نیک دوست اور نشہ پانی/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
ڈاکٹر منیر سلیمہ ایک اچھے مسلمان تھے۔ ان میں عادات قبیہہ تھیں ہی نہیں جبکہ میں تھا زندیق۔ منیر جانتے تھے کہ میں پینے سے شغف رکھتا تھا۔ وہ مجھ سے کہنے لگے “یار میں تیرے شغل کا بندوبست نہیں کر سکتا” پھر ہنس پڑے تھے۔ میں نے کہا تھا ” میں بھی پیاس سے نہیں مرا جا رہا، مولانا” اور یہ کہہ کر زور سے ہنس دیا تھا۔

شام کو بابر کے ہاں جانا تھا۔ جب بابر کے ہاں پہنچے تو وہاں میرے دو تین اور رفقائے کار بھی پہنچے ہوئے تھے جن میں سے ایک کو دیکھ کر میں نے کہا تھا ” مجھے آپ کا نام یاد نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں آپ کو جانتا ہوں”۔ موصوف مسکراتے ہوئے گویا ہوئے تھے، ” مجھے بابر نے آپ کے آنے کے بارے میں بتایا تھا۔ میں خاص طور پر ان کے ہاں پہنچا ہوں تاکہ دیکھ سکوں کہ جناب مجھے پہچانتے ہیں یا نہیں، میں الف الرحمٰن ہوں” ۔ یہ جانتے ہی مجھے یاد آ گیا تھا کہ الف الرحمان جی سی لاہور میں مجھ سے ایک سال سینئر تھا۔ اقبال ہوسٹل میں رہتے تھے اور ان کے ساتھ اچھی گپ شپ تھی۔ بعد میں معلوم ہوا تھا کہ وہ لیاقت میڈیکل کالج حیدرآباد میں داخل ہو گئے تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے تھے۔ پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

بابر ماہر نظام انہضام تھا۔ اس نوع کے ماہرین کی امریکہ میں اچھی خاصی آمدنی پوتی ہے۔ بابر کے چہرے کی جلد تب بھی جب وہ جوان تھا کچھ ڈھیلی لگا کرتی تھی ۔ اب اس کے چہرے کی جلد بہت ڈھلک گئی تھی۔ وہ مجھ سے ، قدیر اور ایلفی سے زیادہ بوڑھا لگ رہا تھا جبکہ جوانی میں وہ باقیوں کے سامنے بچہ لگا کرتا تھا۔ منیر بابر سے ایک آدھ سال بڑا تھا لیکن اس کے بال سلامت تھے، چہرے پر جوانوں کی سی ملاحت تھی اور آنکھوں میں زندگی کی چمک۔ اس کے برعکس بابر میں وہ برجستگی باقی نہ بچی تھی۔ اس کے چہرے کی بڑھتی ہوئی شکنوں کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھوں میں ڈیپریشن کی جھلک بھی تھی تاہم وہ کوشش کر رہا تھا کہ میرے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرے۔ میں سوچ رہا تھا کہ منیر کی قناعت نے اسے تازگی عنایت کی تھی جبکہ بابر کی پیسہ کمانے کی دوڑ نے اسے پژمژدگی کا شکار کر دیا۔

یہ شام بہت اچھی رہی تھی۔ ایسے لگا تھا جیسے دوست کالج کے زمانے میں لوٹ گئے ہوں۔ بابر کے باقی دو کولیگ بھی آپس میں شناسا ان افراد کی گفتگو میں ویسے ہی شریک تھے جیسے وہ باقی سبھوں بشمول میرے بھی شناسا ہوں۔ شام تمام کرنے سے پیشتر بابر گھر کے اندر سے دو پیکٹ لے کر آیا تھا جن میں میرے لیے پتلون قمیص اور دو ٹائیوں کے تحفے تھے۔

ویک اینڈ آ گیا تھا۔ ڈاکٹر منیر سلیمی نے مجھے بتایا تھا کہ کل کا دن ہم گھر پر گذاریں گے اور اتوار کے روز تمہیں آبشار نیاگرا دکھانے لے جایا جائے گا۔ ہفتے کا روز گھر میں بھی اچھا بسر ہوا تھا۔ بچوں کی کلکاریاں، مسز منیر کے ہاتھ کے تیار کردہ پکوان، دسمبر کی بہت کم اترنے والی دھوپ میں، گرم کپڑے اچھی طرح پہن کر، لان کی روش پر چہل قدمی اور چائے کے ادوار کے دوران دنیا جہان کی باتیں۔ رات کو جلدی سو گئے تھے تاکہ بروقت جاگ کر نیاگرا آبشار دیکھنے کے لیے جا سکیں۔

پھر بھی کوئی دس بجے کے قریب گھر سے نکلے تھے۔ بچوں نے ماں کے ساتھ گھر پر رہنا مناسب سمجھا تھا۔ ڈاکٹر منیر، ان کا چھوٹا بھائی اور میں تینوں روانہ ہوئے تھے۔ آبشار نیاگرا زیادہ دور نہیں تھی۔ باوجود اس کے کہ ڈاکٹر منیر اپنی سبھاؤ والی طبیعت کے زیر اثر گاڑی بہت احتیاط کے ساتھ سرعت اختیار کیے بنا چلاتے تھے، ایک گھنٹے بعد آبشار کے نزدیک پہنچ گئے تھے۔ گاڑی پارک کر کے گاڑی سے باہر نکلے تھے۔ یخ ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے جو منہ پر پڑتے تھے۔ رات ہی اس علاقے میں برفباری ہوئی تھی۔ ہر جانب ڈھیروں برف تھی۔ شکر ہے کہ ڈاکٹر منیر نے اپنی ایک گرم جیکٹ مجھے پہنا دی تھی ورنہ میرا اوورکوٹ اس سردی سے مجھے محفوظ نہ رکھ پاتا، پھر جیکٹ کے ساتھ ہڈ بھی تھا جس نے ٹوپی کی کمی پوری کر دی تھی۔

اس ریلنگ کے نزدیک پہنچے تھے جہاں سے ٹنوں پانی ایک نیم قوس کی شکل میں پچاسیوں میٹر کی گہرائی میں گر کر ایک سر شور دریا کا حصہ بن رہا تھا۔ سرد موسم کے باعث وہ فیری سروس نہیں تھی جو آبشار کے گرتے ہوئے پانیوں کے نزدیک تر لے جاتی تھی اس لیے اوپر سے ہی دیکھنے پر اکتفا کیا تھا۔ پانی گرنے کی آواز اپنے مہیب شور کے باوجود کیف آگیں تھی۔ آبشار کے دوسری جانب ٹورنٹو کا ٹی وی ٹاور دکھائی دے رہا تھا۔ اگرچہ وہ خاصا دور تھا لیکن اس سے پہلے زیادہ نزدیک بھی کینیڈا میں واقع کچھ عمارتیں دکھائی دے رہی تھیں۔ ڈاکٹر منیر نے بتایا تھا کہ وہ حلال گوشت خریدنے کی خاطر ٹورنٹو ہی جاتے تھے کیونکہ یہ نیویارک سٹیٹ کے کسی بھی اس شہر سے نزدیک پڑتا تھا جہاں سے حلال گوشت دستیاب ہو سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا ویسے بھی کینیڈا میں حلال گوشت کا نرخ امریکہ میں نرخ سے کم تھا۔ منیر اور ان کا بھائی دونوں امریکی شہری تھے، اگر میں ساتھ نہ ہوتا تو وہ شاید گوشت لینے نکل جاتے۔

آبشار دیکھنے کا زیادہ مزہ اس لیے نہیں آیا تھا کیونکہ سردی بہت تھی چنانچہ زیادہ گھوما پھرا نہیں جا سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا تھا کہ امریکہ میں زیادہ لوگ ملبوسات کی سیل کے دوران ہی کپڑے خریدتے ہیں کیونکہ بہت مناسب قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں۔ اپنی جو پرانی جیکٹ انہوں نے مجھے پہنائی تھی وہ بھی انہوں نے سیل میں ہی خریدی تھی۔ یہ بات اس لیے بتائی تھی کہ پارکنگ کی جانب لوٹتے ہوئے ایک بڑا سٹور دکھائی دیا تھا جہاں سیل لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر موصوف چاہتے تھے کہ میرے لیے نئی جیکٹ خرید لی جائے۔ مگر نئی جیکٹ ملنا میرے نصیب میں نہیں تھا۔ اتفاق سے وہاں جتنی بھی اچھی جیکٹیں تھیں، ان کے سائز یا تو میرے لیے بڑے تھے یا چھوٹے۔

ایک اور دن گذر گیا تھا۔ ڈاکٹر منیر کوئی بارہ بجے کے قریب ہسپتال سے گھر لوٹے تو انہوں نے مجھ سے کہا تھا،” یار میں سوچتا رہا کہ دختر رز سے تمہاری تواضع کیونکر کی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے میں تو اس کار بد میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا تھا مگر ایک فارماسیوٹیکل کمپنی نے اتفاق سے ایک دوا لانچ کرنے کا اہتمام کیا ہے، میں نے مدعوئین میں تمہارا نام بھی لکھوا دیا ہے۔ تم میرے ساتھ چلے چلنا۔ وہاں شراب ناب کا بندوبست ہوگا، تم بھی پی لینا لیکن احتیاط کرنا کہ پی کر ہنگامہ نہ کر بیٹھو” میں نے ان کی بات سن کر ایک زور دار قہقہہ لگایا تھا اور سوچنے لگا تھا کہ ڈاکٹر منیر سلیمی کو میری تواضع کرنے کا کتنا خیال تھا۔ انہوں نے مجھے پلانے کی راہ بھی نکال لی تھی اور اپنا دامن بھی آب عصیاں سے تر ہونے سے پاک رکھا تھا۔

julia rana solicitors

میں ان کے ہمراہ اس سیمینار میں چلا گیا تھا۔ میرے لیے کسی امریکی سیمینار میں شرکت کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ سیمیناروں میں عموما ًپہلے گفتگو ہوتی ہے، مضامین پڑھے جاتے ہیں، اظہاریہ دیا جاتا ہے اور اس کے بعد کھانے پینے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ یہاں گنگا اور طرح سے بہہ رہی تھی کہ کھانے پینے کے ساتھ ساتھ مقررین بات چیت بھی کرتے جا رہے تھے۔ میں بھی پی رہا تھا۔ ڈاکٹر منیر اپنی عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے سے مجھے کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا کہ کہیں میں زیادہ نہ پی جاؤں۔ تاہم نہ صرف یہ کہ میں نے احتیاط برتی تھی بلکہ ماحول ہی ایسا تھا کہ کوئی سنجیدہ رہے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ یوں میں ڈاکٹر صاحب کے خدشے کے برخلاف بغیر بہکے حالت سرور میں ان کے ہمراہ ان کے گھر لوٹا تھا۔ لگتا تھا کہ میرے حصے کی کچھ، پیے بنا ڈاکٹر صاحب کو چڑھ گئی تھی کیونکہ وہ بہت خوش تھے کہ دوست کی خصوصی تواضع بھی ہو گئی اور وہ نہ بہکا نہ لڑکھرایا۔ یہ ذات شریف جانتے ہی نہیں تھے کہ مجھے لڑکھڑانے کے لیے مقدار اور ماحول دونوں زیادہ اور گمبھیر ہونے چاہییں تھے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply