ایک اچھے انسان کے لیے یہ کسی صورت زیبا نہیں کہ وہ کوئی بات سنے اور بغیر تحقیق کے اسے آگے پہنچا دے۔ سنی سنائی اور اصل و حقیقی بات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ آج کے سوشل میڈیا دور میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی بات لمحوں میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ اگر کوئی پوسٹ میری پسندیدہ سیاسی و مذہبی جماعت کے حق میں ہے تومیرے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ میں بغیر کسی تحقیق کے اسے آگے شیئر کر دوں جبکہ اس کے برعکس اگر کوئی پوسٹ مخالف ہے تو میں بلا تحقیق اسے فیک قرار دے دوں گا۔شخصیت پرستی نے ہمارے ذہن کو ایک دائرے میں قید کر دیا ہے جس سے ہماری سوچ اتنی محدود ہو چکی ہے کہ ہمیں اپنے علاوہ تمام لوگ گمراہ و جاہل دکھائی دیتے ہیں۔
(۲) مصر کے عامل عبداللہ بن ابی سرح کی زیادتیوں سے اہل مصر کو شکایت ہوئی۔ لوگ مدینہ آئے اور مطالبہ کیا کہ اس کو معزول کیا جائے۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت علیؓ کے مشورہ سے عبداللہ بن ابی سرح کو معزول کر دیا اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی بکرکے لیے مصر کی امارت کا فرمان لکھ دیا۔ مصری اس فرمان کو لے کر اپنے ملک کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ محمد بن عبدالرحمٰن بھی تھے۔ راستہ میں انہوں نے دیکھا کہ حضرت عثمان ؓ کا غلام خلیفہ کے اونٹ پر سوار ہو کر تیزی سے مصر کی طرف جا رہا ہے۔ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ خلیفہ کی طرف سے ایک خط لے کر مصر کے حاکم (عبد اللہ بن ابی سرح) کے پاس جا رہا ہے۔ انہوں نے زبردستی کر کے غلام سے خط چھین لیا۔ اس میں لکھا تھا کہ محمد اور ان کے ساتھی مصر پہنچیں تو ان کو قتل کر دیا جائے اور تاحکم ثانی عبداللہ بن ابی سرح مصر کا حاکم رہے۔
یہ خط حضرت عثمانؓ کے چچا زاد بھائی مروان بن حکم نے لکھا تھا اور خلافت کی مہر لگا کر اس کو غلام کی معرفت مصر روانہ کر دیا تھا‘ مگر مصریوں نے اس کو خود خلیفہ سوم کی جانب سے سمجھا اور یہ رائے قائم کی کہ ان کے ساتھ غداری کی گئی ہے کہ ایک طرف تو عبد اللہ بن ابی سرح کی معزولی کا حکم نامہ ہم کو دیا اور دوسری طرف عبداللہ کو خفیہ خط روانہ کر دیا کہ ان سب لوگوں کو قتل کر دو اور تم اپنے عہدہ پر بحال رہو۔ چنانچہ وہ راستہ سے لوٹ آئے اور اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ دوبارہ مدینہ میں داخل ہو گئے۔ ان کا ردعمل اتنا شدید تھا کہ کسی کے سمجھانے بجھانے سے کم نہ ہو سکتا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ کے مکان کو گھیر لیا اور بالآخر انہیں شہید کر ڈالا۔ اسی لیے قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی خبر ملے تو اس پر کارروائی کرنے سے پہلے خوب تحقیق کر لیا کرو۔
ترجمہ: اے ایمان والو! کوئی شریر آدمی تمہارے پاس خبر لائے تو خوب تحقیق کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کسی قوم پر جا پڑو پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔ (سورہ حجرات)

اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ نبی محترم ﷺ نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو قبیلہ بنی المصطلق کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ قبیلہ کے لوگ ان کی آمد کو سن کر ان کے استقبال کے لیے نکلے۔ ولید کی اس قبیلہ سے زمانہ جاہلیت میں کچھ شکایت تھی‘ وہ سمجھے کہ یہ لوگ میرے قتل کے لیے نکلے ہیں‘ اس لیے وہ بستی میں داخل ہونے سے پہلے مدینہ واپس آ گئے اور رسول اللہﷺ سے کہا کہ قبیلہ کے لوگ میرے قتل کے درپے ہو گئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ آپ نے ارادہ کیا کہ ان کی سرکوبی کے لیے حضرت خالدؓ کی سرکردگی میں ایک فوجی دستہ روانہ کریں۔ اسی درمیان میں قبیلہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ضرارؓ آ گئے جو ام المومنین حضرت جویریہؓ کے والد بھی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے زکوٰۃ جمع کر رکھی تھی مگر ولید بن عقبہ ہمارے یہاں پہنچے ہی نہیں‘ ہم تو اسلام پر قائم ہیں اور اللہ کے حقوق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں (ابن کثیر)۔ اس پر حکم دیا گیا کہ جب کسی کے متعلق کوئی خبر ملے تو کارروائی کرنے سے پہلے پوری تحقیق کر لو‘ ایسا نہ ہو کہ خبر غلط ہو اور اس کی بنا پر تم غلط اقدام کر بیٹھو۔
(۲) اسباقِ تاریخ از مولانا وحید الدین خاں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں