اچھے دن کب آئیں گے
کیا یونہی مر جائیں گے
اپنے پیارے وطن پاکستان کی حالتِ زار پر دل خون کے آنسو روتا ہے جو ہمارا ملک ہے ‘ ہماری پہچان’ ہماری جان اور ہماری سرزمین ہے ـ آج وطنِ عزیز کو جن مسائل کا سامنا ہے اِن میں مہنگائی ‘ پٹرول کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ‘ بھوک’ افلاس ‘ غربت اور بے روزگاری سرِفہرست ہیں ـ۔
کسی کے پاس اِن مسائل کا کوئی حل موجود نہیں اور نہ ہی کوئی ان کے بارے میں سوچتا ہے سب کو بس اپنی فکر لاحق ہے ـ ہم ہر معاملے میں حکومت کو قصوروار ٹھہراتے ہیں جبکہ افسوس اس بات کا زیادہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ چاہے کسی بھی علاقے یا شہر کا ہو انفرادی طور پر کام کرنے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی یہ ادارے اپنی ذمہ داریوں کو ایمان داری سے نبھانے کا سوچتے ہیں ـ ہر محکمہ اللہ کے سہارے چل رہا ہے کوئی افسر ایسا نہیں جو پوری دیانتداری سے اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہو ـ۔
لاہور جو کہ آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آتا ہے ـ ،تعلیمی اور کاروباری سرگرمیوں کی وجہ سے نہ صرف مشہور ہے بلکہ تاریخی لحاظ سے بھی اپنی ایک خاص اہمیت اور پہچان رکھتا ہے، ـ کہتے ہیں کہ جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں ـ (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا) لیکن یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہاں پر رہنے والے ہی جانتے ہیں کہ کس عذاب سے گزر رہے ہیں جگہ جگہ کھدائیاں کر کے مشکلات میں اضافہ کیا گیا ہے ‘ سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں جن کی مرمت کا کام یا تو ہو نہیں رہا اور اگر ہو رہا ہے تو چیونٹی کی رفتار سے ہو رہا ہے ـ ٹریفک ہر جگہ اپنے عروج پر ہوتی ہے جو ٹوٹی سڑکوں اور تعمیراتی کاموں کی وجہ سے مزید ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے ـ پندرہ منٹ کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے ـ ایک جگہ سے دوسری جگہ وقت پر پہنچنا ناممکن ہو گیا ہے ـ
ویسے تو حالیہ بارشوں نے ہر شہر کو متاثر کیا ہے لیکن اعلیٰ حکام کی توجہ خاص طور پر لاہور کے مین ایریا والٹن روڈ کی طرف مبذول کروانا ضروری ہے ـ جہاں بیکن ہاؤس کا مین والٹن کیمپس بھی ہے اور اس کے اردگرد کئی اور اسکول بھی ہیں جو گھروں میں قائم ہیں ـ یہ ایک عام شاہراہ ہے جہاں ٹریفک کی آمدورفت بہت زیادہ ہے جو اسکول اور دفتروں کے اوقات میں مزید بڑھ جاتی ہے ـ یہاں سے ایک نکاسی کا نالہ بھی گزرتا ہے جو کھلا ہوا ہے جس کی صفائی نہ کیے جانے کی وجہ سے عام حالات میں بھی بھرا رہتا ہے لیکن بارشوں میں اس کا گندہ و آلودہ پانی باہر سڑکوں پر آ جاتا ہے اور بارش کے پانی کے ساتھ مل کر سڑکیں دریا بن جاتی ہیں ـ بدبو اور تعفن فضا کو آلودہ کیے رکھتی ہے ـ اس صورتحال میں وہاں موجود کوڑا کرکٹ کے ڈھیر مزید چار چاند لگا دیتے ہیں ـ کوڑا دان برائے نام ہیں جن کے اندر کوڑا کم اور باہر زیادہ ہوتا ہے حتٰی کہ گرین بیلٹس بھی کوڑا دان بنی ہوئی ہیں ـ جہاں صفائی کا کوئی انتظام نہیں وہیں اس علاقے میں بازار’ کھانے پینے کی دکانیں ‘ اسٹشنری’ یونیفارم’ شورومز اور کئی دیگر دکانیں بھی موجود ہیں جو کاروباری رونقوں کو بحال کیے ہوئے ہیں ـ سلام ہے ان لوگوں کو جو اس تعفن زدہ ماحول میں سانس لے رہے ہیں ۔ـ
یہ علاقہ ایک کاروباری مرکز ہے جہاں رہائشی کالونیاں بھی ہیں’ فوج کے دفاتربھی ہیں ـ ٹوٹی ہوئی سڑک ‘ ملبے ‘ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پھر گندے غِلاضَت سے بھری سڑکوں نے لوگوں کا جینا حرام کر کے رکھ دیا ہے ـ سڑک کی مرمت کا کام طول پکڑ گیا ہے ـ جہاں تعمیراتی کام شروع ہوا تھا وہاں کئی ماہ گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہوا ‘ مکمل تو تب ہو گا جب کام ہو گا ـ جس کی وجہ سے صورتحال مزید گھمبیر ہو گئی ہے۔ ـ
جہاں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں وہیں شہریوں کو کئی کئی گھنٹے سڑک پر ٹریفک کے ازدحام میں اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے ـ ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے موٹر سائیکل سوار فٹ پاتھ پر بھی اپنی موٹر سائیکلیں چڑھا دیتے ہیں جس سے پیدل چلنے والوں کے لیے مزید مشکل ہو جاتی ہے ہر کوئی بس گاڑی نکالنے کے چکر میں ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں اور پھر لڑائی شروع ہو جاتی ہے ـ۔
رابعہ بصری کالج بھی اسی روڈ پر واقع ہے جہاں پانی کھڑا ہو جاتا ہے اور طالبات و اساتذہ اس کے اندر سے گزرنے پر مجبور ہیں ـ کھڑا اور غلاضت والا پانی اس میں نہ صرف پاؤں رکھ کر بلکہ ٹخنوں تک ڈوب کر کالج جانا پڑتا ہے اور یہ روز کا معمول ہے ـ ہمارے حکام نے علم حاصل کرنا بھی مشکل بنا دیا ہے ـ گندے پانی کا دریا ہے جسے عبور کر کے علم کی شمع جلانی ہے ـ۔

اعلیٰ حکام اور متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کہ خدارا اس مسئلے کی طرف دھیان دیں ـ یہ ایک مصروف ترین شاہراہ ہے اور بہت سارے اسکول و کالج کے طلباء و طالبات اور وہاں مقیم کالونیوں کے لوگ مختلف اور خطرناک بیماریوں کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کے رہائشی ذہنی اذیت سے بھی دوچار ہو رہے ہیں ـ فوری طور پر صفائی اور نکاسی کا انتظام کیا جائے تاکہ مسائل میں کمی آ سکے ـ بڑے مسائل کا حل نکالنے میں وقت درکار ہو سکتا ہے لیکن یہ صفائی اور نکاسی کا مسئلہ صرف احکام کی غفلت کا نتیجہ نظر آتا ہے ـ حاصل کلام یہ ہے کہ شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات ـ پاکستان زندہ باد!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں