مقتدر قوتوں کے نام خط-اندھے خوابوں کا ایجنڈا/یاسر جواد

دیکھیں کوئی جانوروں کی طرح ہم رذیلوں اور کمینوں کے بھی کچھ خواب ہیں۔ مگر جانور خوش قسمت ہیں کہ وہ بول کر اظہار کی قوت نہیں رکھتے۔ ہم بھی ان کے برابر پہنچنے کو ہیں، لیکن ہم سوچتے بھی تو ہیں، اور سوچ کا اظہار ہو ہی جاتا ہے۔

ہمارے گھٹیا اور بے ضرر سے خواب ہیں کہ بچے سکول جا سکیں، اُن کی سکول وَین صرف ایکسیڈنٹ شدہ اور لانگ روٹ پر چلنے کے ناقابل گاڑیاں ہی نہ ہوں۔ وہ سکول کالج جائیں تو واپس آنے کا یقین ہو۔ کہ سکول اُنھیں یونیفارم اور کاپیاں بیچ بیچ کر نہ لُوٹیں۔ کہ اُن کے نصاب میں صرف بکواس، جھوٹ، مبالغہ اور افسانہ ہی نہ ہو۔ کہ استادوں کو کھڑے کھڑے نہ نکالا جائے۔ کہ فیسوں میں سے بھتہ نہ لیا جائے۔

کہ طلاق پانے والی عورتیں پندرہ پندرہ سال کیس لڑتے ہوئے بوڑھی نہ ہوں اور وکلا کا تر نوالہ نہ بنیں۔ کہ لڑکیاں کم ازکم قبروں میں دست درازی سے محفوظ رہ سکیں۔ اور پدرسری نظام کا شکار اور بدنما حد تک غیر انسانی بن چکی عورتیں محض پیراسائیٹ نہ بنی رہیں۔ اُنھیں بھی جینے کے مواقع ملیں۔

ہمارے خواب ہیں کہ ہم محض مابعدالطبیعیاتی افیون میں ہی نہ کھوئے رہیں۔ ہمارا ہذیان بڑھتا نہ جائے، ورنہ ہم تو ایک دوسرے کو ہی نوچ کھائیں گے۔ اگر تاریک قوتوں کی اسی طرح سرپرستی ہوتی رہی تو ہمارے خواب بھی بھیانک بن جائیں گے۔

ہم بھی مری کی سڑک پر دھتکارے جانے والے اشاروں سے ڈرے بغیر پھرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی فورٹریس سٹیڈیم جیسی بکتر بند تفریح گاہیں چاہئیں۔ ہمیں اردلی اور سلیوٹ نہیں چاہئیں۔ ہم تو کسی ہوٹل کے باہر کھڑے آدمی کو اپنے لیے دروازہ کھولتے دیکھ کر بھی شرمندہ ہو جاتے ہیں۔

آپ سارا کچھ فتح اور غصب کر لیں، مگر کوئی گوشہ تو رہنے دیں۔ یاد رکھیں کہ کبھی سوچنے اور اظہار کرنے والوں کی وجہ سے انقلاب نہیں آیا کرتا۔ انقلاب تب آتے ہیں جب کوئی بیرونی قوت داخلی استحکام کو برباد کر دے۔ کوئی وبا، کوئی جنگ، کوئی آفت ہی انقلاب کا بارود مہیا کیا کرتی ہے۔ کبھی لکھنے کے نتیجے میں بھی کوئی برباد ہوا ہے؟

ہم چاہتے ہیں کہ جج اور اُن کے دلال اپنی بدکاری کو مقدس پردوں میں نہ لپیٹ سکیں اور بیان حلفی کے اشٹام پیپروں میں سے تو کمیشن نہ کھائیں۔ کہ وہ میڈیا کے ساتھ مل کر غیر ملکی ٹیلی وژن چینلز پر پابندی نہ لگائیں اور ہمیں محض کچرا پھرولنے پر مجبور نہ کریں۔
اے ازل گیر اور ابد تاب قوتو، ہمارے اور بھی بہت سے خواب ہیں،
وہ خواب جو آسودگیِ مرتبہ و جاہ سے
آلودگیِ گرد سر راہ سے معصوم!
جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
خود زیست کا مفہوم!

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر یہ باتیں آپ  کو بکواس لگیں گی، اس لیے رہنے دیں۔ زمانے گزر گئے ہم جیسوں کو ایسی باتیں کرتے۔ اب تو وقت بھی ڈالی کی گھڑیوں کی طرح پگھل گیا ہے۔ یہ سارا اندھے خوابوں کا ایجنڈا فضول ہے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply