جوکر/ڈاکٹر مختیار ملغانی

جوکر دراصل بدصورتی کی جمالیات ہے، جسے آپ چٹنی کے ساتھ کیلا کھانے کی مشق سے تشبیہ دے سکتے ہیں ، مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار کٹے ہونٹ کے ساتھ ہالی وڈ کے سپر سٹار ہیں، اس کردار میں ان کا کام لوگوں کو ہنسانا ہے لیکن ان کی ہنسی ہسٹیرک ہے، مرض ہے۔
وہ کہاں سے آیا؟ اس کا باپ کون ہے؟ کوئی نہیں جانتا، اس کی ماں بھی بس برائے نام ہی ماں ہے کہ پالنے پوسنے والی کا چہرہ لوگوں کو یاد رہے، یہ تصور حادثاتی بالکل بھی نہیں، ایسا کردار سماج کیلئے اجنبی اور بظاہر بے معنی ہے۔
جنابِ مسیح کا والد کون تھا ؟
ان کی ماں بھی کوکھ و زچگی کے علاوہ ان کی زندگی میں اور کہیں نظر نہیں آتیں۔
ادب اور سینیماٹوگرافی کا اصول یہی ہے کہ کردار کے والدین اگر نامعلوم ہیں تو کردار کا انجام دکھ اور کرب کے علاوہ کچھ نہیں، البتہ یہ دوسری بات کہ یہ کرب و غم اسے آسمان کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں یا پھر پاتال کی گہرائیوں میں، ہر حال میں مصیبتوں سے ٹکراؤ ناگزیر ہے ، گویا کہ وہ کسی دوسری دنیا کا باشندہ ہے اور اسے اسی دوسری دنیا کی طرف لوٹنا ہے۔
جوکر حقیقت بھی ہے اور افسانہ بھی، کارل ژونگ کا کہنا تھا کہ بچے کا دماغ نہیں ہوتا صرف نفسیات ہوتی ہے، اور دماغ کے بغیر کی نفسیات میں افسانہ و اساطیر ایسے ہی حقیقی ہیں جیسا کہ بیرونی حقیقت کسی بالغ فرد کیلئے حقیقی ہے، یہی وجہ ہے کہ بچہ کھلونے کو عزیز رکھتا ہے کہ اس کی دنیا میں کھلونا ایک حقیقی کردار کی سی اہمیت رکھتا ہے، بیٹ مین کا کردار سو سال قبل ایک بچے نے تخلیق کیا، ایسا ہیرو جو اسے بیرونی دنیا سے حفاظت فراہم کرتا ہے، اور اس بیرونی دنیا میں ان محافظوں کے متضاد کردار بھی موجود ہوتے ہیں، یہ سب کومیک کردار ہیں، جوکر انہی میں سے ایک ہے ،اساطیر و افسانے کے جد امجد ہومر کے کرداروں میں نفسیات تک ناپید ہے، وہاں صرف زمہ داری ہے، فنکشن ہے، Achilles کا کام صرف قتل کرنا ہے۔ جب ایک بزرگ اکھیلیس کو بربریت سے روکنے کی کوشش کرتا ہے تو آگ کا خدا آواز دیتا ہے کہ اسے اپنے حال پہ چھوڑ دو کہ اس کی پیدائش کا مقصد ہی تلوار چلانا ہے، سنجیدہ نقاد اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہومر کے کرداروں پر صرف کومیک فلم ہی بنائی جانی چاہئے کہ اس وقت کے یونانی افسانوی دنیا کے مکین تھے، اکھیلیس اس وقت کا بیٹ مین یا جوکر تھا ، Troy فلم کا بنانا ان کے نزدیک ہومر کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے ۔
فلم کے شروع میں خالصتاً اٹالین نیو ریالزم کا عکس دکھایا گیا ہے، اٹالین نیو ریالزم دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع یوا، جنگ کی تباہیوں اور بربادیوں سے لوگوں کی نفسیات کو بچانے کیلئے فلم ساز اور ادیب خوبصورت فلمیں بناتے، کتابیں لکھتے جس میں شہزادے اور شہزادیاں محبت کے گیت گاتے، یہ طویل اقساط پر مشتمل کہانیاں اور ڈرامے ہوتے ، یہ ہمیشہ اشرافیہ کا ہتھیار رہا ہے کہ لوگوں کے شعور کو گہری نیند میں رکھا جائے، اس سحر کو توڑنے کیلئے کچھ سرپھروں نے نیو ریالزم کو متعارف کرایا ، سماج کے پسے ہوئے طبقات کو مرکزی کرداروں میں لایا گیا، جیسے طوائف، چور اچکے، مجبور لوگ یا پھر منشیات کے عادی وغیرہ کہ یہ لوگ بھی اپنی اپنی کہانی اور زندگی رکھتے ہیں، اسی زمانے کی معروف ترین فلموں میں ایک فلم سائیکل چور ہے، اسی فلم کا تصور لے کر جوکر فلم میں جوکر کو سائیکل چوری کرتے دکھایا گیا، وہ بھی سماج کا دھتکارا ہوا اور پسا ہوا شخص ہے، یہ سب نیوریالزم کا عکس ہے، منٹو نے بھی اسی فلسفے کے سہارے اپنے کردار کشید کئے، یہ اور بات کہ ان دھتکارے ہوئے لوگوں کیلئے کوئی حل پیش کرنے کی بجائے وہ طوائفوں کے ہاتھوں یرغمال بن گئے۔
فلم کے ابتدائی حصے میں ہیرو اس دنیا کا باشندہ بننے اور دکھنے کی کوشش کرتا ہے، بظاہر اس کی ماں بھی ہے، بھائی بھی ہے اور نام نہاد باپ سے بھی وہ جا ملتا ہے، سماج کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کیلئے ہر عمومی و رائج فعل سرانجام دیتا ہے، لیکن یہ سب فریب ہے، وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے، وہ بھولا ہوا ہے کہ وہ اس دنیا کا باسی نہیں، وہ دھتکارا ہوا فرد ہے، وہ کسی دوسری دنیا سے آیا اور اسے وہیں واپس جانا ہے، اس نظام میں وہ کہیں فٹ نہیں بیٹھتا، یہاں تک سب ریئیلٹی پر مبنی تھیم ہے، آگے یہ کردار حقیقی کومیک، افسانے یا اساطیر، میں ڈھلتا جاتا ہے، اداکار کا سب سے بڑا کمال اسی رنگ میں ڈھلنا تھا، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
حقیقت کی کم از کم تین اقسام ہر شخص میں پائی جاتی ہیں، ایک مادی حقیقت جو اس کے سامنے ہے، کمرہ، گلی، میز، کرسی، فرد کا اپنا جسم وغیرہ، دوسری نفسیاتی حقیقت ہے، جو جزبات و خیالات سے جڑی ہے، بعض اوقات فرد پر نفسیاتی حقیقت غالب آجائے تو وہ مادی حقیقت کو شکست دے سکتا ہے، جیسے کسی خاص محرک کے زیرِ اثر انسان انتہائی غیر معمولی اور ناقابلِ یقین فعل سرزد کر سکتا ہے، بیماری اور خوف کی حالت میں فرد کیلئے مادی حقیقت کے رنگ و بو بدل جاتے ہیں، تیسرا ثقافتی حقیقیت ہے، ایک ہی ثقافتی ماحول میں رہتے ہوئے انسانوں کی ثقافتی حقیقت مختلف معیار کی ہوتی ہے، اس کا تعلق مطالعے و عمرانیات سے ہے۔ اس فلم میں کردار کا حقیقت سے افسانے میں بدلنے کا عمل بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ وہ مادی حقیقت سے خود کو نفسیاتی حقیقت میں کنورٹ کرتا ہے اور یہ کام اداکار نے اس خوبی سے سرانجام دیا کہ اس کے چہرے کے تآثرات کے ساتھ گویا کہ پورا ظاہری و باطنی وجود کسی دوسری شخصیت میں ڈھل گیا ہو ۔
فلم میں عصر حاضر کا اہم مسئلہ بھی اٹھایا گیا کہ جوکر گھر آتے ہی سیدھا ٹی وی آن کر کے اس کے سامنے بیٹھ جاتا ہے، جہاں وہ اپنے پسندیدہ کامیڈین کو دیکھتا ہے، اس کامیڈین کو وہ اپنا روحانی باپ، گرو، مانتا ہے، لیکن یہ گرو اس زبردستی کی ولدیت کا مذاق اڑاتا ہے، اس جادوئی حقیقت کو پاگل پن سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جوکر اسے معاف نہیں کر پاتا کہ اس کے خلوص کی تضحیک کی گئی، جوکر ٹی وی سکرین کا عادی ہے، یہاں شاید یہ نکتہ بھی ناظرین پر آشکار کیا گیا کہ آج کے انسان کا محرک اندرونی نہیں بلکہ بیرونی ہے، ذرائع ابلاغ جس مواد کو انسانی ذہن میں انڈیلتے ہیں, انسان اسے حقیقت مانتا ہے، اشرافیہ کو اندازہ نہیں کہ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے وہ کسے پروان چڑھا رہے ہیں، اس فریب سے وہ انسانی ضمیر پر جو چوٹیں لگاتے آرہے ہیں، ایک دن اس کی قیمت انہیں چکانی پڑے گی کیونکہ یہ فریب زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا، جونہی فرد پہ حقیقت آشکار ہوتی ہے تو پھر وہ تمام تر اقدار کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے اپنے اصلی چہرے، اپنی بھیانک شخصیت کے ساتھ سامنے آتا ہے جو صرف تباہی کا پیش خیمہ ہوگا، یہی کام جوکر نے کیا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply