ہمارے سماجی مسائل میں, ایک مسئلہ جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے, وہ طلاق کا مسئلہ ہے۔ طلاق کی یوں تو متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک رائے یہ ہے کہ پڑھی لکھی خواتین میں طلاق کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ میرے نزدیک یہ رائے عبوری و سطحی ہے اور اسکا تقاضا کرتی ہے کہ اس کی تحلیل کی جائے۔
تعلیم کا اولین مقصد شعور دینا ہے۔ تعلیم انفرادی و اجتماعی شعور بیدار کرتی ہے, بھلے و برے میں امتیاز سکھاتی ہے , فرد کو اپنے حقوق سے متعارف کرواتی ہے اور ان حقوق کے حصول کی طلب پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ پڑھی لکھی خواتین بے شبہ ماضی کی یا دیہاتی خواتین سے زیادہ باشعور ہوتی ہیں اور وہ ان حقوق کا مطالبہ بھی کرتی ہیں۔
اسکے برعکس اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں ( اور آج بھی پسماندہ دیہاتوں میں) خواتین کی شرح تعلیم انتہائی کم تھی, ان خواتین کو نہ پوری طرح حقوق کا علم ہوتا تھا اور نہ وہ کبھی انکی طالب ہوتی تھیں۔ چنانچہ نتیجتاً وہ ہر قسم کا ظلم و جور اور تشدد و بربریت تو سہتی تھیں مگر ایک حرف احتجاج و شکایت ان کی زباں سے نہ نکلتا تھا۔ اسکی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس قدیم و دیہاتی تمدن میں خواتین کے حقوق کا شعور اجتماعی سطح پر بھی مفقود تھا۔ اسکے بالکل مساوی ہمارے مردوں کی تربیت بھی ان خطوط پر کی جاتی تھی کہ بیوی گویا خاک پا اور “پا پوش” ہے۔ اس تمدن میں ایک خاتون کے لیے طلاق کا مطالبہ کرنے یا گھر سے باہر نکل کر عدالتی خلع حاصل کرنے کی نہ استعداد موجود ہوتی تھی, نہ سماجی و خاندانی حمایت حاصل ہوتی تھی اور نہ اس کے ذرائع و مواقع ہوتے تھے۔ اسکے برعکس آج کی خاتون کی نا صرف انفرادی شخصیت بہتر ہے بلکہ اسکو خاندانی و سماجی حمایت بھی حاصل ہے اور ذرائع و مواقع بھی دستیاب ہیں۔
تعلیم کے ان فوائد کے ساتھ کچھ منفی نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اگرچہ سماجی مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ بڑی تعداد میں خواتین باوجود اعلیٰ تعلیم و ملازمت کے امور خانہ اور خاندانی نظم باحسن و خوبی چلا رہی ہیں لیکن خواتین کے حقوق کے عام رجحان نے کچھ خواتین کو بہت حد تک بے باک بھی کر دیا ہے, جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ پڑھی لکھی خواتین معمولی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتی ہیں اور شوہر کو بطور شوہر تسلیم کرنے سے ہی گریزاں ہو جاتی ہیں۔ اسکے کے نتیجے میں باہمی افہام و تفہیم اور تعاون باہمی مفقود ہوجاتا ہے،اور جسکا آخری نتیجہ طلاق و خلع کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس مسئلہ کا تعلق بھی برائے راست تعلیم سے نہیں ہے, اس لیے کہ اسکول , کالج و جامعہ وغیرہ کی تعلیم میں برائے راست اسکی تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔ یہ دراصل ایک ذہنی رجحان ہے جو ان عوامل سے پیدا ہوتا ہے کہ آپ کن افکار و خیالات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں, آپ کس نوع کا لٹریچر پڑھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کس ماحول میں اور کس طرح کے افراد کے ساتھ اپنا وقت گزارتے ہیں۔ اگر کبھی ان خواتین کا تجزیہ کیا جائے تو انکے اس بے باک رجحان کے پیچھے ہمیشہ یہی عوامل پائے جاتے ہیں۔
میرے نزدیک اس مسئلے کے حل کی صائب صورت خواتین کی اصلاح و تربیت ہے۔ یعنی ایک طرف انکو انکے حقوق کا شعور دیا جائے تو اسکے بالکل مساوی ان کے اس بے باک طرزعمل کو روک لگائی جائے۔ اس تربیت و اصلاح کا سب سے موثر محل گھر ہے کہ خواتین کی گھریلو سطح پر حقوق و فرائض کی بابت موثر تربیت کی جائے۔ اسکے بعد اسکول, کالج , جامعہ اور دیگر سماجی پلیٹ فارمز سے اس تربیت کا بندوبست ہو۔
تعلیم نے جہاں خواتین کی خستہ حالت کو خاطر خواہ بہتر کیا ہے بعینہ مردوں میں بھی اس بہتری کی نمو ہوئی ہے اور آج مردوں کی متعد بہ تعداد ایسی موجود ہے جن کا ازواج کے ساتھ رویہ نسبتاً اچھا و بہتر ہے۔ لیکن اسکے ساتھ مردوں کی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔ مردوں میں بھی انہی ذرائع سے برداشت, صلح رحمی عدم برداشت اور توازن مابین حقوق و فرائض جیسے اوضاف کو پروان چڑھانا لازم ہے۔ مردوں کا المیہ یہ ہے گھریلو معاملات میں انکی نگاہ اکثر فرائض کے بجائے حقوق کی طرف ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے مردوں کی روایتی نفسیات کو بدلنے کی احتیاج ہے۔
اکثر مردوں کے ذہنوں میں عورت کا قدیم و روایتی تصور موجود ہے اور عورت کا اس تصور سے سر مو انحراف بھی انکو گوارا نہیں ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں