ہندستان میں ذات پات اور مسلمان/مبصر؛عامر حسینی

میں نے اس کتاب کے پانچ باب پڑھ لیے ہیں – مصنف نے اس کتاب میں ابتدائی مسلم سماج بارے جن کتابوں کے مصنفین پر زیادہ انحصار کیا ان میں سے ایک محمود احمد عباسی ہیں – وہ شیعہ اور صوفی اسلام کے ماننے والوں کو مجوسیت اور ساسانی اشراف مان کر سازشی ،فتنہ گر بتاتے ہیں اور انھیں پہلی اور دوسری صدی ہجری میں بنو امیہ اور بنو عباس کے خلاف عراق، ایران، افریقہ میں اٹھنے والی نہ تو کسانوں کی بغاوتیں دکھائی دیتی ہیں ،نہ غلاموں کی ،نہ دستکاروں کی جو اس زمانے میں علوی جھنڈے اٹھاکر سامنے آئیں ، اسماعیلی اور اس کی ذیلی تحریکوں جن میں نزاری تحریک بھی تھی وہ اس کی طبقاتی بنیادوں پر ذرا بھی نظر نہیں کرتے –
وہ عرب حملہ آوروں کو انصاف پسند اور مساوات پسند بناکر دکھاتے ہیں اور جب وہ صوفی اسلام کو یکسر رد کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ منصور ایک روئی دھونکنے والا تھا اسی لیے اس کے ساتھ حلاج لگا اور عجیب بات ہے کہ وہ یہاں کی بھگتی تحریک کو بھول جاتے ہیں ملامتی صوفیوں کو بھول جاتے ہیں جن کی اکثریت مسلمانوں کی اشراف ذاتوں سے تعلق نہیں رکھتی تھی –
جبکہ وہ اس کتاب کے اندر کہیں بھولے سے بھی سعودی سلطنت اور سعودی عرب میں آل سعود کے تحت اشرافیت کا پوسٹ مارٹم نہیں کرتے جبکہ انہوں نے عثمانیوں کا کیا ہے ، ایرانیوں کا کیا ہے – جیسے انھوں نے ابتدائی مسلم سماج کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے بنو امیہ کو کلین چٹ دی اور سول وار کی ساری ذمہ داری بھی دوسروں پر ڈال دی ،ایسے ہی انھوں نے سعودی عرب کے کردار کو بھی کہیں گدلا ہونے نہیں دیا-
اس کتاب کی تحقیق و تفتیشس کی اجمل کمال جتنی تعریف کررہے تھے یہ معیار تحقیق پر بہت ہی کم درجے کی نکلی ہے اور اکثر و بیشتر جگہوں پر مصنف کا رجحان بہت زیادہ متعصبانہ، فرقہ پرستانہ ہوگیا ہے – ہر رطب و یابس انھیں اپنے تعصب کی تائید میں درکار تھا اسے انہوں نے شامل کرلیا ہے-
وہ کئی ایک سماجی مظاہر کی ظاہری شکل پر حکم لگاتے پائے گئے اور اس اعتبار سے ہی تعریف یا مذمت کرتے نظر آئے – سماجی مظہر کے پیچھے جو سو شو اکنامک فیکٹر کارفرما تھے انھیں انھوں نے نظر انداز کردیا –
وہ گہرائی میں جائے بغیر سندھ، گجرات ، مالا بار سمیت ہندوستان پر عرب حملوں کا دفاع کرتے ہیں اور انھوں نے محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے متعلق سارا انحصار چج نامے اور اس سے مواد لینے والے مسلمان مورخین پر رکھا جبکہ اس بارے میں جو تنقیدی مواد سامنے آیا جیسے منان آصف کی کتاب ہے کو ذرا اہمیت نہیں دی –
ایک سوال یہ بھی ہے کہ وہ سید مودودی کی تفہیم القرآن سے من پسند حوالے لیکر تو خوب آئے لیکن جب پہلی صدی ھجری کے وسط میں مسلم سماج کے اندر سول وار پہ انہوں نے بات کی تو بھول کر بھی کہیں خلافت و ملوکیت اور اس پہ اعتراضات کا جواب دونوں کتابوں کا ذکر تک نہ کیا اور سارا انحصار محمود احمد عباسی وغیرہ پر رکھا۔ کیوں ؟ کیا یہ صرف نظر اس وجہ سے تو نہیں تھا کہ عجمیت اور مجوسیت پہ مبنی انھوں نے جو مقدمہ تیار کیا وہ اسی طرح سے صرف نظر سے ممکن ہوسکتا تھا –
ہندوستان میں جات پات کا بھید بھاو اور اسے جواز فراہم کرنے کی سماجی بنیادوں کی جانچ انھوں نے کسی حد تک اچھے سے کی ہے لیکن اس دوران ان کا فوکس سازشی مفروضے رہے جس سے ان کی تحقیق کمزور پڑی اور انہوں نے جو قیمتی مواد اکٹھا کیا وہ ان فرقہ وارانہ کمنٹری میں دبا دبا نظر آیا –
ان کا خیال یہ ہے کہ بھگتی تحریک ہو یا سکھ مت یا وشنو تحریک ان میں جات پات کے بھید بھاو کے خاتمے ،مساوات کی بات سب ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کے خلاف سازش تھیں –
گویا کبیر ، گرو نانک ، چتنیہ یہ سب کے سب سچے مصلحین نہیں تھے ،ان کی انسان دوستی بھی ڈھونگ تھی یہ تو سازشی تھے اور یہ برہمن واد کو بچانے کی کوشش کررہے تھے –
مجھے تو ایسا لگا جیسے مصنف کو شدید افسوس ہے کہ ہندستان میں دوسرے مذاہب کے اندر سے جات پات اور نسل پرستانہ عدم مساوات کے خلاف رجحان ساز تحریکیں اور مصلحین کہاں سے ٹپک پڑے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply