نثری ادب میں افسانہ نگاری ایک معتبر صنف ہے۔جو طویل صدیوں کا سفر طے کر کے اہل سخنوروں کے اذہان و قلوب پر براجمان ہوئی ہے۔ یہ اہل ادب کا صدیوں پرانا شیوہ ہے کہ وہ اپنے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے پس پردہ معاشرتی زبوں حالی کو زیر قلم لا کر ایسے حقائق کی چشم کشائی کرتے ہیں۔جہاں کہانی خود دلچسپی پیدا کر کے اپنے قاری کو نتیجہ جاننے کی تحقیق و جستجو پر مجبور کر دیتی ہے۔
انسان نے جس ماحول اور معاشرے میں آنکھ کھولی ہو اسی کی عادات و اطوار ، اقدار و روایات ، رسم و رواج ، ظلم و ستم ، نفرت و فرق ، لڑائی جھگڑے ، سماجی بندھن ، قید و بند کی صحبتیں ، جبری شادیوں کی روایت ، افلاس کا کرب جیسے مرکزی موضوعات افسانوی ادب میں ڈھل کر کروٹ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔کہانی نویس جس اچھوتے انداز سے اپنے قاری کو بہتے پانی میں جن کرداروں کی تصویر دکھا دیتا ہے۔ وہ کبھی نظروں سے اوجھل اور کبھی دیدار کے قابل بنا دیتا ہے ۔ یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ افسانوی ادب روایت پذیر ہونے کے باوجود بھی ہر کہانی میں نئے سبق کا رنگ دکھانے کی استعداد رکھتا ہے۔رنگ کائنات میں کہانی نویسوں کا جو نفسیاتی اور سماجی مطالعہ ہے۔اس کی مرہون منت وہ معاشرے کی زبوں حالی بیان کرنے میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں ۔کہانی کی تخلیق مرد کے ذمے ہو یا عورت کے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ تخلیق تذکیر و تانیث کی پابند نہیں ہوتی۔اس کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ مجھے تخلیق کرنے والا کون ہے؟ اسے اپنی دلچسپی لیے فقط پلاٹ اور ایسے کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو دوسروں کو احتساب اور ہوش کے ناخن لینے پر مجبور کر دے ۔اور سب سے دلچسپ بات جو جو اس کی ہمہ گیریت میں اضافہ کرتی ہے کہ وہ اپنے اسلوب اور معیار کے لحاظ سے کتنی باوثوق اور باوقار اثرات کی حامل ہے۔ اس میں معاشرتی اتار چڑھاؤ کے کتنے راز کروٹ بدلتے ہیں۔یہی حقیقت ایک اہل سخن کے نزدیک اسے معاشرتی احوال پر توجہ مرکوز رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔کہانیاں ہمیشہ دلچسپی کا مظہر ہوتی ہیں۔وہ ارتقائی مناظر سے پر نمکین ہوتی ہیں۔ان کی چاشنی اور ہمہ گیریت ہمیشہ اثر نفوز ہوتی ہے۔ ہمیشہ ہاتھ پکڑ کر حالات کا مقابلہ کرنا سکھاتی ہیں۔اپنے اندر اوصاف کاری کی بدولت باآسانی دل میں اتر جاتی ہیں۔
زندگی کا سفر کتنا دلچسپ اور رنگ برنگی کہانیوں پر مشتمل ہے۔جب اس کی روداد ادوار کی مثلث بن کر دوسروں کو نظر آتی ہے۔تو اس کی چاشنی دلوں کو موہ لیتی ہے۔
آج میں ایک ایسی تخلیق کارہ کے افسانوی ادب کو بیان کرنے کی ہمت کر رہا ہوں۔جس کا فن و شخصیت ایسے ادب سے عبارت ہے۔ جہاں کہانی خود بولتی ہے۔ اپنا تعارف خود کرواتی ہے اور پھر آخر تک قاری کی توجہ ہٹنے نہیں دیتی۔ ایسا سخن اور اعزاز سیالکوٹ کی سرزمین سے جنم لینے والی ادبی بہن نصرت جان کو جاتا ہے۔جس کی قلم سے ایسی کہانیوں کا جنم ہوا ہے جس نے معاشرے میں پھیلی ہوئی زہرناکیوں کو قلم کی طاقت سے ایسے نچوڑ نچوڑ کر بیان کیا ہے جیسے کسی پتھر کو تراش تراش کراسے ہیرا بنا دیا جاتا ہے۔اس کے اندر سچ کا لاوا ہے جس کا وہ براہ راست اظہار و عقیدت انتساب کی نگری میں جوں کرتی ہیں۔ وہ اپنی پرخلوص محبت اور دلی کیفیت کو ایسے الفاظ سے منسوب کرتی ہیں۔جس سے ان کے پختہ شعور کی عکاسی ہوتی ہے۔ان کے اندر تخلیق اور تحقیق کا ایک چراغ ہے۔جس کی روشنی میں ان کے ضمیر کی آواز کو پڑھا جا سکتا ہے۔ان کا مذکورہ انتساب ملاحظہ کیجئے۔
” انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ اپنے والدین کے نام جنہوں نے مجھے سچ بولنا سکھایا اور میں نے ہمیشہ سچ لکھا”
ان کے افسانوی مجموعے “ٹوٹے پروں کے سنہری خواب” میں 19 افسانے ادبی شان کے ساتھ حقیقت کے پر پھیلائے کھڑے ہیں۔ جن کا عنواناتی چناؤ ، اسلوب ، اجزائے ترکیبی ، پلاٹ ، کردار ، ادبی چاشنی ، سوچ کا سمندر ان کے ماضی کی خوبصورت داستان ہے جسے زبان زد لانے کے لیے انہوں نے قلم اور عقل کو شعوری حس میں بیان کرنے کے لیے اپنے ماضی کو یاد رکھا ، دل کی آواز کو حال کے لیے قلم بند کیا اور مستقبل میں اپنی آنے والی نسلوں کو اپنی گود میں لے کر ایسی کہانیاں سنائی ہیں جیسے کوئی ماں اپنے بچوں کو لوری دیتی ہے اور وہ بچے لوری سن کر سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔
ان کا ماضی اس بات کا مخلص اور سچا گواہ ہے کہ مصنفہ کتاب دوستی کے فضل سے معمور ہیں ۔
اس کے گھر کا ماحول اسے ایسا مشغلہ اپنانے پر مجبور کرتا ہے جہاں لوگ تاریخ کے اوراق پلٹ کر ایسے لوگوں کی تلاش کرتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے تجسس اور ضرورت کے مطابق علماء ، ادباء، شاعرات کے ہم سفر بن کر ایسے حقائق کی تلاش میں محو ہو جاتے ہیں۔جیسے قدرت انہیں کوئی کھوئی ہوئی چیز واپس کرتی ہے۔
اگر ہم تاریخ ادب میں افسانوی ادب کہ آغاز و ارتقا پر روشنی ڈالیں تو مشرق وسطی پر تہذیبی اثرات کی ایک وسیع و عریض تاریخ پھیلی ہوئی ہے۔جو اس حقیقت کو بڑی بے باکی سے بیان کرتی ہے۔افسانوی ادب کے پہلے معمار سجاد حیدر یلدرم ہیں۔جہاں وہ افسانہ نگاری کے بانی ہیں وہاں وہ رومانوی طرز فکر کے موجد بھی ہیں۔ان کے افسانوں میں حقیقت و رومان کا حسین امتزاج ہے۔
میں یہاں معروف افسانہ نگار منشی پریم چند کی افسانہ نگاری کے بارے میں ایک معتبر رائے اپنے قائرین تک پہنچانا اپنا اخلاقی روحانی اور ادبی حق سمجھتا ہوں۔تاکہ وہ حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہو جس کو انہوں نے زندگی کے تجربات اور مشاہدات کی روشنائی میں ہم تک پہنچایا ہے۔ان کا لکھا ہوا اقتباس تاریخ کے جھرکوں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔آئیں اس اقتباس کو پڑھیں۔
” افسانہ تحلیل نفسی اور زندگی کے حقائق کی فطری مصوری کو ہی اپنا مقصد سمجھتا ہے۔اس میں تخیلی باتیں کم اور تجربات زیادہ ہوتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ تجربات ہی تخلیقی تخیل سے دلچسپ ہو کر کہانی بن جاتی ہے۔لیکن یہ سمجھنا بھول ہوگی کہ کہانی زندگی کی حقیقی تصویر ہے ۔حقیقی زندگی کی تصویر تو انسان خود ہو سکتا ہے مگر قصبے کے اشخاص کی خوشی و غم سے ہم جتنا متاثر ہوتے ہیں اتنا حقیقی زندگی سے نہیں ہوتے جب تک کہ وہ خود اپنی ذات سے متعلق نہ ہو۔کہانیوں میں کرداروں سے ہمیں ایک یا دو منٹ کے تصرف میں اپنائیت کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اور ہم ان کے ساتھ ہنسنے اور رونے لگتے ہیں”
اگر ہم سعودت حسن منٹو کے افسانوں کی موضوعاتی اقسام پر غور کریں تو ہمیں چار اقسام تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
١۔ علمی یا فکری موضوعات
٢۔ فسادات سے متعلق افسانے
٣۔ جنسی افسانے
۴۔ مخصوص ماحول اور کردار کے افسانے
منٹو نے جس ماحول اور معاشرے میں آنکھ کھلی اس نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو وجدانی کیفیت میں باندھ کر ایسی ایسی حقیقتوں کا پردہ چاک کیا ہے۔جہاں اسے قید و بند کی بے شمار صحبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ اگرچہ وہ ایک نڈر ، مخلص اور سچا کہانی نویس ہے۔جو اپنی بے بسی کا رونا بھی روتا ہے اور معاشرے کی زبوں حالی کا درد بھی سناتا ہے۔
مصنفہ نصرت جان کے افسانے پڑھتے ہوئے گماں گزرتا ہے کہ انہوں نے اپنے منتخب افسانوں میں جن کہانیوں کی چشم کشائی کی ہے۔وہ ان کے ارد گرد ہونے والے ایسے واقعات ، حقائق اور اثبات کا مجموعہ ہیں۔ جنہیں زیر قلم لاتے ہوئے خدا ، کائنات اور انسان ان کے موضوعات کا مرکزی سفیر بن کر سرگوشی کرتے نظر آتے ہیں۔وہ رنگ کائنات میں اپنے معروف افسانے “محبت کی جادوگری ” کو ایسے ماحول اور کیفیت میں قلم بند کرتی ہیں جیسے کوئی خوابیدہ تحریک ان کے اندر تخلیق کے جوبن کو ایسے اتار رہی ہے۔جیسے کوئی چاند چودہویں کی رات کو اپنا حسن و جمال بکھیر کر پوری کائنات کو روشن بنا دیتا ہے۔ان کی تخلیق ایسی منطق کو پیش کرتی ہے۔جیسے خواب میں دیکھا گیا منظر حقیقت میں تبدیل ہو گیا ہو۔ ان کے اس افسانے میں ادبیت ، اخلاقیات ، آفاقیت، کائنات اور ادبی چاشنی کی بارش ہے۔
میں ان کا ایک خوبصورت اقتباس اپنے قائرین کی نظر کرتا ہوں۔
” اسے پیڑوں، پودوں ،پھولوں، تتلیوں، جگنوں پرندوں، پہاڑوں، چشموں آبشاروں، ندی، نالوں، بادلوں، ستاروں اور چاندنی رات سے محبت تھی۔ اس کے گھر کا لان ہمیشہ پھولوں سے بھرا رہتا تھا۔جہاں خوبصورت اور رنگ برنگی تتلیاں پھولوں کا رس چوسنے آ جاتی تھیں۔ وہ سوچتی انہیں کیسے خبر ہو جاتی ہے ؟ کیا ہوا انہیں خبر دے آئی ہے؟ کیا خوشبو اپنا تعارف خود کروا دیتی ہے؟
واہ لفظوں کی بنت کاری کو الفاظ کے موسم سے خوشگوار بناتی ہیں اور جب الفاظ کا موسم دل کی زمین زرخیز بناتا ہے تو دل کی زمین اپنے اندر ادب کے بیچ کو ایسے سمو لیتی ہے جیسے ہوا کا جھونکا چھو کر روح بدن اور جان کو سکون دے جاتا ہے۔مصنفہ کی عقابی نظر ماحول کی غلام نہیں کیونکہ ان کی فراخ دلی ماحولیاتی تبدیلیوں کو جس سچائی سے بیان کرنے کی ارتقائی قوت دیتی ہے۔وہ ماضی حال اور مستقبل کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ چلنے کی تلقین کرتی ہے۔
مجھے روحانی طور پر اس بات کی بے حد خوشی ہوئی ہے۔کہ مصنفہ نے کہانیوں کو جس تخلیقی اور منطقی انداز سے بیان کیا ہے۔وہ قابل ستائش اور تاریخ ادب کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔میں ان کے افسانوی مجموعے کو افقی میدان میں کھڑا ہوا دیکھتا ہوں۔امید ہے ان کی کاوش اچھوتی ، عمیق اور ادبی گروہ میں ایسا گراں قدر اضافہ ہے جس کی ہر کرن آب و تاب کے ساتھ طلوع و غروب ہوتی ہے۔وہ “ٹوٹے پروں کے سنہری خواب” کی تفسیر و تعبیر کرتی نظر آتی ہیں۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد (واہ کینٹ)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں