے مطابق میں نے اپنی پوری زندگی اپنی شرائط پر گزاری ہے اور میں اس سے مکمل مطمئن ہوں اگر مجھ سے پوچھا جائے تو زندگی خوب صورت ہے البتہ میں نے اسے خوب صورت بنانے کی خود کوشش کی ہے اور بے شک میری یہ کوشش کامیاب رہی ہے ـ
ہم محبان سینما انقلابی فن کار کی زندگی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں ـ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں