کیا عورت کا جسم جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہوتا ہے؟
خواتین میں جنسی طلب کیوں کم ہو جاتی ہے؟
کیا عمر کے ساتھ ساتھ جنسی شہوت میں بھی کمی آتی ہے؟
سیکس سے متعلقہ مسائل ہماری مقبول ثقافت میں پھیل سکتی ہے، لیکن اس کے بارے میں بات چیت اب بھی ہمارے گھرانوں میں بدنما اور شرمندگی سے وابمستہ ہے۔ نتیجے کے طور پر، زیادہ تر افراد خاص کر خواتین جو جنسی صحت کے مسائل جیسے کم جنسی خواہش سے نمٹتے ہیں یا جنسی تعلقات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں
وہ اکثر غیر تصدیق شدہ آن لائن ذرائع کا سہارا لیتے ہیں یا اپنے دوستوں کے غیر سائنسی مشوروں پر عمل کرتے ہیں۔ سیکس کے بارے میں وسیع پیمانے پر پھیلی غلط معلومات حاصل کر کے اپنی صحت خراب کر دیتی ہیں ۔۔
ایک خاص عمر کے بعد خواتین کی لبیڈو یا کم جنسی خواہش یا سیکس ڈرائیو میں کمی کیوں آتی ہے؟
جنسی تعلقات میں دلچسپی نہ ہونا ایک عام کنڈیشن ہے جو کہ کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے۔ یہ بیماری بھی ہو سکتی ہے اور نارمل بھی۔ اس کنڈیشن کو “لیک آف لیبیڈو”Lack Of Libido کہتے ہیں۔ کوئی 5 فیصد افراد دنیا میں اے سیکچؤل ہیں یعنی کہ ان کو جنسی تعلقات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ قریب 5 فیصد ہم جنس پسند ہیں۔ بلاوجہ ہر کسی کی شادی کرانا بند کرنا ہوگا۔ لیک آف لیبیڈو کی وجوہات خاص طور پر خواتین میں کافی ساری ہیں اور اس پر زیادہ تحقیق نہیں کی گئی۔
زیادہ تر تحقیق اور کتابیں تاریخ میں مردوں نے لکھی ہیں اور خود کو مرکز بنا کر ہی لکھی ہیں۔ جیسا کہ دل کی بیماری پر جو بھی پرانی ریسرچ تھی، اس کو کرنے والے خود بھی مرد تھے اور ان کے مریض بھی مرد تھے اس لئیے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ خواتین میں دل کی بیماری نہیں ہوتی اور پھر اسی لحاظ سے ٹیسٹوں، دواؤں اور اداروں میں انویسٹ کیا گیا۔ یہ سلیکشن بایس یا چناؤ کے تعصب کی ایک مثال ہے۔ اسی طرح مردوں میں لیک آف لیبیڈو کے بارے میں بہت لٹریچر بھی موجود ہے اور اس کے اشتہار بھی ٹی وی، ریڈیو، اخبار اور انٹرنیٹ پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
خواتین میں لیک آف لیبیڈو کی دوا ابھی ایک ہی نکلی ہے۔ جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی ایک مضمون میں لکھا تھا، جب لوگ اپنی تعلیم میں اضافہ نہیں کرتے اور مسائل کی وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کرتے تو الٹے سیدھے طریقے سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے وہ مسائل مزید گھمبیر ہوجاتے ہیں۔ ڈریم کیچر برے خواب نہیں پھنساتا، رین ڈانس سے بارش نہیں ہوتی اور مار پیٹ سے کسی کی بیوی میں لیک آف لیبیڈو ٹھیک نہیں ہوگا۔ ہاں یقیناً وہ پہلے سے زیادہ اپنے شوہروں سے نفرت کرنے لگیں گی۔
اگر خواتین کسی بھی وجہ سے بیمار ہوں جیسا کہ ان کو ذیابیطس، دل کی بیماری، کینسر، ہائی بلڈ پریشر، آرتھرائٹس ہو تو ان کو لیک آف لیبیڈو کی شکایت ہوگی۔ کچھ دواؤں کا یہ سائڈ افیکٹ بھی ہے جن میں ڈپریشن کے اور دوروں کے علاج کی دوائیں قابل ذکر ہیں اگر ان کو کسی بھی وجہ سے تکلیف محسوس ہو جس میں ویجسنسمس ایک عام وجہ ہے۔ اگر خواتین کام اور بچوں کی نگہداش میں انتہائی مصروف ہوں جس کی وجہ سے وہ شدید تھکن کا شکار ہوں تو بھی ان کو لیک آف لیبیڈو جنسی خواہش کی کمی کی شکایت ہوگی۔ حمل، بچے کی پیدائش کے بعد، بچوں کو دودھ پلانے اور مینوپاز کے دوران ہارمونز میں تبدیلی کے باعث بھی ان میں یہ شکایت پیدا ہوسکتی ہے۔
ذہنی مسائل جیسا کہ ڈپریشن، بے چینی، معاشی حالات یا کام کا اسٹریس، جسم کے بے ڈول ہونے کا احساس، ماضی میں جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار، عزت نفس کی کمی، گھریلو لڑائیاں، بے وفائی، بھروسہ اٹھ جانا اور اپنے پارٹنر کے ساتھ برے تعلقات بھی لیک آف لیبیڈو پیدا کرتے ہیں۔
خواتین کے لئیے جذباتی تعلق اہم ہے اور اس جذباتی تعلق کے بگڑنے سے ان کے لیبیڈو پر منفی اثر ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو صاف ظاہر ہے کہ مار کٹائی سے “مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” والی سچویشن پیدا ہوگی۔
خواتین میں لیک آف لیبیڈو جنسی خواہش کی کمی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ نارمل معاشرہ ان وجوہات سے خود کو آگاہ رکھنے کی کوشش کرے گا اور ان کے حل تلاش کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔ ایک بیمار اور کم علم معاشرہ ہی تھپڑبازی سے ہر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ شریف آدمی پھول لائے گا، اپنی بیوی کا سر دبائے گا، پھر رحمت ہوئی تو ہوئی ورنہ پھر کبھی قسمت آزمائی۔
اینڈوکرائن کلینک میں خواتین میں لیک آف لیبیڈو کی مندرجہ ذیل دوائیں استعمال ہوتی ہیں۔ ایک ہلکی طاقت والی ٹیسٹواسٹیرون کریم اور دوسری جو نئی دوا نکلی ہے اس کا نام ہے فلیبانسرین یا ایڈی جو اسپراؤٹ فارماسوٹیکل کمپنی نے بنائی ہے۔ اس کے بارے میں ابھی مجھے خود بھی اور سیکھنا ہے۔ انسانی معلومات کبھی مکمل نہیں ہوتیں۔ روز کچھ نیا نکلتا ہے اور سیکھنا ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے جہاں آبادی بڑھ رہی ہے وہ پاکستان ہے۔ پاکستان میں بچے کی پیدائش کے دوران ماؤں میں مرنے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس وقت پیدائش کے وقت بچوں میں موت کی شرح میں بھی پاکستان سب سے آگے ہے۔ یہاں خواتین اور بچے مر رہے ہیں اور ان آدمیوں کو ان کو مار پیٹ کر ان کے ساتھ سونے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔
ہارمونز خواتین کی جنسی خواہش پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ سیکس کی انتہا سے زیادہ خواہش ہونا یا اس طرف کوئی رغبت نہ ہونا ایک معمول کی بات ہے۔۔۔
بہت سی عورتیں کچھ ایسا ہی بتاتی ہیں۔ ایک ایسا دور ہوتا ہے، جب جنسی خواہش بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس حد تک کہ یہ انہیں بے قابو کر سکتی ہے۔ دوسری جانب خواتین پر ایک ایسا دور بھی آتا ہے، جب انہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ سیکس کی خواہش سے بالکل مبرا ہیں۔
پارٹنر یا شوہر شاید اس سے پریشان ہوتے ہوں کہ کبھی کبھی تو وہ دن میں متعدد بار سیکس کے عمل سے گزر سکتے ہیں اور کبھی کبھی ان کی جیون ساتھی، بیوی یا پارٹنر ان سے بالکل لاتعلق ہو کر ایسا ظاہر کرتی ہے کہ اُسے سیکس سے کوئی رغبت نہیں۔ اتنی بڑی تبدیلی کیسے آتی ہے؟
عورت خود جنسی تعلقات کے بارے میں نہیں سوچتی ہے۔ یہ اس کے اندر پائے جانے والے ہارمونز ہوتے ہیں، جو جنسی عمل میں تیزی یا سستی پیدا کر دیتے ہیں۔
ایک مطالعے سے یہ امر واضح ہوا تھا کہ خواتین کے جنسی رویے کا دارومدار اُن کی ماہواری کے دوران ان کے اندر رونما ہونے والے ہارمونز کی تبدیلیوں پر ہوتا ہے۔ لیکن اس امر کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ جنسی عمل یا سیکس کی طرف رغبت ہونے یا نہ ہونے کا تعلق محض مرکزی اہمیت کے حامل ہارمون ‘ایسٹروجن‘ سے ہی نہیں ہوتا۔
یعنی یہ سمجھنا کہ ایسٹروجن ہی براہ راست جنسی عمل کی طرف رغبت ہونے یا نہ ہونے پر اثر انداز ہوتا ہے، غلط ہے۔ جنسی خواہش کے محدود یا بالکل نہ ہونے کی چند دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر جسمانی تھکن، ذہنی الجھن یا نفسیاتی طور پر کسی دباؤ میں ہونا، یہ سارے عوامل بھی کسی خاتون کی جنسی عمل کی طرف رغبت ہونے یا نہ ہونے پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔
ماہواری کے اثرات۔۔۔
ماہواری کی مدت ہر خاتون میں دوسری خاتون کے مقابلے میں مختلف ہوتی ہے۔ ماہواری کے وقفے کے دوران خواتین میں بیضہ ریزی عمل میں آتی ہے۔ اس طرح حیض کے ایک چکر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
حیض کے ہر چکر کے بعد بچہ دانی ممکنہ حمل کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ اگر حمل نہ ٹھہرے تو بیضہ دانی میں پیدا ہونے والے ہارمونز پروجیسٹرون اور خون میں پائے جانے والے ہارمون ایسٹروجن کی سطح اتنی گر جاتی ہے کہ حیض آجاتا ہے۔ اس دوران بہت سی خواتین میںسیکس کی خواہش بہت محدود ہو جاتی ہے۔
یہ دونوں ہارمونز سیکس میں کمی کی وجہ بنتے ہیں۔ ایک تو ایسٹروجن کی سطح کا کم ہو جانا اور دوسرا ماہواری اکثر خواتین کے لیے تکلیف اور بے چینی کا سبب بنتی ہے۔ تاہم خواتین میں فولیکیولر یا بیضہ دانی کی تبدیل شدہ کیفیت کا مرحلہ شروع ہوتے ہی ان کے سیکس رویے میں بھی تبدیلی رونما ہونا شروع ہو جاتی ہے۔۔۔
ایسٹروجن ہارمونز کی تعداد میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا ہے، ویسے ویسے خاتون کے اندر جنسی خواہش یا شہوت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ جو خواتین مانع حمل کے طور پر ہارمونل ادویات، جیسے کہ گولیوں کا استعمال کرتی ہیں، وہ عام طور پر سیکس کی بہت زیادہ خواہش کے مرحلے سے نہیں گزرتیں کیونکہ مانع حمل ادویات اس امر کو یقینی بناتی ہیں کہ ہارمونز کی سطح سیکس کی خواہش کی بڑی لہریں نہ پیدا ہونے دیں۔۔۔
پروجیسٹرون ہارمونز شہوت کو روکتے ہیں
حیض کے بعد بیضہ دانی میں موجود انڈے پختہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ ایک مخصوص ہارمونز پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی اس مرحلے میں بیضہ دانی کے اندر ایسٹروجن ہارمونز بہت محدود مقدار میں جبکہ پروجیسٹرون وافر مقدار میں بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ پروجیسٹرون ہارمونز سیکس کی خواہش کو ختم کر دیتے ہیں۔
اس مرحلے میں خواتین اکثر بدمزاج، چڑچڑی اور سیکس سے بیزار نظر آتی ہیں۔ اسی دور میں یا تو خاتون حاملہ ہو جاتی ہے اور پروجیسٹرون ہارمونز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ حمل برقرار رہے۔ بصورت دیگر یعنی اگر حمل نہیں ٹھہرتا تو پروجیسٹرون کی سطح رفتہ رفتہ گرنا شروع ہو جاتی ہے اور خاتون کا جسم اب نئے ماہواری کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔
کیا عمر کے ساتھ ساتھ جنسی شہوت میں بھی کمی آتی ہے؟
جنس اور شہوت انسانی جنسی عمل کے دو مختلف مگر اہم پہلو ہیں۔ پوری زندگی اس عمل کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ روز مرہ زندگی میں جسم کی کشش، باہمی لطف اور مزاح کیسے اس سے جڑا ہے۔
معمر افراد کو بھی بچوں، نوعمروں، نوجوانوں اور بڑوں کی طرح خوش اور تندرست رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، اگرچہ ان کے بارے میں کم ہی ایسا سوچا جاتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں میں جو ادارہ جاتی زندگی گزارتے ہیں لیکن ان کی خواہشات عمر کے ساتھ غائب نہیں ہوتی ہیں۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جنسی طور پر متحرک رہنے کو ایک بنیادی حق اور اچھے معیار زندگی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ جس طرح ایک انسان بطور مرد یا خاتون کے اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے یا اس کا اظہار کرتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے جو تمام عمر قائم رہتی ہے۔ اسے ہی جنسیت کہتے ہیں۔
عمر کے ساتھ لذت کم نہیں ہوتی۔۔
زیادہ تر عمررسیدہ افراد جنسی طور پر متحرک رہتے ہیں اور جنسی تعلقات میں دلچسپی اور لذت عمر کے ساتھ کم نہیں ہوتی۔
اگرچہ عمر، بذات خود، ان جنسی طریقوں کو تبدیل کرنے کی کوئی وجہ نہیں، جن سے زندگی بھر لطف اندوز ہوتے رہے ہوں لیکن جہاں مناسب ہو بعض جسمانی طاقت، بیماریوں یا دوائیوں کے اثرات کے مطابق ان میں کچھ بدلاؤ لانا پڑ سکتا ہے۔
جب کوئی جنسی طور پر متحرک ہوتا ہے تو یہ تبدیلیاں کم واضح ہوتی ہیں اور تخیل، حسی محرک اور مددگار ماحول خوشی اور ملاقات کے لیے قبولیت کو بڑھا سکتی ہیں۔
ان بیرونی محرکات کے بارے میں تحقیق کے دوران ان ضروریات کا جائزہ لیا گیا جن کے بارے میں معمر افراد زیادہ بات کرتے ہیں۔
مردوں میں ٹاپیکل کریم سے لے کر پینائل ہارنس تک، عضو تناسل کی کارکردگی کے بارے میں سب سے زیادہ فکر پائی جاتی ہے جبکہ خواتین کی دلچسپی زیادہ تر جنسی عمل میں تکلیف سے بچنے کے علاوہ شہوت انگیزی کے محرکات جیسے عطریات اور جنسی کھلونوں میں دکھائی دیتی ہے۔
تاہم اس بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ایسے بالغ بھی ہیں جو جنسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کا انتخاب کرتے ہیں اور یہ بھی معمول کی بات ہے۔
بیوگی کا اثر
بڑھتی عمر کے ساتھ جنسیت کو متاثر کرنے والے نفسیاتی اور سماجی عوامل بہت اہم ہیں۔ بہت سی ثقافتوں میں، سیکس نوجوانوں کا کام سمجھا جاتا ہے اور بوڑھے لوگ ممکنہ طور پر اس سے کم ہی تعلق جوڑتے ہیں جو ان کی خود اعتمادی کو منفی طور پر متاثر کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی جنسی کارکردگی پر اثر پڑ سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، بیوہ یا رنڈوا ہونے کے جذباتی اور جنسی صحت کے لیے بہت سے مضمرات ہوتے ہیں کیونکہ وہ لوگ جو اپنی زندگی کے زیادہ تر عرصے ایک رشتے میں رہے ہیں وہ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ اپنے طویل مدتی جنسی احساسات کا کیا کیا جائے۔
ایک تحقیق کے مطابق 93 فیصد کا کہنا تھا کہ جنسیت ان کی بہبود کا ایک بہت اہم جزو ہے اور 71 فیصد کا کہنا تھا کہ جب جنسی عمل کا سلسلہ کم ہو بھی جائے تو بھی ان کی جنسی خواہش فعال رہتی ہے اور وہ اپنے ساتھی سے پیار کا اظہار کرتے ہیں۔
ڈوپامائن کے اثر کے تحت جو ایک شدید اور پرجوش محبت تھی، وہ اب اپنے ساتھی سے محبت ہے۔ اس ساتھی سے محبت جس سے آپ پیار کرتے ہیں جس میں اب حسیات اور جذبات غالب ہیں مگر وہیں نیورو ٹرانسمیٹرز (سیروٹونن اور آکسیٹوسن) بھی ہیں جن کے اثرات مسکن ہیں۔
یہ تبدیلیاں جنسی عمل کے دوران جذباتی کشادگی، رشتوں کے دوران لذت سے محرومی اور جنسی عمل کے بعد اپنے موڈ پر اطمینان میں ظاہر ہو سکتی ہیں۔
جنس کو مدنظر رکھتے ہوئے، لوگوں کی اپنے ذہن میں موجود ان کی اپنی شبیہ میں فرق پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر جنسی جوش کی شدت (54% مرد/45% خواتین) یا دی جانے والی اور موصول ہونے والی چیزوں کے درمیان توازن (63% مرد/36% خواتین)۔

لذتوں کی محبت زندگی بھر برقرار اور پھیلتی رہتی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ہم پہلے سے ان میں شامل نہیں تو ہم سب آنے والے چند برس میں بوڑھے ہو جائیں گے اور ہم بھی وہی چاہیں گے جو سب چاہتے ہیں یعنی کہ لطف اندوزی، وقار، رازداری اور بغیر کسی مداخلت کے کسی فرد کی توجہ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں