دل چاہے ہے/حسان عالمگیر عباسی

دل تو چاہے ہے
ہر لمحہ محسوس کیا جائے
اور
انھیں قید کر لیا جائے!

انھیں لکھا جائے اور کتاب میں چھپا دیا جائے
یا
ان کی تصاویر فون گیلری کو تحفتاً پیش کر دی جائیں

لیکن

انسانوں کی تشکیل جہاں قدرتی طور پہ منفرد ہے, وہیں سوچنے سمجھنے محسوس کرنے اور تجزیہ بھی جدا جدا ہے اور یہی جدائی اور جداگانہ خیالات منظر کشی سے روک لیتے ہیں لیکن دراصل یہی اختلاف خوبصورتی اور حسن کہلاتا ہے!

ابھی جن لمحات سے میرا واسطہ پڑا ہے کچھ یوں رہے:

1-کسی دوسرے حلقے سے ہلکے کتے آئے اور غرانے لگے۔ ہلکے نہیں بھی ہیں تو انتہائی پاگل پن بہرحال کر رہے تھے۔ ادھر والے کتے کو اشارے دیے۔ کچھ زبردست پیغام دیا۔ اس والے نے اپنے دوست کو پیغام ارسال کیا اور اگلے ہی لمحے چاروں پانچوں بھاگم بھاگ دھکم پیل فرار ہو گئے۔ چند سیکنڈز بعد اپنے دو واپس آ گئے! پتہ نہیں یہ کیا کھچڑی ہے!

2-سامنے والے پہاڑ کی انتہائی نچلی سطح سے اس پہاڑ کی طرف دوراہے سے کتوں  کے  مسلسل بھونکنے کی آوازیں! یہ روز کا معمول ہے لیکن آج محسوس ہو رہی ہیں۔

3-گھروں کی بتیاں دھیمی دھیمی روشن ہیں اور گھپ اندھیرے میں ان کا جداگانہ مقام نظر آرہا ہے۔

4-درخت کی چھاؤں تلے کرسی پہ اندھیرے میں موبائل کی روشنی جہاں تنگ کر رہی ہے وہیں لکھتے ہوئے دل فرحت محسوس کر رہا ہے۔ یہ نیلا نشیلا ہوا پڑا ہے!

5-موسم بہت زبردست ہے۔ جگنوؤں کی تیرررررر تیررررر طرح کی آوازیں کانوں کو گدگدا رہی ہیں اور اس آواز کی دل و دماغ تک ترسیل ہو رہی ہے۔

6-زبان تیکھی ہوئی پڑی ہے کیونکہ سبز مرچ میری پسندیدہ ہے اور ہر کھانے میں اس کا مقام وہی ہے جو مری میں اخروٹ، پشاور میں پشوری چپل یا پھول، کراچی میں بریانی، لاہور میں پائے یا چنے، سرگودھا میں کینو، چکوال میں ریوڑی، تلہ گنگ میں مونگ پھلی، اور کوئٹہ یا تونسہ میں کھلے ڈھیلے کپڑوں اور کھیڑی کا ہے بشرطیکہ یہ مرچ ٹماٹر اور اناردانے سے ملاپ میں ملتی رہے!

7-چائے کا انتظار ہے۔ دودھ خالص ہے۔ پتی لپٹن ہے۔ یاد آرہا ہے جب پی ٹی وی پہ سنتے تھے:

چائے چاہیے! کونسی جناب ؟
لپٹن ہی تو ہے۔۔

جہاں مرچ تیکھی ہے وہیں چائے انتہائی گرم ہی جچتی ہے۔ چائے کو ہمارے ہاں ‘تتا کٹ’ وی کہتے ہیں کیونکہ جب تک حلق نہ جلے اور توجہ نہ بٹے, دل بہلتا ہی رہتا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply