ابن حزم اندلسی( 3,آخری قسط)-انور مختار

ڈاکٹر خورشید رضوی عربی اندلسی شاعری کے بارے میں اپنے ایک تحقیقی آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ابن بشکوال نے قاضی ابوالقاسم صاعد بن احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن حزم تمام اہل اندلس میں اسلامی علوم کا سب سے بڑا امین تھا اور زبان دانی ، بلاغت ، شاعری ، سوانح اور تاریخی واقعات سے بہرۂ وافر پانے کے ساتھ ساتھ وہ عام وسعت علمی میں بھی سب سے بڑھ کر تھا۔ اس کے بیٹے ابورافع الفضل کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اس کے والد کے قلم سے لکھی ہوئی چار سو جلدوں کے قریب تالیفات تھیں جو تقریبا اسی ہزار اوراق پر مشتمل تھیں ۔ ان کتابوں کےموضوعات کا تنوع دیکھ کر ان کے مولف کی بے پناہ صلاحیتوں اور بوقلموں کا کچھ اندازہ ہوتا ہے ۔ فقہ ، حدیث ، تاریخ ، انساب ، تقابل ادیان ، منطق ، کیا ہے جو یہاں موجود نہیں ۔ فقہ میں کچھ عرصہ شافعی مسلک کی پیروی کے بعد وہ ظاہری مسلک کا پرجوش مبلغ بن گیا اوراسی نسبت سے ابن حزم الظاہری کے نام سے پہچانا گیا ۔ اپنی برّاقئ طبع کے زور میں اس نے فقہائے سلف پر اس قدر کڑی نکتہ چینی کی کہ اس کی زبان کو حجاج بن یوسف کی تلوار کا ہمزاد قرار دیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ فقہائے وقت اس کے خلاف یک زبان ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی گمراہی پر اتفاق کیا۔اس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں جس پر اس کاتبصرہ یہ تھا:
فَإِنْ تَحْرِقُوا القِرْطَاسَ لاَ تَحْرِقُوا الَّذِي
تَضَمَّنَهُ القِرْطَاسُ بَلْ هُوَ فِي صَدْرِي
يسير معي حيث استقلت ركائبي
وينزل أن أنزل ويدفن في قبري
کاغذ کو تم اگر جلا بھی دو تو کیا ہے
جو کچھ کاغذ میں درج ہے اس کو تم نہیں جلا سکتے ، بلکہ وہ میرے سینے میں محفوظ ہے
جہاں جہاں میری سواری جاتی ہے یہ ( علم ) میرے ساتھ چلتا ہے اور جب میں پڑاؤ ڈالتا ہوں تو یہ بھی پڑاؤ ڈالتا ہے اور یہ میرے ساتھ ہی قبر میں دفن ہوگا
روانی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ اسی ٹھیٹھ فقیہ کے اشعار ہیں جو ” المحلیٰ ” میں بولتا نظر آتا ہے ۔ شاعری سے اسے کیسی طبعی مناسبت تھی اس کا اندازہ ابوعبداللہ الحمیدی کے اس قول سے ہوتا ہے کہ :
“مارایتُ من یقول الشعرَ علی الندیھۃ اسرع منہ “میں نے فی البدیہہ شعر گوئی میں ابن حزم سے تیز کسی کو نہیں دیکھا ”
اپنے دور کے عام شعری اسلوب کے برخلاف ابن حزم مجاز ، تشبیہ اور بلاغت کے دیگر ڈھلے ڈھلائے ، محسّنات ِ لفظی و معنوی پر ضرورت سے زیادہ زور نہیں دیتا ۔ نہ فکری مبالغے سے کام لیتا ہے اور نہ لفظی گھن گرج کو اپنا مقصود بناتا ہے جس کے پس منظر میں ایک عمیق احساس بولتا نظر آتا ہے ۔
اس کی کتاب ” طوق الحمامۃ ” کا پورا نام ” طوق الحمامہ فی الاُلفۃ والاُلّاف”ہے ۔ کتاب کے حرف آغاز سے پتہ چلتا ہے کہ ابن حزم کے ایک پرانے دوست نے المریۃ سے اس کے نام شاطبہ کے دورِ سکونت میں ایک خط لکھا جس میں اس سے فرمائش کی گئی تھی کہ محبت ، اس کے مفاہیم اور اسباب و احوال پر ایک رسالہ ترتیب دے ۔ابن حزم جس پر – تدین بے حد غالب تھا– اگرچہ آغا ز میں یہ کہا ہے کہ مدت عمر مختصر ہے جسے سوائے فکر آخرت کے کسی شے میں صرف کرنا مناسب نہیں ، تاہم اس دوست کی خاطر اسے بہت عزیز تھی چنانچہ بعض اقوال وروایات کا سہارا لے کر جن میں ” لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے ” کا مضمون بیان ہوا ہے اس نے اس فرمائش کو ” طوق الحمامہ ” کی صورت میں پورا کیا ہے ۔ اس کتاب کو مجموعی اعتبار سے نفسیات عشق کا ایک دقیق تجزیہ کہا جاسکتا ہے جو ابن حزم نے ذاتی تجربات و مشاہدات کی اساس پر پیش کیا ہے ۔ مختلف ابواب میں عشق و محبت کے مختلف مدارج و احوال و اقسام پر روشنی ڈالتے ہوئے بہت سے واقعات نقل کئے گئے ہیں جن کے لب لباب کو ابن حزم نے جابجا اپنے اشعار سے واضح کیا ہے اور اس طرح اس کے کلام کا ایک اچھا خاصا مجموعہ محفوظ ہو گیا ہے ۔ ” طوق الحمامہ ” ہر چند کہ تمام آپ بیتی نہیں تاہم ابن حزم کی اخلاقی جرات کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے گاہے گاہے آپ بیتی بیان کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اگرچہ دوسروں کے نام ظاہر کرنے میں احتیاط سے کام لیا ہے ۔ کتاب کی نظم ونثر دونوں اس کے ملکہ ادبی اور ذوق شعری کا ثبوت ہیں ۔ حتّی نے بجا طور پر کہا ہے کہ ابن حزم نے اس کتاب میں عشق پاکباز (Platonic Love) کی برتری پر زور دیا ہے ۔چنانچہ آخری دو ابواب ” قبح المعصیۃ ” اور ” فضل التعفف” میں عفت و پاک دامنی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور ہوسناکی کی بدانجامی پر ایک فقیہ و عالم دین کے انداز میں وعید شدید سنائی گئی ہے ۔ آخر کتاب میں ابن حزم کا لہجہ معذرت خواہانہ ہو گیا ہے کیونکہ اسے یہ احساس ہے کہ بعض کٹّر لوگ اس کتاب کی تالیف پر اعتراض کریں گے ۔
ایک مقام پر یہ بحث کرتے ہوئے کہ آیا ” وصل میں مرگ ِ آرزو” کا تصور درست ہے وہ اس سے اختلاف کرتا ہے اور ذاتی تجربے کے حوالے سے بتاتا ہے کہ وصل سے تو آتشِ شوق اور تیز ہوتی ہے اور محب کا دل محبوب سے کبھی نہیں بھرتا ۔ اس ضمن میں اس نے اپنے یہ شعر نقل کئے ہیں ۔
وددت بأن القلب شق بمدية
وادخلت فيه ثم أطبق في صدري
فأصبحت فيه لا تحلين غيره
إلى مقتضى يوم القيامة والحشر
تعيشين فيه ما حييت فإن أمت
سكنت شغاف القلب في ظلم القبر
” میری خواہش ہے کہ میرا دل کسی دشنے سے چیرا جائے اور – ( اے محبوبہ ) تجھے اس کے اندر رکھ دیا جائے اور پھر اسے ( دوبارہ ) میرے سینے میں بند کر دیا جائے ۔
سوتو وہیں کی ہورہے اور قیامت وحشر تک ، کسی اور دل میں نہ اتر سکے
جب تک میں زندہ رہوں تو اسی میں زندہ رہے
اور اگر میں مر جاؤں تو تو قبر کی تاریکیوں میں بھی میرے نہاں خانہ دل میں ہی مقیم رہے ” ایک اور مقام پر بحث اٹھاتا ہے کہ شعراء نے ” تصور محبوب ” کو اس قدر اہمیت کیوں دی ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف آراء نقل کرنے کے بعد اپنے یہ شعر لاتا ہے جن میں محبوب کے خواب وخیال کو حقیقی وصل پر ترجیح دینے کی وجہ بیان کرتا ہے :
أغ۔ار ع۔ل۔ي۔ك من إدراك طرفي
وأش۔ف۔ق أن ي۔ذي۔ب۔ك ل۔م۔س ك۔في
ف۔أم۔ت۔ن۔ع الل۔ق۔اء ح۔ذار ه۔ذا
وأع۔ت۔م۔د ال۔ت۔لاقي ح۔ين أغ۔في
ف۔روحي إن أن۔م بك ذو إن۔فراد
من الأع۔ض۔اء م۔س۔ت۔تر وم۔خ۔في
ووصل الروح أل۔ط۔ف ف۔ي۔ك وق۔ع۔ا
من ال۔ج۔س۔م ال۔م۔واصل أل۔ف ض۔ع۔ف
” میں تو تیرے بارے میں یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ خود میری نگاہ تجھ پر پڑے
اور ڈرتا ہوں کہ تو میرے ہاتھ کے لمس سے پگھل نہ جائے
اسی خوف سے میں ملاقات سے باز رہتا ہوں
اوراسی ملاقات پر انحصار کرتاہوں جو نیم خوابی کی کیفیت میں ہوتی ہے کیونکہ ، اگر میں سو جاؤں ، تو میری روح کو تیرے ساتھ کامل خلوت میسر آتی ہے
اعضائے جسمانی سے مستور ومخفی ہو کر
اور روح کا وصال تجھ سے وہ حظ اٹھاتا ہے
جو جسم کے وصال سے ہزار گنا زیادہ لطیف ہے”
محمد فیاض صاحب نے ابن حزم کے یہ چند اقوال اپنے سفر نامہ اندلس کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیے ہیں
1۔ سامان دنیا کی خاطر قربانی دینے والے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص لعل و جواہر کو کنکریوں کے عوض فروخت کر دے۔
2۔ بہت سے لوگ ریاکاری کے اندیشے سے نیک کام چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ریاکاری کو ناپسند کرنے کا یہ انداز شیطان کا ایک جال ہے۔
3۔ جس شخص کا طبعی رجحان جس علم کی طرف ہو اسے وہی سیکھنا چاہیے ورنہ وہ اندلس کے علاقہ میں ناریل اور ہندوستان میں زیتون کاشت کرنے کی سعی ناتمام کر رہا ہے۔
4۔ مال و دولت و جسم اور صحت میں اپنے سے ادنی کو دیکھیں اور دین اور علم میں اعلی درجہ والوں کو۔
۵۔ غلط مشورہ یا رائےدینے والوں کے مشورہ پر تجربات کرکے اپنا وقت ضائع نہ کریں، بجائے تجربہ اور اپنا نقصان کرکے اسے اس کا موجب قرار دے کر اسے شرمندہ کریں۔
6۔ علم اور اہل علم کو نقصان نااہل لوگوں کی اس سوچ کی وجہ سے ہوا کہ وہ بہت بڑے عالم ہیں۔
7۔ بہت سارے کام ایک ساتھ کرنے کا انجام یہ ہوگا کہ کوئی کام بھی مکمل نہیں ہوگا۔
9۔ حکمرانوں کے لیے سب سے بڑے نقصان کا باعث ان کے فارغ مشیر بنتے ہیں، عقلمند حکمران وہ ہے جو ان کو کسی کام پر لگائے رکھے۔
10۔ اپنے کاموں میں اس فرد سے مدد لو جو اس کام سے آپ کی طرح فوائد چاہتا ہے۔
11۔ بدترین ظلم یہ ہے کہ کثرت سے برے کام کرنے والے سے اگر کوئی اچھا کام ہوجائے تو اسے تسلیم نہ کیا جائے۔
12۔ ابلیس کی چالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کوئی برا کام کرے اور عذر پیش کرے کہ اس سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کام کیا تھا۔
13۔ عدل و انصاف یہ ہے کہ آپ واجبات ادا کریں اور اپنے وصول بھی کریں۔
14۔ ظلم یہ ہے کہ اپنے واجبات تو لوگوں سے لیں مگر ان کے ادا نہ کریں
15۔ جو شخص آپ کو آپ کی خامی سے آگاہ کرتا ہے، وہ آپ کا دوست ہے، اور جو آپ کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معمولی سمجھا، وہ آپ کا دوست نہیں ہو سکتا۔
16۔ دوستوں سے سسرالی اور تجارتی رشتہ بنانے سے پرہیز کریں، دونوں میں فریق بن کر تعلقات میں کمی آئے گی۔
17۔ جب کسی کو نصیحت کریں تو درپردہ کریں یا اشارہ و کنایہ میں کریں۔
18۔ کچھ لوگوں کو اپنے حکمرانوں اور دوست کی خاطر اسی طرح غیرت آتی ہے جیسے شوہر کو بیوی اور عاشق کو معشوقہ کے بارے میں۔
19۔ اے انسان اپنی جسمانی قوت پر فخر نہ کر کیونکہ تم سے زیادہ قوت ہاتھی میں پائی جاتی ہے، اپنی شجاعت پر فخر نہ کر کہ شیر و چیتا تم سے زیادہ شجیح ہیں، زیادہ وزن اٹھانے پر نہ فخر کر کہ گدھا تم سے بوجھ اٹھاتا ہے
آخر میں فقہ ظاہری کو جاننے اور سمجھنے کیلئے دو کتابیں بہت اہم اور مفید ہیں :
(1) فقہ ظاہری کی جزئیات کیلئے (المُحَلَّى فِي شرح المُجَلَّى بِالحجج وَالآثَار)
(2) اور اصول فقہ ظاہری کیلئے (الإِحكَام لأُصُوْل الأَحكَام)
یہ دونوں کتابیں امام ابن حزمؒ ظاہری کی ہیں ابن حزم کے بارے جو کتابیں اردو زبان میں میسر ہیں ان میں ایک ’’حیات امام ابن حزم ‘‘مصر کے مشہور مصنف، سوانح نگار شیخ محمد ابوزہرہ مصری کی تصنیف ھے جس کا اردو ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری نے کیا ھے اس موضوع پر ایک اعلیٰ تحقیقی تصنیف ہے اس کتاب میں انہوں نے امام ابن حزم کی سیرت وسوانح ، عصر وعہد، گردوپیش، طلب علم ، شیوخ وتلامذہ ،سیاسی کوائف واحوال، طلب علم میں کثرتِ اسفار ، علمی وسعت ، معاصرین کی شہادت، افکار وآراء، فقہ ظاہری کی خصوصیات،سیاسی نظریات ، اصول وقواعد، شرعی دلائل وبراہین، فقہ ظاہری کے منفرد مسائل الغرض ہر وہ چیز بیان کردی ہے اس کتاب کے علاوہ ہنگرین مستشرق “ایگناز گولڈزیہر” کی کتاب” الظاہریہ ” جس کا اردو ترجمہ ریحان عمر صاحب نے کیا ھے ابن حزم اندلسی کے بارے میں کافی معلومات فراہم کرتی ھے
ختم شد

Advertisements
julia rana solicitors

اس مضمون کی تیاری میں مختلف تحقیقی مضامین سے مدد لی گئی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply