مراکش ایک ایسی مسلم ریاست ہے، جہاں پر یہودیوں کو مکمل طور پر مسلمانوں کے مقابل یکساں حقوق حاصل ہیں، سوائے مراکش میں بادشاہ کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ یہ واحد عدم مساوات ہے جسے یہودیوں کا سامنا ہے۔ ویسے مراکش کا ریاستی مذہب اسلام ہے، اور اکثریتی آبادی بھی مسلمان ہے، اس کے بعد یہودی و عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے شہری موجود ہیں، لیکن یہاں اس کے علاوہ، مراکش کی حکومت یہودیوں کا بہت خیرمقدم کرتی ہے اور یہودی برادری اپنے مذہب پر پوری طرح اور بغیر کسی پریشانی کے عمل کرتی ہے۔ یہاں تک کہ حکومت یہودیوں کی عبادت گاہوں کی تزئین و آرائش کرتی ہے اور بادشاہ وقتاً فوقتاً یہودیوں کے مقدس دن “یوم السبت کے دن” یہودیوں سے ملنے جاتا ہے۔ بہت سے اسرائیلی یہودی یہاں تک کہ آباد ہونے کے لیے مراکش میں ہجرت کر جاتے ہیں اور حکومت کسی بھی اسرائیلی کو فوری شہریت فراہم کرتی ہے جو اپنے دادا دادی کو مراکشی ثابت کر سکتا ہو، مراکش میں اسرائیلی ایک نئی زندگی کی تلاش کے لیے بھی آتے ہیں یا پھر اپنے اجداد کے وطن کے طور بھی مراکش آ کر آباد ہوجاتے ہیں، علاوہ ازیں اسرائیل میں رہنے والے کچھ یہودی اگر کسی وجہ سے یا کسی جرم کی پاداش میں اسرائیل میں رہ نہیں سکتے ان میں سے بھی اکثر مراکش ہی بھاگ کر آتے ہیں۔
لیکن اس کے مقابل مراکش میں اسپین اور پرتگال کے ساتھ تاریخی جنگوں کی وجہ سے مسیحیوں کا خیرمقدم نہیں کیا گیا، جس میں یہاں کے سلطانوں نے عیسائیت کو مراکش میں کئی بنیادی شہری حقوق سے بھی محروم کر رکھا ہے، یعنی مراکش میں رہنے والے مقامی مسیحی شادی بھی اپنے مذہبی پہچان کے طور پر نہیں کرسکتے یہ بھی ان کے لئے مراکش میں غیر قانونی ہے۔ شادی کرنے کے لئے مراکش میں کسی بھی مسیحی جوڑے کو یا تو اسلام یا یہودیت کا مذہب قبول کرنا ہوگا پھر ان کی اسلامی یا یہودی طریقے سے شادی ہی قانونی تسلیم ہوگی۔ مراکش میں عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے پاس ملکی شہریت بھی اور بلکہ مراکش کی مراکش کی ریاست میں اگر کوئی اپنا مذہب تبدیل کرکے عیسائیت قبول کرلے تو ان کے لیے کوئی مسائل بھی نہیں ہیں۔ لیکن انہیں یہودیوں اور مسلمانوں کے برابر حقوق نہیں دیے جاتے اس لیے وہ یکساں زندگی نہیں گزار سکتے۔ لیکن اگر وہ مسیحی باقاعدہ مذہب تبدیل کرلیں اور سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیں تو انہیں لیگل شادی کی اجازت مل جاتی ہے لیکن مسیحوں کے نزدیک سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں کچھ ایسی روایات قبول کرنی پڑتی ہیں جو ان کے عقیدے سے متصادم ہیں، وہاں کے مقامی مسیحوں کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ مراکشی حکومت کی طرف سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے مراکز کی حکومت بطور مسیحی ان کی کو تسلیم نہیں کرتی اور ان کے عقیدے کے انتخاب کی وجہ سے انہیں سماجی دباؤ کا سامنا اور ہراساں کیا جاتا ہے
مراکش میں صدیوں سے آباد یہ یہودی اقلیت آئین میں مراکشی شہریت میں مکمل حقوق رکھتے ہء، جن کی آج بھی آبادی تقریباً 3,000 افراد تک ہے ، مگر یہودیوں کی اپنی عدالتیں ہیں جو ذاتی حیثیت کے معاملات کے ساتھ ساتھ وراثت اور تدفین کے معاملات بھی چلاتی ہیں۔ جب کہ اس کے مقابل مراکش میں مقامی مسیحی افراد کا تخمینہ 50,000 سے زیادہ ہے لیکن کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ سنہء2011 کے “عرب بہار” کے مظاہروں کے تناظر میں، مراکش نے ایک نیا آئین اپنایا جس میں آزادی اظہار اور عقیدے کی ضمانت دی گئی تھی، لیکن ملک نے خود کو مذہبی رواداری کے نخلستان کے طور پر صرف مارکیٹ کیا ہے، جس میں افریقہ اور یورپ کے مبلغین کو انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے اعتدال پسند اسلام کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن آج بھی مراکش کے مسیحی شہری کے طور پر پہچانے جانے کے باوجود اپنے مذہب کے مطابق قانونی شادیوں اور تدفین کی تقریبات کا حق استعمال نہیں کرسکتے۔ ہاں مگر مراکشی قوانین کے مطابق صرف غیر ملکی عیسائیوں کو گرجا گھروں میں اجتماعی طور پر عبادت کرنے کی اجازت ہے، یہاں موجود گرجا گھر جو بہت سے فرانسیسی نوآبادیاتی دور کے دوران قائم کیے گئے تھے، مقامی مسیحیوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے اور اس کی خلاف ورزی کی سزا تین سال تک قید ہے۔ مراکش میں عیسائیوں کی تنظیمیں اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی رہی تھی ہیں۔
مزے کی بات ہے کہ اس کے مقابل عراق میں مسیحی اور مسلمانوں کو تو برابر کے شہری حقوق حاصل ہیں، مگر یہودیوں کو وہاں پر تمام شہری حقوق حاصل نہیں ہیں، عراق میں عیسائیوں کی ایک بڑی آبادی ہے جسے ریاست نے تسلیم کیا ہوا ہے، حتی کہ صدام حسین کے دور حکومت میں جب حکومت کے پاس اقتدار تھا (خانہ جنگی جاری تھی) مسیحیوں کے ساتھ مسلمانوں کا مساویانہ سلوک تھا یہاں تک کہ صدام حسین کا نائب صدر اور وزیر خارجہ تک مسیحی تھے۔ اس کے بعد صدام کی حکومت کے خاتمے پر جب عراقی فوج اور ملیشیا IS-IS کے زیر قبضہ علاقے کو آزاد کروا رہے تھے، تو انہوں نے ہمیشہ مسیحی عبادت گاہوں کو سب سے پہلے آزاد کروایا اور مقامی عیسائیوں کو دوبارہ اتوار کا اجتماع منعقد کرنے کی ترغیب دی تھی۔ لیکن یہودیوں کے ساتھ معاملات کا تعلق سنہء 1940 کی دہائی سے ہےجب وہاں پر یہودیوں کو عراق سے نکل جانے کی ترغیب دی گئی تھی، عراق نے کبھی بھی انہیں واپس آنے کی ترغیب نہیں دی اور نہ ہی مساوی حقوق کی پیشکش کی، ویسے بھی آج کے عراق میں اب یہودی تقریبا ختم ہوچکے ہیں تمام کے تمام ہجرت کر کے ہیں۔ خلیجی ممالک کے حالیہ بدلتے قوانین میں بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ کئی نئے معاہدے کئے ہیں، بحرین میں ہندو مزہب, سکھ مذہب کی عبادت گاہیں موجود ہیں حتی کہ قدیم یہودی عبادتگاہ بھی موجود ہے، ایسے ہی متحدہ عرب امارات میں تمام مذاہب کو قبول کیا جاتا ہے، عیسائی، یہودی، مسلمان اور یہاں تک کہ ہندو ریاستی حوصلہ افزائی کے ساتھ شانہ بشانہ رہتے ہیں یہاں ان عبادت گاہیں بھی بناتی جاتی ہیں، اور ان کے مذہبی تہوار منانے کے ساتھ ساتھ حکومت ان تہواروں میں ان کا ساتھ دیتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں ہندو دیوالی مناتے ہیں۔ مسیحیوں کے لئے آرمینیائی آرتھوڈوکس چرچ موجود ہیں۔ مصر میں بھی مسیحیوں کو قریب قریب تمام شہری حقوق حاصل ہیں، صدیوں سے ساتھ رہ رہے ہیں، یمن و سعودی عرب میں قریب سوسال پہلے تک یہودی قبائل آباد رہے لیکن اسرائیل کے قیام کے بعد وہ تقریبا تمام کے تمام قبائل اسرائیل منتقل ہوگئے۔ لبنان، شام وغیرہ میں مسیحی بہت بڑی تعداد میں ہیں اور تمام حقوق کے ساتھ رہتے ہیں لیکن چند یہودی خاندان بھی رہتے ہیں، فلسطین میں اسرائیل کے قیام کے بعد اردن سے بھی یہودی قبائل نے اسرائیل ہجرت کی مگر آج بھی وہاں مسیحی اقلیت اپنے مکمل شہری حقوق کے ساتھ رہتے ہیں، اور فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد تو مسیحی اور مسلمانوں کی معاشی سرگرمیوں کے لئے مشترکہ جدو جہد موجود ہے، اپنے انسانی حقوق اور معاشی استحکام کے لئے فلسطین میں خواتین کی تمام تحریکوں اور جنگی مساعد میں مسلمان اور مسیحی خواتین کی مشترکہ کاوشیں شامل ہیں۔
یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ جہاں پر جو اقلیتیں ہونگی ان میں آپسی یگانگت پیدا ہوجاتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں