انڈیا کے ایماء اور مودی کے الیکشن سٹنٹ کے نام پر جی 20 نے جو اقتصادی راہداری بنانے کا اعلان کیا ہے وہ عملی طور پر ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ بادی النظر میں بھی جی 20 راہداری کا نقشہ دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سی پیک اقتصادی راہداری کے مقابلے پر زبردستی کا ایک ایسا روٹ بنانے کی کوشش ہے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔ یاد رہے کہ الاسکا کے مقام پر روس اور امریکہ کے مابین فاصلہ 500 کلومیٹر سے بھی کم ہے اور روس اور امریکہ زیر زمین ٹنل کے بارے میں تقریباً گزشتہ 20 سال سے پلان کر رہے ہیں لیکن اس 500 کلو میٹر طویل ٹنل پر عمل درآمد شروع نہیں کر سکے، دوسری طرف ممبئی سے دبئی کا فاصلہ کم از کم 1،300 کلومیٹر ہے اور 1،300 کلومیٹر زیر سمندر ٹنل کاآج تک کوئی پراجیکٹ امریکہ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک نے نہیں کیا تو کیا یہ مودی جیسا قصائی کر سکے گا ؟
سی پیک اقتصادی راہداری ایک نیچرل روٹ ہے جس میں خلیجی ممالک بشمول ایران و روس سے پٹرولیم مصنوعات اور چین سے ان ممالک سمیت افریقہ و یورپ کو اس کے برآمدی سامان کی نقل و حمل میں بہت زیادہ آسانیاں، تیز تر ڈلیوری اور کم خرچ میں کیا جانا ممکن ہے اور یہی کسی نئے روٹ کو بنانے کی غرض وغایت ہوتی ہے کہ ترسیل فوری بھی ہو اور سستی بھی ہو جبکہ جی – 20 روٹ میں ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے، کیونکہ اس میں حیفہ سے ممبئی تک بار بار شپ سے لوڈنگ، آف لوڈنگ اور لمبے روٹ کی وجہ سے یہ موجودہ سمندری راستے سے کہیں مہنگا اور کہیں زیادہ دقت طلب ہو جائے گا۔اس حوالہ سے بی بی سی میں بھی ایک رپورٹ شائع ہو چکی ہے جس کے مطابق پاکستان بین القوامی قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سمندری حدود کو پہلے ہی 200 ناٹیکل میل تک بڑھا چکا ہے اور جب چاہیے انڈیا کو اس جی 20 راہداری سمیت اس علاقے سے نکال باہر کرسکتا ہے اس لئے یہ ایک ناقابل ِعمل منصوبہ ہے۔
یاد رہے کہ کسی بھی ملک کی سمندری حدود کو مختلف زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ملک کی ساحلی پٹی پر ایک بیس لائن ( Baseline) بنائی جاتی ہے۔ اس بیس لائن سے 12 ناٹیکل مائل سمندر کی جانب تک ‘ٹیریٹوریل واٹر’ ( Territorial Waters) یعنی دفاعی سمندری حد ہوتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے زمینی سرحد اور یہ پہلی سمندری حد ہوتی ہے۔ دوسری سمندری حد میں ان 12 ناٹیکل مائل کے بعد مزید 12 ناٹیکل مائل کا علاقہ ‘کنٹی گیوس زون’ ( Contiguous Zone) یعنی متصل علاقے کا پانی کہلاتا ہے جو مجموعی طور پر 24 ناٹیکل مائل بنتا ہے۔ اس میں اس ملک کےکسٹمز اور تجارت کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔اس کے بعد تیسری حد (Special Economic Zone) ‘خصوصی اقتصادی زون’ کہلاتی ہے اور یہ حد اس ملک کی بیس لائن سے 200 ناٹیکل مائل آگے تک ہوتی ہے۔ اس حد میں صرف وہی ملک اپنی اقتصادی سرگرمیاں کر سکتا ہے جیسا کہ سمندر میں معدنیات کی تلاش کا کام، ماہی گیری وغیرہ۔ اس سے بھی مزید آ گے پھر’ایکسٹینشن آف کانٹیننٹل شیلف’ (Extension of Continental Shelf) کی حدود شروع ہوتی ہے۔ اس میں بھی اقوام متحدہ کے تحت اس ملک کو کچھ سمندری حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اب اگر انڈیا یا جی-20 ان 200 ناٹیکل مائلز میں اپنی کوئی ٹنل بنانے کی کوشش کریں گے تو یہ پاکستان کی مرضی اور منشاء کے بغیر ممکن ہی نہیں رہ سکتا۔
سی پیک کا کسی بھی انڈین پلان یا جی 20 راہداری سے موازنہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہے کہ سی پیک کی اہمیت ختم یا کم ہو گئی ہے وغیرہ۔ کالم میں اختصار کی وجہ سے عرض ہے کہ آگے چل کر سی پیک کی اہمیت اپنے خطے میں بڑھے گی نہ کہ کم ہو گی۔ مثلاً جب آنے والے وقت میں ساؤتھ چائنا کے سمندر میں تائیوان پر کشیدگی یا جنگ چلے گی تو یہ سی پیک والا راستہ بہت اہمیت کا حامل ہو گا۔ مزید یہ بھی کہ یہ چین کی ترقی کی رفتار اور اس کی اندرونی علاقائی معاشی شفٹ کے لئے بھی سی پیک اہم روٹ ہے۔ پاکستان میں آنے والے اور گزرتے سخت دور میں یہ راہداری بلڈ لائن ثابت ہو گی۔
یہاں ایک بات اور ثابت ہو رہی ہے کہ اس دفعہ پاکستان عالمی طاقتوں کے دباؤ میں نہیں آیا اور سی پیک اقتصادی راہداری سے ماضی قریب کی طرح پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوا۔ اب اس کے کچھ نتائج بھی ہو سکتے ہیں اور ماضی کی طرح کچھ وطن فروش پھر سے کوئی نیا ڈفانگ بھی کھڑا کر سکتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں پاکستان کا یہ جواز ختم کرنے کی بھی کوشش کی جائے کہ آپ نے کسی اقتصادی راہداری میں شامل ہونا ہی ہے تو ہمارے والی جی 20 راہدرای میں شامل ہو جائیں۔بہر حال جو بھی ہے یہ جی 20 راہداری والا بے تکا ڈرامہ سی پیک اقتصادی راہداری کی اہمیت کو مسلمہ کر رہا ہے کہ سی پیک کے مقابلے میں ایک بظاہر فضول قسم کی اقتصادی راہداری سامنے لائی گئی ہے۔ آج اگر پاکستان میں کوئی مستحکم سیاسی حکومت آ جاتی ہے تو صرف 2 سال کے اندر سی پیک کو آپریشن حل کیا جا سکتا ہے اور اس سے اگلے 2 سال کے اندر دہلی – کابل اور دہلی – تہران موٹرویز اور ریل روڈ لنکس بنایا جا سکتا ہے۔ انڈیا کا یہ مجوزہ روٹ اگلے 50 سال کا منصوبہ ہے۔ جس روز پاکستان میں کوئی ایسی حکومت مستحکم ہو گئی جو انڈیا کو ایران اور افغانستان تک رسائی دے دے تو انڈیا از خود اس جی 20 جیسی ناقابل عمل راہداری سے پیچھے ہٹ جائے گا۔

پس تحریر نوٹ:-۔ یہ کالم ناصر بٹ، رانا شرافت، فیصل سید، ثاقب حسین اور بی بی سی کی رپورٹس سے اخذ کر کر ترتیب دیا گیا ہے-
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں