کالعدم جماعتوں نے نیا آپریشن شروع کیا ہے ۔ اس آپریشن کا نام بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے لال مسجد میں مارے جانے والے غازی عبدالرشید کے نام پر آپریشن غازی رکھا ہے ۔ اگرچہ لال مسجد والے مولانا نے ان کی سرپرستی سے انکار کر دیا ہے ۔ گزشتہ ایک ہفتے سے یہ آپریشن کم از کم سوا سو انسانی جانیں لے چکا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ہر خودکش حملے کے بعد تین منقسم آراء سامنے آئی ہیں ۔ اسلام سے جذباتی وابستگی رکھنے والے کچھ سادہ لوح تو ان دھماکوں کو انڈیا ، اسرائیل اور یہودیوں سے نتھی کر کے ان کی مذمت میں مصروف ہیں ۔ اور کچھ کا خیال ہے کہ دھماکوں کی نہیں دھمالوں کی مذمت اس مسئلے کا حل ہے ۔ اور وہ بڑے طمطراق سے اس سارے قضیئے کا اصل سبب مزاروں پر ڈالی جانیوالی دھمالوں کو قرار دے رہے ہیں ۔ کل تک یہی لوگ لاہور دھماکے کا سبب پاکستان سپر لیگ کو دہشتگردوں کا اصل ہدف قرار دے رہے تھے اس سے قبل وہ سی پیک کے خلاف سازشوں کو بھی دہشتگردوں کا ہدف قرار دے چکے تھے ۔ بات خواہ کچھ بھی ہو یہ لوگ کبھی نہیں مانیں گے کہ ان دھماکوں کا اصل سبب کیا ہے ۔ کیوں کہ اب اللہ کی وہ رسی جسے انہوں نے مظبوطی سے پکڑ رکھا ہے جلتی ہوئی انہی کی طرف آ رہی ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ دیگر لوگ بھی ان کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ یہ روایتی بیانات سنتے سنتے کان پک چکے ہیں کہ خود کش بمباروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن جب اسلام کے بڑے بڑے علمبردار ان واقعات کو یہود و ہنود کے کھاتے میں ڈالتے ہیں تو درحقیقت وہ اس دہشتگردی کی عفریت کو اسلام کے دامن رحمت میں پناہ دے رہے ہوتے ہیں ۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس حقیقت کو تسلیم کر لیاجائے کہ یہ کام مسلمانوں بلکہ ہم جیسے عام عاصی گناہگاروں سے زیادہ مسلمان سرانجام دے رہے ہیں، مان لیا کہ یہ کام یہودی اور ہندو کر رہے ہیں لیکن پھٹنے والے خود چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ہم کون ہیں کیا ان کے بیان کی اتنی وقعت بھی نہیں کہ ہم چند لمحوں کے لیئے تجزیہ ہی کر لیں کہ یہ کون ہیں ۔ چلیں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ کون ہیں ۔ آخر میری بھی کوئی رائے ہے ۔ اور میں پوری دیانتداری سے کہنا چاہوں گا کہ یہ پھٹنے والے سارے مسلمان ہیں ۔ یہ سارے کلمہ گو ہیں ۔ ان کے دماغوں میں جنت کی رنگینیاں بٹھا دی گئی ہیں ۔ اور اس جنت کے حصول کے لئے انہیں سب سے مختصر راستہ خود کش جیکٹ پہننا بتایا گیا ہے ۔ یہ ستر سالہ ہمبستری کے لئے ترسے ہوئے مجنوئوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہیں ۔ یہ ہمارے ارد گرد معاشرے میں موجود ہیں ۔ اور بھی سچ کہوں تو اس ساری صورت حال تک ملک کو پہنچانے میں سب سے بڑا کردار ہمارے نظام عدل کا ہے ۔ جب نظام عدل ناکام ہو جائے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے ۔ بھلے ہم خود کو کتنی ہی تسلیاں کیوں نہ دے لیں ۔ ہم سب لوگ ان کی نظروں میں کافر، مرتد، بے دین ، زندیق اور فاسق و فاجر ہیں ۔ کیوں کہ ہم بنکوں کو مال غنیمت سمجھ کر نہیں لوٹتے ۔ کیوں کہ ہم اسلام کے نام پر خود کش جیکٹیں نہیں پہنتے ۔
اور یہ جو سوشل میڈیا پر حقائق سے فرار کا درس دیتے ہیں اگر کسی خود کش بمبار کی نظر سے دیکھیں تو یہ سب کافر و بے دین قرار پائیں ۔ ریاست عدل کی فراہمی میں ناکام ہو چکی ہے ۔ اہل مذہب اسلام کو پرامن دین ثابت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ ایسے میں ایک ایسے معتدل اور متوازن بیانیئے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو کھل کر مذہبی آزادی کا اعلان کرتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ انسانیت کے تحفظ کا ضامن بھی ہو ۔ جب تک انسانیت اور اسلام میں ہم آہنگی پر مشتمل بیانیہ سامنے نہیں آتا تب تک یہ کھیل رکنے والا نہیں ۔ اس پر ایسے مکالمے کی ضرورت ہے جو معاملے کی تہہ تک جائے ۔ جو نفسیاتی تجزیہ کرے ان عوامل کا جن سے ایک خود کش بمبار تیار ہوتا ہے ۔ اگر خود کش بمبار ختم کرنے ہیں تو اس کا تمام تر انحصار عدل کے قیام پر ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں